با ادب، با ملاحظہ، ہوشیار


با ادب، با ملاحظہ، ہوشیار کا با آوازِ بلند اعلان ہوا۔ درباری کورنش بجا لائے اور بادشاہ سلامت ایک شانِ بے نیازی سے دربار میں تشریف لے آئے۔ بادشاہ سلامت نے تخت پر براجمان ہونے کے بعد وزیرِ بے تدبیر کی طرف التفات کی نظروں سے دیکھتے ہوئے فرمایا:

“اے مردِ دانا! کوئی فریادی ہو تو دربار میں پیش کیا جائے۔”

“حضور کا علامہ اقبال ۔۔ سوری۔ حضور کا اقبال بلند ہو۔ فریادی تو ان گنت تھے لیکن آپ کو زحمت سے بچانے کے لیے ہم نے انہیں محل کے صدر دروازے سے ہی رخصت کر دیا ہے۔ اب راوی چین ہی چین لکھتا ہے بلکہ سندھ ، جہلم اور چناب بھی چین ہی لکھتا ہے۔” وزیرِ بے تدبیر نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔

“کیا مطلب؟ راوی کی یہ مجال؟ چین کیوں لکھتا ہے؟ پاکستان کیوں نہیں لکھتا؟” بادشاہ سلامت جلال میں آ گئے۔

“حضور! محاورہ بولا تھا۔ میرا مطلب ہے کہ آپ کی رعایا آپ سے بہت خوش ہے۔” وزیرِ بے تدبیر نے فوراً وضاحت کی۔

” او کے ۔ او کے ۔ ہاں تو میرے ساتھیو! آج صبح جب میں ٹی وی دیکھ رہا تھا تو وہاں پیٹرول پمپس کے مناظر دکھائے جا رہے تھے۔ کئی ہونق عجیب سی شکلیں بنائے گاڑیوں میں پیٹرول ڈلوا رہے تھے۔ مجھے ان کی چہرے دیکھ کر ہنسی آ گئی تب ملکہ عالیہ نے یاد دلایا کہ میں ملک کا بادشاہ ہوں اور یہ بھی باور کرایا کہ وہ غم و غصے سے بھرے ہوئے ہیں، ایسا کیوں ہے جبکہ ہم تو خطے میں سب سے سستا تیل فراہم کر رہے ہیں؟ شاہی دانشور کہاں ہے؟ اس سوال کا جواب دیا جائے۔”

شاہی دانشور فوراً آداب بجا لایا اور یوں گویا ہوا۔

“بادشاہ سلامت! وہ غم و غصے میں ضرور تھے لیکن آپ کی وجہ سے نہیں، آپ سے پہلے کے سلاطین نے رعایا کو مصنوعی طور پر خوش رکھا ہوا تھا۔ اب حقیقت کھلنے پر وہ انہی سلاطین پر برہم ہیں۔”

بادشاہ سلامت کا جلال کم ہوا اورانہوں نے تبسم فرمایا، پھر وزیرِ بے تدبیر کی طرف رخ کیا۔

“ہم نے رعایا کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔ انہیں اتنا ہینڈسم بادشاہ دیا تا کہ وہ خبرنامہ دیکھتے ہوئے اپنے رنج و الم بھول کر اپنی قسمت پر ناز کر سکیں۔ ضرر رساں اشیا کو ان کی پہنچ سے دور کر دیا تا کہ ان کی صحت اچھی رہے۔ یہ گھی، انڈے اور چینی وغیرہ مضرِ صحت اشیا ہیں۔ ان کے استعمال سے ہائی کولیسٹرول، بلڈ پریشر اور شوگر جیسی بیماریاں لگ جاتی ہیں۔ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ رعایا کے لیے کچھ ایسا کریں جو ہم سے پہلے کسی سلطان نے نہ کیا ہو۔”

“حضور آپ نے جو کیا ہے اس سے پہلے کسی سلطان نے نہیں کیا۔ آپ کی فکرمندی چنداں ضروری نہیں۔” وزیرِ بے تدبیر نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔

“ہمارے پاس اللہ کا دیا اور آئی ایم ایف سے لیا بہت کچھ ہے، کیوں نہ خزانے کے منہ کھول دئیے جائیں۔ ملازمین کی تنخواہوں میں صد فی صد اضافہ کر دیا جائے” بادشاہ سلامت نے خوش ہو کر کہا۔

“حضور ایسا نہ کریں۔ آپ تو رعایا کو موہ مایا اور دنیا کی حرص و ہوس سے بچانے آئے ہیں۔ ہم نے رعایا پر نوٹوں کی برسات نہیں کرنی انہیں غریبی میں نام پیدا کرنے کی ہدایت کرنی ہے۔جب تک آپ تخت نشیں ہیں کسی سرکاری اور غیر سرکاری ملازم کی تنخواہ نہ بڑھائی جائے تاکہ وہ دنیاداری سے بے نیاز ہو کر روحانیت میں ترقی کر سکیں۔”

“بہت خوب! ہمیں اپنی ٹیم پر فخر ہے۔ واقعی اس قوم کو روحانی ترقی کی ضرورت ہے۔ مغرب نے مادی ترقی کر کے وہاں کے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ ہر وقت سائنسی علوم پر دسترس حاصل کرنے، نئی نئی ایجادات کرنے اور کائنات کے سر بستہ رازوں کی گتھیاں سلجھانے کی فکر میں مبتلا ہو کر خود کو ہلکان کرتے رہتے ہیں۔ ہم مغرب کو مغرب سے زیادہ جانتے ہیں۔ وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ ہم بھی ان کی نقالی میں خود کو ہلکان کریں لیکن ہم کوئی بندر تھوڑی ہیں، ہم رحونیت، سوری روحانیات کے بل پر ان سے آگے نکل جائیں گے۔ وہ ایک انفارمیشن ٹیکنالوجی کی یونیورسٹی بنائیں گے تو ہم دس روحانی جامعات بنائیں گے۔ اور کسی کو این آر او نہیں دیں گے”

درباری بادشاہ سلامت کے جوشِ خطابت پر اش اش کر اٹھے اور سر دھننے لگے۔ آخری جملہ بادشاہ سلامت کا تکیہ کلام تھا۔ اس لیے کسی کو بے ربط ہونے کا احساس نہ ہوا۔

 اتنے میں خدام میں سے ایک نے عرض کیا کہ ایک فریادی دربار میں حاضری کا متمنی ہے۔

“فریادی کو حاضر کیا جائے۔” بادشاہ سلامت نے ارشاد کیا۔

ایک مفلوک الحال بوڑھا لڑکھڑاتا ہوا اندر آیا اور آداب بجا لانے کے بعد گویا ہوا۔

“ظلِ الہٰی! آپ کی سرخ روئی کا طالب ہوں۔ مجھے مہنگائی کا جن خوابوں میں آ کر ڈراتا ہے۔ کئی طبیبوں سے علاج کروایا مگر خواب بند نہیں ہوا۔ یا تو تیل کی قیمت کم کر دیں یا پھر اگر اجازت ہو تو میں تھوڑا سا گھبرا لوں” بوڑھے نے لجاجت سے کہا۔

“نہ نہ میرے عزیز! پہلی بات یہی ہے کہ گھبرانا نہیں ہے۔” بادشاہ سلامت نے اسے منع کرتے ہوئے وزیر بے تدبیر کی طرف دیکھا۔

“حضور! آپ نے رعایا کا اتنا تیل نچوڑا ہے کہ بہت جلد ہمیں باہر سے تیل خریدنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ تیل کی پیداوار میں خود کفالت کے ساتھ ہی تیل خود بخود سستا ہو جائے گا۔” وزیرِ بے تدبیر نے فوراً مسئلے کا حل پیش کیا۔ یہ سن کر بوڑھا خوشی سے جھوم اٹھا۔

 “ظلِ الہٰی! اب تو گھبرانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اذنِ رخصت دیجیے، میں خواہ مخواہ فریاد کرنے چلا آیا، اب واپس اپنی قبر میں جا کر سکون کرتا ہوں۔”

“حضور! آج آپ نے رعایا سے خطاب بھی کرنا ہے۔ اجازت ہو تو شاہی ٹی وی کی ٹیم کو بلایا جائے۔” وزیر بے تدبیر نے یاد دہانی کرائی۔

“اجازت ہے” بادشاہ سلامت نے شانِ استغنا سے فرمایا۔

 شاہی کیمرہ مین نے کیمرہ سیٹ کیا اور بادشاہ سلامت نے خطاب شروع کیا۔

“میرے پاکیو! آج یہ بتاتے ہوئے ہمیں بے حساب خوشی ہو رہی ہے کہ ہم اپنی ریاست کو پاک بنانے کے لیے ایک اور تبدیلی لے آئے ہیں۔ آج سے چند ایسے قوانین نافذ کیے جا رہے جو مملکتِ خداداد میں نیک اور صالح قوم کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کریں گے۔ آج سے ہوٹلوں اور ڈھابوں پر پابندی ہو گی کہ وہ حکومت سے مبلغ سوا سو روپے سے حاصل کردہ سرٹیفیکیٹ نمایاں جگہ پر آویزاں کریں کہ ہوٹل میں باحیا اور با کردار گائے بکریوں کا گوشت دستیاب ہے۔ گوالوں اور بھانہ مالکان کے لیے لازم ہو گا کہ وہ دودھ دوہنے سے پہلے فجر کی نماز باجماعت ادا کریں۔ مرغیاں ذبح کرنے والوں کے لیے باوضو ہونے کی شرط بھی لازمی ہے۔ تنخواہ دار ملازمین پر لازم ہو گا کہ اپنی تنخواہ کی رقم کسی پاک جگہ پر رکھیں۔ نکاح کے خواہش مند جب تک نمازِ پنجگانہ کی ادائیگی کا ثبوت نہیں دیں گے ان کا نکاح نہیں پڑھایا جائے گا۔ فلموں، ڈراموں اور ٹی وی کے ہر قسم کے پروگراموں میں عورتوں کو دکھانے پر پابندی ہوگی۔ تاہم عورت کی آواز سنائی جا سکتی ہے لیکن اس شرط پر کہ وہ کوئی مرد نکال رہا ہو۔ تفریح گاہوں اور پارکوں میں داخلے سے پہلے پہلا کلمہ سنانا لازمی ہو گا۔

درباری سر دھن رہے تھے، تقریر ابھی جاری تھی کہ اچانک دھند سی چھا گئی۔ آنکھیں کھول کر دیکھا تو خاک پر میرے خواب کی کرچیاں پڑی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments