تجارت ہی نہیں، سیاست کا بھی قومی دفاع سے کوئی تعلق نہیں


سپریم کورٹ  کے چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے  کہ ’فوج کا کام ملک کا دفاع کرنا ہے، تجارت کرنا اور کمرشل منصوبے بنانا اس کا کام نہیں ہے‘۔ ان کے مطابق  ریاست کی زمین کا استحصال نہیں کیا جا سکتا۔ فوج جن قوانین کا سہارا لے کر کنٹونمٹ کی زمین پر کمرشل سرگرمیاں کرتی ہے، وہ غیر آئینی ہیں۔

سپریم کورٹ نے اس حوالے سے سیکریٹری دفاع کی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا  ہےکہ کنٹونمنٹ کی تمام زمینیں اصل حالت میں بحال کرنا ہوں گی۔  عدالت کا مؤقف ہے کہ  فوج ناجائز طور سے سرکاری زمینوں کو کمرشل مقاصد اور رہائشی اسکیموں کے لئے استعمال کرتی  رہی ہے لیکن یہ طریقہ نہ تو قانونی ہے اور نہ ہی اسے قبول کیا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا  کہ ’اگر فوج کی غیر قانونی تعمیرات کو چھوڑ دیا تو باقی کو کیسے گرائیں گے‘۔

چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس قاضی محمد امین اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سہ رکنی بنچ نے فوجی زمینوں کو کمرشل مقاصد کے لئے استعمال سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران یہ سوالات اٹھائے ہیں۔   سماعت کے دوران چیف جسٹس اور بنچ کے دیگر ارکان کے ریمارکس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ   کمرشل منصوبوں اور تجارتی مقاصد کے لئے فوج ملک کے مروجہ قوانین  کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوتی رہی ہے۔ چیف جسٹس نے ایسی سب سرگرمیوں کو خلاف آئین قرار دیا ہے۔  جسٹس قاضی محمد امین کا کہنا تھا کہ اس طریقہ سے فوج کی بطور ادارہ شہرت کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

ملک کی اعلیٰ ترین ججوں کی طرف سے  دفاعی مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے سوال اٹھایا  گیا ہے کہ ’فوج کے ساتھ قانونی معاونت نہیں ہوتی، وہ جو چاہتے ہیں کرتے رہتے ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہی وزارت دفاع کیسے ان سرگرمیوں کو برقرار رکھے گی‘۔ اسی حوالے سے چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کیا کہ ’اٹارنی جنرل صاحب فوج کو قانون کون سمجھائے گا؟‘  آج کی سماعت کے دوران اس حوالے سے ججوں کے دلچسپ ریمارکس سننے میں آئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’سینما، شادی ہال اور گھر بنانا اگر دفاعی سرگرمی ہے تو پھر دفاع کیا ہو گا؟ صرف کراچی کا مسئلہ نہیں پورے ملک کا یہی حال ہے، کوئٹہ اور لاہور میں بھی دفاعی زمین پر شاپنگ مال بنے ہوئے ہیں‘۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ ’کیا سینما، شادی ہال، سکول اور گھر بنانا دفاعی مقاصد ہیں؟ اعلیٰ فوجی افسران کو گھر دینا دفاعی مقاصد میں نہیں آتا، فوج کو معمولی کاروبار کے لیے اپنے بڑے مقاصد پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے اور اپنے ادارے کے تقدس کا خیال رکھنا چاہیے‘۔

چیف جسٹس نے یہ  ریمارکس بھی  دیے کہ کنٹونمنٹ کی زمین دفاعی مقاصد پورا ہونے پر حکومت کو واپس کرنا ہوتی ہے‘۔ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ’ فوجی سرگرمیوں کے لیے گیریژن اور رہائش کیلئے کنٹونمنٹس ہوتے ہیں‘۔

اس موقع پر سیکرٹری دفاع نے عدالت کو بتایا کہ قانون کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کے لیے تینوں افواج کی مشترکہ کمیٹی بنا دی  گئی ہے۔ عدالت نے کہا کہ ’کنٹونمٹس کی تمام زمین اصل حالت میں بحال کرنا ہو  گی، فوج کے تمام قواعد اور قوانین کا آئین کے مطابق جائزہ لیں گے‘۔

گزشتہ ہفتے بدھ کے روز کراچی میں غیر قانونی تجاوزات اور فلاحی مقاصد کے لیے الاٹ کی گئی زمینوں کے حوالے سے مقدمات کی سماعت کے بعد چیف جسٹس گلزار احمد نے اپنے حکم نامے میں قرار دیا تھا کہ کنٹونمنٹ کی زمینوں پر ہاؤسنگ اور کمرشل سرگرمیاں کنٹونمنٹ ایکٹ 1924 اور لینڈ اکیوزیشن ایکٹ 1937 کی خلاف ورزی ہیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا تھا کہ کنٹونمنٹ بورڈ کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے جو زمینیں الاٹ کی ہیں وہ صرف کینٹ مقاصد کے لیے ہیں اور وہاں کمرشل اور ہاؤسنگ منصوبے غیر قانونی ہیں۔ جمعے کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سیکریٹری دفاع پیش ہوئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ مستقبل میں کنٹونمنٹ کی زمینیں دفاعی مقاصد کے علاوہ کسی کام کے لیے استعمال نہیں کی جائیں گی اور اس حوالے سے انہیں مسلح افواج کے سربراہان نے آگاہ کر دیا ہے۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی قیادت میں کام کرنے والے اس بنچ  کے ارکان کے ریمارکس اور صورت حال کی نشاندہی کے بعد وزارت دفاع کو  نئی رپورٹ جمع کروانے کے لئے چار ہفتے کی مہلت دی گئی ہے اور  سیکریٹری دفاع  لیفٹیننٹ جنرل (ر) میاں محمد ہلال حسین  نے وعدہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کی خواہش اور ہدایت کے مطابق اقدام کئے جائیں گے۔  سپریم کورٹ کے ججوں نے اس موقع پر متعدد ایسے منصوبوں کا حوالہ بھی دیا جو ان کے خیال میں ناجائز طور سے تعمیر کئے گئے تھے اور جن کا ملکی دفاع سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔ وزارت دفاع ابھی تک اعلیٰ عدالت کو مطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہے۔ تاہم  اس حوالے سے دو نکات قابل غور ہیں اور چیف جسٹس گلزار احمد کو ان  کے جواب فراہم کرنا ہوں گے۔ ایک یہ  کہ جو غیر قانونی سرگرمیاں گزشتہ 70 برس سے جاری ہیں، انہیں ایک  عدالتی فیصلہ کے ذریعے کیوں کر تبدیل کیا جاسکے گا۔

  اس حوالے سے دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ  جن سوالوں کو آج ملک بھر کے میڈیا میں جلی سرخیوں کے ساتھ نمایاں خبر کے طور پر شائع و نشر کیا گیا ہے، وہ سب چیف جسٹس یا بنچ میں شامل دیگر ججوں کے ریمارکس پر مشتمل تھے۔ یہ کوئی حتمی عدالتی فیصلہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا  سپریم  کورٹ کبھی کوئی ایسا حکم صادر کرسکے گی جس میں دوٹوک الفاظ میں فوجی افسروں اور اہلکاروں کو مخصوص غیر قانونی سرگرمیوں کا ذمہ دار قرار دے کر قصور واروں کا تعین کیا جائے اور  انہیں اس قانون شکنی پر سزا بھی دی جائے۔ یا یہ معاملہ محض گرمجوش ریمارکس  کی حد تک ہی  رہے گا اور اس کے بعد عدالتی  گورکھ دھندے میں  یہ سارے اہم اور چبھتے ہوئے سوال گم ہوجائیں گے۔ یا پھر ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے جیالوں کو خفت اور شرمندگی سے بچانے کے لئے  حکومت وقت  استقامت اور وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی ایسا مسودہ قانون پارلیمنٹ  سے منظور کروالے گی جس کے تحت ماضی میں کی جانے والی ساری قانون شکنیوں کو معاف کردیا جائے  اور مستقبل میں بھی  ایسے کمرشل منصوبوں پر کام جاری رکھنے کی اجازت مرحمت کردی جائے تاکہ  ملک کے محافظ  محفوظ گھروں  میں رہ سکیں اور انہیں  زندگی کے کسی بھی  مرحلہ پر کبھی کوئی مالی پریشانی پیش نہ آئے۔

اس حجت پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنا بھی کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔ فوج کی وفاداری کا کلمہ پڑھتے ہوئے ہمارے وزیر اطلاعات فواد چوہدری ایسے کسی قانون کے حق میں زمین آسمان کے قلابے ملا سکتے ہیں اور حکمران جماعت کے علاوہ  ملک کی دوسری سیاسی جماعتیں بھی اس مشکل وقت میں فوج کو سپریم کورٹ کے ’عتاب‘ سے بچانے کے لئے اپنا قومی  فریضہ ادا کرنے میں  پیش پیش ہوں گی۔ قوم کو بخوبی یاد ہوگا گزشتہ سال جنوری میں ترمیمی آرمی ایکٹ منظور کرنے میں تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے کچھ ایسی ہی حب الوطنی اور فرض شناسی کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی ایک عدالتی فیصلہ میں  آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کو غیر قانونی اور خلاف قاعدہ قرار دیا گیا تھا۔  تاہم اس عہدہ کی نزاکت کے پیش نظر عدالت عظمی نے بھی جنرل باجوہ کو عہدہ چھوڑنے کا حکم دینے کی بجائے ، بیچ کا راستہ اختیار کرنا ضروری سمجھاتھا۔ عدالت نے ہدایت کی تھی کہ اس سلسلہ میں حکومت چھے ماہ کے اندر  پارلیمنٹ سے قانون سازی کرواکے اس جھول کو ختم کرسکتی ہے۔  وقت اور تجربے نے ثابت کیا ہے کہ  پاکستان میں قانون سازی بھی جھرلو  گھمانے جیسا ہی ہوتا ہے۔  ایسے موقع پر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے درپے سیاست دان قومی مفاد کے نام پر  ایک دوسرے کے گلے لگنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔

سپریم کورٹ میں   مسلح افواج کی طرف سے  سرکاری املاک کے کمرشل استعمال کے سوال پر  ہونے والی سماعت کے حوالے سے دو اہم اور دلچسپ سوال بھی سامنےآتے ہیں:

  1)حکومت ففتھ جنریشن وار یا ہائیبرڈ وار فئیر کا نام لیتے ہوئے ملک میں ہمہ قسم اختلاف رائے کو وطن فروشی اور دشمن کے ایجنڈے کو فروغ دینے سے تعبیر کرتی رہی ہے۔ اس حوالے سے قومی اداروں پر تنقید کو ملک دشمنی اور غداری قرار دینے میں دیر نہیں کی جاتی۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیر داخلہ شیخ رشید اس سلسلہ میں خاص طور سے قوم کی رہنمائی کرتے رہتے ہیں۔ تاہم آج سپریم کورٹ کے ججوں نے   فوج کے کمرشل منصوبوں اور تجارتی سرگرمیوں کے حوالے سے  سوالات اٹھائے ہیں اور چیف جسٹس نے  دبنگ انداز میں کہا ہے کہ فوج  من مانی کرتی ہے اور اس کے کمرشل منصوبے دفاعی مقاصد  سے تعلق نہیں رکھتے۔    اگر کوئی عام شخص کسی بحث میں ان مسائل کی طرف نشاندہی کرتا تو اس پر  ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے کا  سرکاری فتوی ٰ جاری ہوتے دیر نہ لگتی۔ تاہم سپریم کورٹ کے ججوں کے تاثرات سے حکومت اور فوج کو سمجھنا چاہئے کہ  اہم ترین قومی ادارے کی زور زبردستی سے ناراضی  اور مایوسی  کتنی گہری اور سنگین ہے۔ اب اسے کسی قانونی ترمیم سے دور نہیں کیا جاسکتا بلکہ رویوں اور طرز عمل میں مستقل اور دوررس تبدیلی ضروری ہوگی۔ ورنہ عسکری اداروں اور عوام کے درمیان خلیج گہری اور وسیع ہوتی رہے  گی۔

2)سرکاری زمینوں کو ناجائز طور سے تجارتی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا جو عسکری طریقہ سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران سامنے آیا ہے، ملکی سیاست اور حکومتی امور کے بارے میں بھی  فوجی اسٹبلشمنٹ ایسا ہی رویہ اختیار   کئے ہوئے ہے۔ اس کی طرف نشاندہی بھی کی جاتی ہے ۔ سول سوسائیٹی، بعض تجزیہ نگار اور سیاست دان اسے اس وقت ملکی سالمیت کے حوالے سے اہم ترین مسئلہ بتانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ یعنی سپریم کورٹ  کے ججوں نے آج یہ کہا کہ فوج کے تجارتی منصوبوں  کا ملکی دفاع سے کوئی تعلق نہیں ۔ بعینہ یہ سوال بھی اٹھایا جاتا  رہے گا کہ  فوج قومی سیاست میں حصہ دار بن کر قومی دفاع کا کوئی مقصد پورا نہیں کرسکتی۔   تاہم تجارتی و سیاسی مقاصد کئی دہائی سے  بیک وقت پورے کئے جارہے ہیں۔ مصنفہ اور محقق عائشہ صدیقہ قرار دے چکی ہیں کہ فوج  اس لئے سیاست میں اثر و رسوخ برقرار رکھنے پر مجبور ہے کیوں کہ ملکی معیشت میں اس  کے کمرشل  منصوبوں کا حصہ بہت زیادہ ہے۔ ان کے مطابق جب تک فوج کے کمرشل و تجارتی مفادات ختم نہیں ہوں گے،  ملکی سیاست کو  اس کے چنگل سے نجات دلانا ممکن نہیں ہوگا۔

اب یہ دیکھنا ہوگا کہ   عدالت عظمیٰ  کے ججوں نے آج فوج کے تجارتی مقاصد کے خلاف جس  ’جہاد‘ کا عزم ظاہر کیا ہے ، وہ کس حد تک پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے۔ کیوں کہ یہ طے ہے اگر  تمام  عسکری تجارتی منصوبے  سول کنٹرول میں آجائیں تو فوجی قیادت کو ایک  گونہ اطمینان قلب بھی نصیب ہوگا اور سیاسی اختیار کی طمع بھی کم ہوسکے گی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments