جمہوریت اور اسٹیبلشمنٹ کی کوئی مخصوص تعریف نہیں کی جا سکتی


جمہوریت ایک ایسا نظام حکومت ہے جس میں عوام کو سر چشمہ طاقت اور ریاستی فرائض کی ذمہ داری کے فرائض کا اختیار عوام کی طرف سے اپنے نمائندوں کو سونپا جاتا ہے۔ اس میں ریاست کے دیے ہوئے آئین کے اندر رہ کر تبدیلی بھی کی جا سکتی ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کے لفظی معانی : ادارہ، محکمہ، انتظامیہ یا قیام کے لئے جاتے ہیں، ہمارا ایک اسٹیبلشمنت ڈویژن کے نام سے ایک منسٹری بھی ہے جس کی ذمہ داریاں حکومت کے انتظامی امور اور ان کے مروج بارے ہیں۔ مگر سیاسی پس منظر میں اس کی اصطلاح میں فوج، ایجنسیز، بیورو کریٹ، سیاستدان اور امراء کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ چونکہ پاکستان کی تاریخ میں حکومت سازی کا عمل آدھے سے زیادہ عرصہ مارشل لاء اور فوجی جرنیلوں کے طابع رہا ہے لہذا عرف عام میں اسٹیبلشمنٹ کا مطلب زیادہ تر فوج کو ہی سمجھا جاتا ہے۔

مگر میری ذاتی رائے میں ہمیں کسی ادارے کا نام نہیں لینا چاہیے بلکہ یوں سمجھئے کہ یہ ایک سوچ اور مائنڈ سیٹ کا نام ہے جس میں شریک فوجی جرنیل، بیورو کریٹ، سیاستدان، ججز اور کاروباری لوگ بھی ہوسکتے ہیں اور اگر غور کریں تو سارے کردار ملتے ہیں جو اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہے لیکن طاقت کے عمل دخل سے تو بہرحال انکار نہیں کیا جاسکتا۔

ہمیں ایسے موضوعات کو ایڈریس بھی ایک خاص انداز میں کرنا چاہیے اور اس کی حساسیت کو سامنے رکھتے ہوئے ان کو زیادہ شدت کی طرف جانے سے بچانا ہو گا اور ہر کسی کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس طرح کے اختلافات کو ملکی بہتری کے پیش نظر ختم کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور اسی میں ہم سب کی بہتری ہے۔

ہمارے اس تاریخی عمل میں اگر دیکھیں تو کئی پہلووں سے دیکھا جا سکتا ہے کہ اس کے ہمارے ذہنوں، ہماری ترقی، ہماری معیشت، ہماری قومی اور ریاستی پہچان پر کیا اثرات مرتب ہوئے اور ہم اس کے کیا نتائج بھگت رہے ہیں۔

ذہنی اثرات کے پہلو سے دیکھیں تو ذہنوں پر خوف کے سائے ہیں، اظہار رائے کا حق گھٹن کا شکار ہے اور اس انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں بھی آمریت کے سمندر میں ڈبکیاں لیتا ہوا چھوٹے چھوٹے، وی لاگز، ویب سائٹس اور فیس بک کے تنکوں کا سہارا لے رہا ہے۔ تخلیقی صلاحیتیں زنگ آلود ہو رہی ہیں۔

ہماری قومی صلاحیتیں بے مقصد استعمال ہو رہی ہیں، افراد اور اداروں کو جو کام کرنے چاہیں وہ نہیں کر رہے بلکہ دوسرے معاملات میں الجھے ہوئے ہیں، قومی توانائیاں، وقت اور سرمایہ ضائع ہو رہا ہے۔ ہمارے باہمی اختلافات دشمنیوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔

ایک بیانیہ ہے ”ووٹ کو عزت دو“ تو دوسرا بیانیہ ”غدار وطن“ کا ہے۔ کوئی سول بالا دستی کی بات کرتا ہے تو دوسرا محب وطن کے حق میں دلائل کے انبار رکھتا ہے۔ سارا دن قوم لا حاصل اور فضول بحث میں پڑی ہوئی ہے۔ بے یقینی کی صورتحال نے خود اعتمادی کو تباہ کر دیا ہے۔ فرسودہ سوچ نے قومی جذبے کو نا امیدی میں دفن کر دیا ہے۔ تکبر، جہالت اور انا پرستی نے انسانیت کی قدر خاک میں ملا دی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کوئی جہاں بھی بیٹھا ہوا ہے وہ اسی ملک کا شہری ہے، ہمارا اپنا ہی ہے کوئی غیر نہیں، کوئی وزیر یا وزیر اعظم ہو، عدلیہ کا جج یا سربراہ ہو، فوج کا اہلکار یا سربراہ ہو، پولیس کے اہلکار یا سربراہ ہو یا سول افسر ہو، اسی قوم کا سپوت ہے اور اسی قوم نے اس کو پالا پوسا ہے اور اس کی تربیت کی ہے۔ اس کو اس مقام تک پہنچانے میں قوم کی توانائیاں، وقت اور مال صرف ہوا ہے۔

کوئی برتر یا کمتر نہیں ہے بلکہ سب اپنی اپنی جگہ پر منفرد صلاحیتوں کے مالک ہیں اور جس کو جتنا قوم کے سرمائے سے تربیت اور وسائل پر اختیار کا موقع زیادہ ملا ہے اتنا وہ بہتر ہوا ہے اور اس پر اتنی ہی ذمہ داریاں ہیں اسی لحاظ سے ذمہ داریوں کی نوعیت بھی ہے۔

بہتر تربیت اور وسائل تک رسائی بحیثیت شہری دوسروں سے بالا تر نہیں بناتے بلکہ ذمہ داریوں کے بوجھ کا سبب ہیں۔

ہمارے ان باہمی اختلافات اور چپقلشوں نے نہ صرف ہماری ذہنی صلاحیتوں کو تباہ کیا ہے بلکہ ہمیں معاشی، سیاسی، معاشرتی طور پر تباہ کر دیا ہے بلکہ اقوام عالم کی نظر میں ہم مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔

اس ساری تباہی کی وجہ ہماری سوچ ہے جو انفرادی ہے، ہم اپنے انفرادی فائدے کا تو سوچتے ہیں مگر اجتماعی یا قومی فائدے کا نہیں سوچتے کہ ہمارے عمل سے انفرادی فائدہ کتنا ہو گا اور قومی نقصان کتنا ہو گا۔

ہمیں اپنے حالات کو بدلنے کے لئے اپنی سوچ کو بدلنا ہو گا، اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر قربان کرنے کی سوچ کو پیدا کرنا ہو گا، قوم مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دینے کی سوچ کو پیدا کرنا ہو گا۔ جب ہم اپنے سپوتوں اور شہریوں کی تربیت اس طرح کی کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے تو پھر حالات خود بخود ہی بدل جائیں گے۔ جب ہم اپنے حقوق سے زیادہ ذمہ داریوں کا سوچیں گے تو حقوق خود بخود ہی ملتے چلے جائیں گے۔ جب ہماری نظر میں قومی مفادات ترجیحی سطح پر ہوں گے تو پھر ریاست کے آئین کی پاسداری بھی ہوگی، قانون کی حکمرانی بھی، اداروں کا احترام بھی اور جمہوری بالا دستی بھی۔

پھر نہ جمہوریت، اسٹیبلشمنٹ کو اپنا مجرم سمجھے گی اور نہ اسٹیبلشمنٹ، جمہوریت کو اپنا حریف۔ سب آئین کے طابع ہوں گے اور آئین، دیے گئے طریقہ کار کے تحت عوامی رائے کے طابع ہو گا۔

نفرتیں محبتوں میں بدل جائیں گی اور خوف کے سائے پر اعتمادی میں، ہم، ہم نہیں ہوں گے ایک جان دو قلب ہوں گے ۔

شعور کی نگرانی ہوگی تو احتساب کا عمل ہر طرف رائج ہو گا۔

یہ عہدوں کی کشش ختم ہو جائے گی اور ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہو گا قوم اہل لوگوں کو مجبور کر کے ذمہ داریاں سنبھالنے پر آمادہ کرے گی مگر سب جان چھڑوانے کی کوشش میں ہوں گے ۔

دنیا میں اچھی سوچ رکھنے والے انسان تو ہر عمل کرتے ہوئے یہ خیال رکھتے ہیں کہ اس کے دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور ہم ہیں کہ ابھی قومی سطح کی سوچ بھی نہیں بنا پائے۔

ہمیں اپنے ارد گرد بنائے ہوئے، مفاد پرستی، انا پرستی، نظریاتی، ملکی، مذہبی، لسانی اور قومی حصاروں کو توڑنا ہو گا اور انسانیت کے رشتے میں بندھنا ہو گا انسان سے نہیں اس کے برے فعل سے نفرت کرنا ہوگی اور یہ تب ہی ہو گا جب ہم اپنی سوچ کو وسیع کریں گے جب ہم اپنے سوچنے کے دائرے کو بڑھاتے چلے جائیں گے تو یہ چھوٹے جھوٹے اختلافات اور کشمکشیں خود ہی دم توڑتی چلی جائیں گی اور دنیا ایک امن کا گہوارہ بنتی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments