جو کچھ کہیں تو دریدہ دہن کہا جائے


سوچیئے اگر اس دنیا سے آوازوں کو ختم کر دیا جائے تو کیا یہ دنیا پر سکون ہو جائے گی یا پھر سکوت آمیز؟ یہ سچ ہے کہ لب بستگی اگر با معنی ہو تو ہزار داستانیں بیان کر جاتی ہے، پر یہی چپ اگر حق گوئی کے وقت سادھ لی جائے تو نہ فقط ذات کا سکون برباد کر دیتی ہے بلکہ انسان کے گرد لایعنی شور کا گھیرا کچھ ایسے تنگ کرتی ہے کہ نہ صرف انسان کا وجود دم بخود ہو کے دم توڑ دیتا ہے بلکہ اس کی بے صوت چیخ سماج سے ہر قسم کے احساس کی روح کو قبض کر لیتی ہے۔

آوازیں با معنی ہوں تو الفاظ کو جنم دیتی ہیں جبکہ زبان (بولی) کا وجود انہی الفاظ کہ مجموعے کہ علاوہ کچھ نہیں۔ کل ملا کے زبان مختلف آوازوں کا بامعنی تال میل ہی ہے اور اگر آوازوں کو معنویت سے خالی کر دیا جائے تو باقی شور رہ جا تا ہے۔

شور جو اپنے وجود میں سراسر آلودگی ہے۔ شور جو معنویت کا قاتل ہے۔ شور جو کہ ایک ہنگام بے سود ہے۔ اس لئے بے ہنگم اور بے معنی الفاظ چاہے کتنے ہی زور سے کیوں نہ بولے جائیں ان کا حاصل سوائے شور کہ کچھ نہیں۔ شور نہ صرف حق گوئی کا اثر زائل کر دیتا ہے پر ان سسکیوں کو بھی دبا دیتا ہے جن کا بدل شاید الفاظ کبھی نہیں بن سکتے۔

آج ہماری زندگی ایسے ہی شور سے گھری ہوئی ہے۔ ہر سو بکھری بے صوت چیخیں سماج سے احساس کی روح کو مسلسل قبض کر رہی ہیں۔ کہیں خون سے رستی لاشیں، تو کہیں دار پہ لٹکی آرزووں اور امیدوں سے بھرپور جوانی۔ کہیں ایک بیوہ کی سسکیاں تو کہیں بے بس ماں باپ کی آہیں، کہیں بھوک سے بلکتے ہوئے بچے تو کہیں کسی مجبور کے کانپتے ہاتھ۔ سب کی سب شور میں کہیں دب گئی ہیں۔

اس بیچ اگر کہیں سے کچھ با معنی آوازیں آ بھی جائیں تو ان پر دریدہ دہنی کی مہر ثبت کردی جاتی ہے۔ خبردار اگر کچھ بولے تو ۔ یہ مراعت فقط شاہ کے مصاحبوں کو میسر ہے۔ ہر دوسری صورت میں یہ ایک گناہ ہے۔ ایک قابل گرفت جرم ہے۔

سچ تو فقط حاکم کی جنبش لب سے جڑے صوتی اثرات ہیں۔ اور ہاں حاکم چھوٹا بڑا نہیں ہوتا، حاکم تو حاکم ہوتا ہے پھر سائیں ہوں یا اوپر والی سرکار (مطلب سائیں سے اوپر والی) ، حاکم چاہے خدائی مخلوق میں سے ہو یا خلائی مخلوق میں سے۔ سچ کو سند تو بہرحال اسی حد کے اندر حاصل ہے۔ اس کے باہر جو کچھ بیان ہے سب وہم و گمان ہے۔ اگر نہیں تو بھی زبان درازی سے زیادہ کچھ نہیں۔ اور زبان درازی تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ایک جرم ہے اور وہ بھی قابل گرفت جرم۔

مادر ملت سے لے کر مشال خان اور اب ناظم جوکھیو تک لیڈر ہوں یا عوام سب ہی زبان درازی کے مجرم ٹھہرے اور قرار واقعی سزا کے مستحق پائے گئے۔ اب بھی وقت ہے سمجھ جاؤ کہ شور کیوں ضروری ہے۔ تاکہ تم زبان درازی کے گھناؤنے جرم کے مرتکب نہ ہو جاؤ۔

اب اس سے زیادہ کوئی ریاست اپنے باسیوں کی فلاح کا اور کیا انتظام کرے؟ بس آنکھیں موند کے شور پہ سر دھنتے رہو۔ اور ہاں یاد رکھنا سر کا دھننا ہمیشہ اثبات میں ہو، نہ کہ نفی میں۔ ویسے بھی مثبت رہنا اچھا ہوتا ہے اس لئے ہمیشہ مثبت رہو چاہے اس کے لئے حق کی نفی ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔

یہاں ایک لحظہ ٹھہریئے اور سوچیئے، جی ہاں ایک بار تو اس جرم کا ارتکاب کر ہی لیجیے، تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کی سسکیاں بھی کہیں اس شور میں نہ دب جائیں۔ اور آپ ان کے لئے جس زندگی کا خواب دیکھ رہے ہیں کہیں بے حسی اس کی روح نہ قبض کر لے۔

بہت سال پہلے ہالی ووڈ کی ایک فلم ”دی کر ونیکلس آف نارنیا“ دیکھی تھی جس میں ایک ایسی تصوراتی دنیا دکھائی گئی تھی جہاں جانور بول اور سمجھ سکتے تھے پر وہ اپنے اوپر حکمرانی کے لئے دو ( 02 ) آدم کے بیٹوں اور دو ( 02 ) حوا کی بیٹیوں کے ظہور کے منتظر دکھائے گئے تاکہ وہ ان پر حکومت کر کے امن اور آتشی قائم کرسکیں اور ان کے نجات دہندہ ثابت ہو سکیں۔ کیونکہ بہرحال بولنے اور سمجھنے کی حس کے اصل حامل تو آدم زاد ہی ہیں۔

فلم کے دوسرے پارٹ ”پرنس کیسپیئن، دی ریٹرن ٹو نارنیا“ جس میں فلم کے مرکزی کردار بظاہر ایک سال بعد نارنیا کی تصوراتی دنیا میں واپس جاتے ہیں پر نارنیا میں اس عرصے میں 1300 سال گزر چکے ہوتے ہیں اور اب کا نارنیا پہلے سے کافی بدلا ہوا ہوتا ہے۔ اب سب جانور بات نہیں کرتے صرف چند ہی ہوتے ہیں جو بات کر پاتے ہیں۔ اور یہ خیال عام ہو چکا ہوتا ہے کہ حیوان نہ بات کر سکتے ہیں نہ بات سمجھ سکتے ہیں۔

دوسرے پارٹ کے شروعاتی مناظر میں سے ایک منظر میں چھوٹی ”ملکہ لوسی“ پیار سے ایک بھالو سے ہم کلام ہوتی ہے تو وہ اس پر حملہ آور ہوتا ہے لوسی اسے باز رہنے کے لئے جتاتی ہے کہ میں دوست ہوں پر بھالو نہیں رکتا اور مجبوراً وہ ملکہ کے ایک ہمراہی بونے کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔ جب ملکہ حیرت کا اظہار کرتی ہے کہ آخر یہ بھالو رکا کیوں نہیں تو اس پر بونا ایک بہت ہی معنی خیز جواب دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب آپ سالوں تک ایک مخلوق کو بیوقوف سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ بیوقوفوں والا برتاو کرتے ہیں تو وہ بھی آپ کے ساتھ ویسے ہی پیش آتے ہیں۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ آخر میں سب انسان کہ جن کو فلم میں ”تلمریں“ کہا گیا ہے ان ہی جانوروں سے جنگ کرتے ہیں جو بولنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

سوچیئے کیا ہمارا قومی مزاج بھی ایسے ہی رویوں کی بھینٹ نہیں چڑھ چکا ہے جہاں شعور کو شور کے گھیرے میں ایسا مقید کیا گیا ہے کہ اس بیچ حق گوئی زبان درازی اور سخن فہمی دریدہ دہنی سجھائی دینے لگی ہے۔ اور ہر سو یہی عالم ہے کہ طاقت کے مراکز بہر صورت حق گویوں سے ہی نبرد آزما دکھائی دیتے ہیں۔ شاید تبھی احمد فراز صاحب نے کہا تھا کہ۔

جو کچھ کہیں تو دریدہ دہن کہا جائے
یہ شہر کیا ہے؟ یہاں کیا سخن کہا جائے؟

ہمارا یہی گنگ آمیز قومی مزاج آج شاہ کے مصاحبوں کو یہ بات کرنے کا موقع دیتا ہے ہم عوام وہ آدم کے بیٹے اور حوا کی بیٹیاں نہیں جو حق حکمرانی رکھتے ہیں اور اپنے ہی وجود کے نجات دہندہ بننے کی اہلیت رکھتے ہیں بلکہ وہ 22 کروڑ بھیڑ بکریاں ہیں جو نہ بول سکتی ہیں نہ سمجھ سکتی ہیں بس ہانکی جا سکتی ہے۔ اسی لئے ( 07 ) سات دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے ہانکی جا رہی ہیں۔

ہمارے مقتدرین کیا چاہتے ہیں یہ تو یا وہ جانتے ہیں یا خدا جانتا ہے البتہ سالوں سے عوام کو بھیڑ بکریاں گرداننے اور سمجھنے کی سعی نے اتنا کام تو کیا ہے کہ اب عوام بھی بھیڑ بکریوں کی طرح پیش آرہے ہیں۔ جن کی باگیں شور کے پروردہ طاقت کے مراکز اپنے ہاتھوں میں قابو کیے ہوئے ہیں۔ ہر کوئی اپنے سدھائے ہوؤں کے پیچھے ہے۔

یہی ہوتا ہے جب شعور کی شہ رگ کاٹ دی جائے۔ جب حق گوئی کو دریدہ دہنی اور لایعنی شور کو کلمہ حق سے تشبیہ دی جائے۔ جب سخن کی موت ہوتی ہے تو پھر طاقتوروں کو اپنے ہی حلقہ یاراں میں بھی ایک آدم زاد ایسا نہیں ملتا جو سب کا نہ سہی ان کا ہی نجات دہندہ بننے کی اہلیت رکھتا ہو۔

پھر بات صرف یہاں تک نہیں رہتی بلکہ جب سوال اٹھانے اور سوال پوچھنے پہ اگر ہر لحظہ ہر گام پابندی لگائی جائے اور ہر بامعنی آواز پر زبان بندی کا حکم آ جائے تو پھر اس کے اثرات معاشرے کی تعمیری سوچ میں سرایت کر کے اس کو مفلوج بنا دیتے ہیں اور نتیجہ یہی نکلتا ہے جو آج ایچ ای سی کی رپورٹ میں ظاہر ہوا ہے جہاں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد، اور گورنمنٹ کالج لاہور جیسی ملک کی سب سے اعلیٰ جامعات کا معیار بھی کم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

اب ایک سرکاری ادارہ جہاں معلم کو کھٹکا رہے کہ کیا بولوں اور کیا نہ بولوں، اور نصاب کی ترتیب میں حقیقت پسندی، حقیقت گوئی اور نقاد فہمی کو یکسر مسترد کر دیا جائے وہاں شعور سے علم کا عین نکل جاتا ہے اور باقی صرف شور رہ جاتا ہے۔ اور پھر جن مراکز سے ہم شعور پروری کی امید لگائے بیٹھے ہوتے ہیں وہیں سے بربریت، تشدد پسندی اور بالآخر تشدد پرستی سے متاثر ہجوم پنپتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

ہمارے خلاف شروع سے لے کر آج کی تاریخ تک جو سازش سب سے منظم طریقے سے کی گئی ہے وہ علم سے دوری ہے۔ ہمیں علم کی عین کو جلا دینی ہوگی، ہمیں اپنے بچوں کو سوال کرنے اور سوال اٹھانے کی اجازت دینی پڑے گی۔ ہمیں ان میں نقاد فہمی کو جلا دینی پڑے گی اس سے پہلے کہ ہم گروہ در گروہ ایک بے ترتیب ہجوم بن کے اپنی ہی موت کا آپ ہی سبب بن جائیں۔

ہمیں آدم کے بیٹوں اور حوا کی بیٹیوں کو اگر دریدہ دہن نہ سہی تو بھی شعور پرور تو بنانا ہی پڑے گا۔ ایسا نہ ہو کہ اس گنگ فہمی میں ہم اپنے مردہ جسموں کو احترام سے دفنانے کا شعور بھی کھو دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments