لاٹری – شرلی جیکسن کا شہرہ آفاق افسانہ


مترجم: ڈاکٹر آفتاب احمد

ستائیس جون کی صبح شفاف اور دھو پیلی تھی۔ گرمی کے طویل دنوں کی تازہ گرماہٹ اپنے اندر سموئے ہوئے۔ فطرت نے ہری ہری گھاس کی چادر پر رنگ برنگے پھولوں کی پچکاریاں چھوڑ کر ماحول کو بہار آگیں بنا دیا تھا۔ دس بجے کے قریب گاؤں کے لوگ ڈاک خانے اور بینک کے درمیان والے میدان میں لاٹری کے لئے جمع ہونے لگے۔ کچھ گاؤں کی آبادی اتنی زیادہ تھی کہ لاٹری کی تقریب میں دو دن لگ جاتے تھے۔ اس لیے اسے چھبیس جون کو ہی شروع کرنا پڑتا تھا۔ لیکن اس گاؤں میں، جس کی آبادی تقریباً تین سو افراد پر مشتمل ہوگی، لاٹری کا پورا پروگرم دو گھنٹے میں ختم ہو جاتا تھا۔ پروگرام صبح دس بجے شروع ہوتا اور اتنی دیر میں نمٹ جاتا کہ گاؤں والے گھر جاکر آرام سے دو پہر کا کھانا کھا سکتے تھے۔

ظاہر ہے کہ پہلے بچے اکٹھا ہوئے۔ حال ہی میں گرمی کی چھٹیاں ہوئی تھیں۔ زیادہ تر بچے اس آزادی کے سبب بے چینی سی محسوس کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر تک تو وہ خاموشی سے اکٹھا ہو تے رہے۔ پھر ان کے ہنگامے اور شور و غل شروع ہو گئے۔ وہ ابھی بھی اسکول، کلاس، اساتذہ اور ان کی جھڑکیوں کے متعلق باتیں کر رہے تھے۔ بابی مارٹن نے اپنی جیبوں میں پتھر ٹھونس رکھے تھے اور جلد ہی دوسرے بچوں کی جیبیں بھی پتھروں سے بھر گئیں۔ انھوں نے گول گول، چکنے چکنے پتھروں کا انتخاب کیا۔

بابی اور ہیری جو نس اور ڈکی ڈیلا کروئکس، جسے گاؤں والے ڈیلا کروئے کہتے تھے، نے آخر کار میدان کے ایک گوشے میں پتھروں کا ایک بڑا سا ڈھیر جمع کر لیا۔ وہ دوسرے بچوں کی لوٹ پاٹ سے پتھروں کی حفاظت کر رہے تھے۔ لڑکیاں ایک کنارے کھڑی آپس میں گفتگو کر رہی تھیں۔ وہ کنکھیوں سے لڑکوں کو دیکھ لیا کرتی تھیں۔ زیادہ چھوٹے بچے دھول میں لوٹیں لگا رہے تھے، یا اپنے بڑے بھائی بہنوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔

دھیرے دھیرے مرد اکٹھا ہونے لگے۔ وہ اپنے بچوں کو دیکھتے ہوئے کھیتی باڑی، بارش، ٹریکٹر اور ٹیکس کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ پتھروں کے ڈھیر سے دور، میدان کے ایک کونے میں وہ لوگ ایک ساتھ کھڑے تھے اور آہستہ آہستہ ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ وہ ہنسنے سے زیادہ مسکرا رہے تھے۔ مردوں کے آنے کے تھوڑی دیر بعد ان کی بیویاں پہنچیں۔ وہ پرانے دہرانے روزانہ کے گھریلو کپڑوں اور سویٹر میں ملبوس تھیں۔ انھوں نے ایک دوسرے کو ہیلو ہائے کہا اور ہلکی پھلکی گپ شپ کے بعد اپنے شوہروں کے پاس جا کھڑی ہوئیں۔

جلد ہی ان عورتوں نے اپنے بچوں کو پکارنا شروع کیا۔ چار پانچ دفعہ پکارنے کے بعد بچے بادل ناخواستہ ان سے آ ملے۔ بابی مارٹن اپنی ماں کے ہاتھوں کے نیچے سے سرک کر نکل گیا اور ہنستا ہوا واپس پتھروں کے ڈھیر کی طرف بھاگا۔ اس کے باپ نے ڈانٹ کر بلایا تو وہ جلدی سے آ کر باپ اور بڑے بھائی کے درمیان کھڑا ہو گیا۔

اسکوائر ڈانس، نوجوان کلب اور ہیلو وین کی تقریبات کی طرح لاٹری کی تقریب کی رہنمائی بھی مسٹر سمرس کرتے تھے۔ ان سماجی تقریبات کے لئے ان کے پاس کافی وقت تھا اور جوش و توانائی بھی۔ وہ گول چہرے کے خوش مزاج شخص تھے۔ ان کا کوئلے کا بزنس تھا۔ ان کے کوئی اولاد نہ تھی اور ان کی بیوی بہت بد مزاج اور چڑچڑی تھیں، اس لیے لوگوں کو ان پر بڑا ترس آتا تھا۔ جب میدان میں وہ لکڑی کا ایک سیاہ ڈبہ لیے پہنچے، تو گاؤں کی بھیڑ میں بھنبھناہٹ بھری آواز ابھری۔

انھوں نے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا : ”حضرات، آج تھوڑی تاخیر ہو گئی۔“ ان کے پیچھے پیچھے پوسٹ ماسٹر، مسٹر گریوس ایک تپایا اسٹول لیے ہوئے آئے۔ اسٹول کو میدان کے بیچ میں رکھ دیا گیا۔ مسٹر سمرس نے سیاہ ڈبے کو اسٹول پر رکھا۔ گاؤں والوں نے ان سے کچھ دور کھڑے رہ کر اپنے اور اسٹول کے درمیان ایک فاصلہ قائم رکھا۔ جب مسٹر سمرس نے دریافت کیا کہ ”آپ میں سے کوئی ہمارا ہاتھ بٹانا چاہے گا؟“ تو لوگ کشمکش میں نظر آئے۔ پھر دو آدمی، مسٹر مارٹن اور ان کا سب سے بڑا بیٹا بکسٹر، آگے بڑھے تاکہ جب مسٹر سمرس ڈبے میں رکھی پرچیوں کو ملائیں تو وہ اسٹول پر ڈبے کو تھامے رکھیں۔

لاٹری کا اصلی ساز و سامان کب کا کھو چکا تھا۔ اسٹول پر رکھا یہ سیاہ ڈبہ گاؤں کے بزرگ ترین شخص، مسٹر وارنر کی پیدائش سے پہلے سے استعمال ہوتا آ رہا تھا۔ مسٹر سمرس گاؤں والوں کے سامنے اکثر نیا ڈبہ بنوانے کی بات اٹھاتے تھے، لیکن کسی کو روایت میں اتنی بھی تبدیلی گوارا نہیں تھی، جس کی نمائندگی اس سیاہ ڈبے سے ہوتی تھی۔ اس کے متعلق ایک کہانی تھی کہ موجودہ ڈبے میں اس سے پہلے والے ڈبے کے کچھ ٹکڑے لگے تھے اور پہلے والا ڈبہ اس وقت بنا تھا جب گاؤں کو آباد کرنے کے لیے کچھ لوگ یہاں آ کر بسے تھے۔

ہر سال لاٹری کی تقریب کے بعد مسٹر سمرس نئے ڈبے کی بات اٹھاتے تھے۔ لیکن ہر سال کسی اقدام کے بغیر یہ گفتگو دھیرے دھیرے معدوم ہو جاتی تھی۔ سیاہ ڈبہ سال بہ سال مزید خستہ حال ہوتا گیا۔ اب تو یہ پوری طرح سیاہ بھی نہیں رہ گیا تھا۔ اس کے ایک طرف کی لکڑی بری طرح اکھڑ گئی تھی، جس سے اصلی لکڑی کا رنگ نظر آتا تھا۔ کہیں کہیں ڈبے کا رنگ اڑ گیا تھا یا اس پر دھبے پڑ گئے تھے۔

مسٹر مارٹن اور ان کے بیٹے بکسٹر نے سیاہ ڈبے کو اسٹول پر تب تک تھامے رکھا جب تک مسٹر سمرس نے اپنے ہاتھوں سے پرچیوں کو پوری طرح ملا نہیں دیا۔ چونکہ لاٹری کی تقریب سے متعلق بہت سی باتیں یا تو فراموش کی جا چکی تھیں یا انھیں ترک کیا جا چکا تھا، اس لیے مسٹر سمرس کئی پشتوں سے استعمال ہوتے آ رہے لکڑی کے ٹکڑوں کی جگہ پرچیاں استعمال کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ان کی دلیل تھی کہ لکڑی کے ٹکڑے اس زمانے میں بالکل مناسب تھے جب گاؤں بہت چھوٹا تھا۔

لیکن اب جبکہ گاؤں کی آبادی تین سو سے زیادہ افراد پر مشتمل تھی اور اس میں اور بھی اضافے کا امکان تھا، اس لیے کسی ایسی چیز کا استعمال لازمی تھا جو ڈبے میں آسانی سے سما سکے۔ لاٹری سے پہلے والی رات کو مسٹر سمرس اور مسٹر گریوس نے کاغذ کی پرچیاں بنا کر ڈبے کے اندر رکھ دی تھیں۔ پھر ڈبے کو مسٹر سمرس کی کوئلہ کمپنی میں لے جایا گیا۔ وہاں اسے الماری میں بند کر کے تب تک کے لیے تالا لگا دیا گیا جب تک اگلی صبح مسٹر سمرس اسے میدان میں لے جانے کے لیے تیار نہ ہو جائیں۔ سال کے باقی دنوں میں ڈبہ کبھی ایک جگہ رہتا تو کبھی دوسری جگہ۔ ایک سال یہ مسٹر گریوس کے گودام میں رہتا تو دوسرے سال یہ ڈاکخانہ میں ان کے پیروں تلے پڑا رہتا۔ اور کبھی یہ مارٹن کی کرانے کی دکان میں الماری میں رکھ دیا جاتا۔

مسٹر سمرس کے لاٹری کی تقریب کے آغاز کے اعلان سے پہلے دنیا بھر کی رسومات ہوتیں۔ ایک فہرست تیار کی جاتی۔ ۔ کنبے کے سربراہوں کی فہرست، ہر کنبے کے اندر ہر گھر کے سربراہوں کی فہرست، ہر کنبے کے ہر گھر کے ہر رکن کی فہرست۔ لاٹری کی تقریب کے منتظم کے طور پر مسٹر سمرس سے پوسٹ ماسٹر کے ذریعے ایک رسمی قسم کی حلف دلوائی جاتی۔ کچھ لوگوں کو یاد تھا کہ ماضی میں لاٹری کے منتظم نے کبھی ایک گیت گایا تھا۔ اسے ہر سال بادل ناخواستہ، بے سرے انداز میں، مشینی طور پر گا کر دہرایا جاتا۔

کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ لاٹری کے پہلے منتظم نے جب وہ گیت پڑھا یا گایا تھا تو بالکل اسی طرح کھڑا ہوا تھا۔ دوسروں کا خیال تھا کہ منتظم کی ذمہ داری تھی کہ وہ لوگوں کے بیچ میں ٹہلتا گھومتا رہے۔ لیکن برسوں پہلے اس رسم کو ترک کیا جا چکا تھا۔ پہلے ایک رسمی استقبالیہ جملہ بھی ہوتا تھا جو لاٹری کا منتظم ڈبے سے پرچی نکالنے والے شخص کو مخاطب کرتے ہوئے بولتا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ رسم بھی بدل گئی۔ اب صرف اتنا ہی ضروری سمجھا جاتا تھا کہ منتظم پرچی نکالنے والے شخص کو ذاتی طور پر مخاطب کرے۔ مسٹر سمرس ان باتوں کے ماہر تھے۔ اپنی صاف اور سفید شرٹ اور نیلی جینس میں سیاہ ڈبے پر لاپرواہی سے ایک ہاتھ رکھے، اور مسٹر گریوس اور مارٹن سے مسلسل باتیں کرتے ہوئے، وہ نہایت معقول اور اہم شخص نظر آتے تھے۔

بالآخر جب مسٹر سمرس گفتگو ختم کر کے گاؤں والوں کی طرف مڑے، تو اسی وقت مسز ہچنسن تیز قدموں سے چلتی ہوئی میدان میں پہنچیں۔ ان کا سویٹر ان کے کندھوں پر پڑا تھا۔ وہ مجمعے میں پیچھے کی طرف ایک جگہ داخل ہوئیں۔ ”میں تو بالکل ہی بھول گئی تھی کہ آج کون سا دن ہے،“ انھوں نے مسز ڈیلا کروئے سے کہا جو ان کی بغل میں کھڑی تھیں۔ دونوں دھیرے سے ہنسیں۔ ”میں سمجھی کہ میرے میاں باہر لکڑیاں جمع کر رہے ہیں،“ مسز ہچنسن نے بات جاری رکھی۔ ”میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ بچے بھی نہیں تھے۔ پھر مجھے یاد آیا کہ آج تو ستائیس جون ہے، اور میں بھاگی ہوئی آ رہی ہوں۔“ انھوں نے اپنے ایپرن سے ہاتھ پونچھا۔

مسز ڈیلا کروئے بولیں ”لیکن آپ وقت پر پہنچ گئی ہیں۔ وہ لوگ تو ابھی وہاں کھڑے باتیں ہی کر رہے ہیں۔“

مسز ہچنسن نے گردن تان کر مجمع کا جائزہ لیا اور اپنے شوہر اور بچوں کو اگلی صف میں کھڑا دیکھا۔ انھوں نے مسز ڈیلا کروئے کی بانہوں کو تھپتھپا کر خدا حافظ کہا اور مجمع کے اندر آگے بڑھیں۔ لوگوں نے خوش دلی سے الگ ہٹ کر انھیں جانے کا راستہ دیا۔ دو یا تین لوگوں نے بس اتنی اونچی آواز میں کہ مجمع کے اوپر سے سنائی پڑ جائے، کہا ”یہ رہیں ہماری مسز ہچنسن،“ اور ”دیکھو تو بل، آخر کار یہ پہنچ ہی گئیں۔“ مسز ہچنسن اپنے شوہر سے جا ملیں، اور مسٹر سمرس جو ان کے منتظر تھے، خوش دلی سے مسکرا کر بولے، ”ٹیسسی (مسز ہچنسسن) ، ہمیں لگ رہا تھا کہ آپ کے بغیر ہی ہمیں تقریب شروع کرنی پڑ جائے گی۔“ مسز ہچنسن مسکراتے ہوئے بولیں ”برتنوں کو واش بیسن میں چھوڑ آنا تو مناسب نہیں تھا۔ کیوں؟ ٹھیک کہا نہ میں نے جوئے؟“ ہنسی کی ہلکی سی لہر مجمع میں دوڑ گئی۔ مسز ہچنسن کے پہنچنے کے بعد لوگ اپنی جگہوں پر جم کر کھڑے ہو گئے۔

مسٹر سمرس نے سنجیدہ لہجے میں کہا: ”میرا خیال ہے کہ اب ہم تقریب شروع کر دیں اور اسے جلد از جلد نمٹا کر اپنے اپنے کاموں پر واپس ہو جائیں۔ کیا یہاں کوئی غیر حاضر بھی ہے؟“

” ڈنبار“ ، کئی لوگ بول پڑے۔ ”ڈنبار۔ ڈنبار۔“

مسٹر سمرس نے فہرست پر نظر ڈالی۔ بولے، ”کلائڈ ڈنبار۔ ہاں، وہ نہیں ہیں۔ دراصل ان کا پیر ٹوٹ گیا ہے۔ ان کی جگہ کون پرچی نکالے گا؟“

” میں نکالوں گی“ ایک خاتون بولیں۔ مسٹر سمرس انھیں دیکھنے کو مڑے۔ انھوں نے کہا، ”شوہر کی جگہ بیوی پرچی نکال سکتی ہے۔ لیکن جینی، کیا تمھارا کوئی بڑا بیٹا نہیں جو تمھارے بجائے پرچی نکالے؟“ حالانکہ مسٹر سمرس اور گاؤں کے ہر شخص کو جواب اچھی طرح معلوم تھا، لیکن لاٹری کے منتظم کا یہ فرض تھا کہ وہ ایسے رسمی سوال پوچھے۔ مسٹر سمرس نے احتراماً مسز ڈنبار (جینی) کے جواب کا انتظار کیا۔

وہ حسرت آمیز لہجے میں بولیں ”ہوریس ابھی سولہ برس کا نہیں ہوا۔ اس سال مجھے ہی اپنے شوہر کی جگہ لینی پڑے گی۔“

”ٹھیک ہے“ مسٹر سمرس بولے۔ انھوں نے اپنے ہاتھ میں پکڑی فہرست میں کچھ لکھا۔ پھر پوچھا، ”واٹسن خاندان کا کوئی مرد اس سال پرچی نکال رہا ہے؟“

مجمع میں سے ایک دراز قد لڑکے نے ہاتھ اٹھا کر کہا، ”جی جناب، اپنی اور اپنی ماں کی طرف سے میں پرچی نکالوں گا۔“ مجمع میں کچھ اس قسم کی آوازیں ابھریں ”بہت اچھے جیک“ اور ”خوشی کی بات ہے کہ تمھاری ماں کے پاس اس کام کے لیے کوئی مرد تو ہے۔“ جیک نے گھبرا کر آنکھیں جھپکائیں اور سر جھکا لیا۔

”بہت اچھا“ مسٹر سمرس بولے، ”میرے خیال سے سب آ گئے۔ ہمارے بزرگ وارنر صاحب ابھی تشریف لائے یا نہیں؟“
” میں یہاں ہوں۔“ ایک آواز آئی اور مسٹر سمرس نے سر ہلایا۔

مسٹر سمرس نے کھنکھار کر گلا صاف کیا اور اپنی فہرست پر نظر ڈالی۔ اچانک مجمع میں سناٹا چھا گیا۔ ”سب لوگ تیار ہیں؟“ انھوں نے پوچھا۔ ”اب میں نام پڑھوں گا۔ سب سے پہلے کنبوں کے سربراہوں کے نام پڑھے جائیں گے، اور مرد یہاں آ کر ڈبے سے پرچی نکالیں گے۔ جب تک سب اپنی اپنی پرچیاں ڈبے سے نہ نکال چکیں، کوئی اپنی پرچی نہیں کھولے گا۔ ساری بات واضح ہے؟“

لوگوں یہ سب اتنی بار کر چکے تھے کہ انھوں نے ہدایات کو آدھا ادھورا ہی سنا۔ بیشتر لوگ خاموش تھے۔ وہ اپنے خشک ہونٹوں پر زبانیں پھیر رہے تھے اور کسی طرف دیکھ نہیں رہے تھے۔ پھر مسٹر سمرس نے ایک ہاتھ اوپر اٹھایا اور کہا ”ایڈمس۔“ ایک آدمی مجمع سے نکل کر آگے بڑھا۔ ”ہیلو اسٹیو“ مسٹر سمرس نے کہا۔ مسٹر ایڈمس نے جواب دیا ”ہیلو جوئے۔“ وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسے۔ گھبرائی ہوئی بے جان سی پھیکی ہنسی۔ پھر مسٹر ایڈمس نے سیاہ ڈبے میں ہاتھ ڈال کر ایک تہہ کی ہوئی پرچی نکالی۔ وہ اس کے ایک کونے کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے مڑے اور جلدی سے مجمع میں اپنے مقام کی طرف واپس چلے گئے۔ وہاں وہ اپنے گھر والوں سے تھوڑا الگ ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔ وہ اپنے ہاتھ کی طرف نہیں دیکھ رہے تھے۔

”ایلن“ مسٹر سمرس نے پکارا۔ ”اینڈرسن۔ بینتھم۔“

” لگتا ہے جیسے اب دو لاٹریوں کے درمیان کوئی فاصلہ ہی نہیں رہ گیا،“ پچھلی صف میں کھڑی مسز ڈیلا کروئے نے مسز گریوس سے کہا۔ پچھلی لاٹری جیسے ابھی ہفتے بھر پہلے ہی ہوئی ہو۔ ”

” واقعی وقت بہت تیز بھاگتا ہے!“ مسز گریوس نے کہا۔
”کلارک۔ ڈیلا کروئے۔“
” وہ رہے میرے میاں۔“ مسز ڈیلا کروئے نے کہا۔ وہ سانس روکے اپنے شوہر کو آگے بڑھتے دیکھتی رہیں۔

” ڈنبار،“ مسٹر سمرس نے پکارا۔ مسز ڈنبار متوازن قدموں سے ڈبے کی طرف بڑھیں۔ ایک عورت نے پکارا ”جینی، پہنچو۔ تمھاری باری۔“ دوسری بولی ”وہ رہی جینی۔“

”اب ہماری باری ہے،“ مسز گریوس نے کہا۔ انھوں نے مسٹر گریوس کو ڈبے کے ایک طرف سے آتے دیکھا۔ مسٹر گریوس نے مسٹر سمرس کو سنجیدگی سے ہیلو کہا اور ڈبے سے پرچی چن لی۔ اب پورے مجمع میں مرد اپنے لمبے ہاتھ میں تہہ کی ہوئی چھوٹی پرچیاں پکڑے، نروس حالت میں انھیں کھولے بغیر الٹ پلٹ رہے تھے۔ مسز ڈنبار اور ان کے دونوں بیٹے ایک ساتھ کھڑے تھے۔ مسز ڈنبار کے ہاتھ میں پرچی تھی۔

” ہربرٹ۔ ہچنسن۔“
” بل، جلدی پہنچو وہاں،“ مسز ہچنسن نے کہا۔ ان کے پاس کھڑے لوگ ہنس پڑے۔
”جونس۔“

مسٹر ایڈمس نے اپنے پاس کھڑے بزرگ ترین وارنر سے کہا : ”لوگ کہتے ہیں کہ شمالی گاؤں میں لاٹری کو ختم کرنے کی بات چل رہی ہے۔“

بزرگ وارنر کھرکھراتی ہوئی آواز میں بولے ”پاگلوں کا جھنڈ ہے وہ۔ لونڈوں کی باتیں سنو تو ان کے لیے کچھ بھی بہت اہم نہیں ہے۔ جانتے ہو اب وہ کیا کہیں گے؟ اب وہ کہیں گے کہ چل کر غاروں میں رہو۔ کوئی کام دھام مت کرو۔ یوں ہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہو۔ مثل مشہور تھی کہ ’اگر جون میں ہو لاٹری تو بھٹے کی فصل ہو کراری۔ ‘ یہ بات لکھ لو کہ اب ابلی ہوئی دوب اور بلوط کے پھل ہی ہمیں نصیب ہوں گے ۔“ پھر انھوں نے چڑچڑے لہجے میں کہا، ”لاٹری کی رسم ہمیشہ سے ہوتی آ رہی ہے۔ میرے نصیب میں یہ برے دن بھی تھے کہ دو دن کے لونڈے جوئے کو یہاں ہر کسی سے ہنسی ٹھٹھا کرتے ہوئے دیکھنا پڑ رہا ہے۔“

” کچھ جگہوں پر پہلے ہی لاٹری کی رسم چھوڑی جا چکی ہے۔“ مسٹر ایڈمس نے کہا۔
بوڑھے وارنر نے پرزور انداز میں کہا ”اس میں نحوست کے سوا کچھ نہیں ہے۔ احمق لونڈوں کا جھنڈ!“
”مارٹن۔“ اور بابی مارٹن نے اپنے والد کو آگے بڑھتے دیکھا۔ ”اور“ ڈائک۔ پرسی۔ ”
”کاش یہ لوگ جلدی سے اسے ختم کریں۔ خدا کرے سب کچھ جلدی نمٹ جائے۔“ مسز ڈنبار نے اپنے بڑے بیٹے سے کہا۔
” بس ختم ہی ہونے کو ہے۔“ بیٹا بولا۔
” تیار رہنا، دوڑ کر اپنے ڈیڈی کو خبر کرنے کے لیے۔“ مسز ڈنبار نے کہا۔

مسٹر سمرس نے خود اپنا نام پکارا اور نپے تلے قدموں سے آگے بڑھ کر ڈبے سے ایک پرچی اٹھائی۔ پھر انھوں نے پکارا ”وارنر۔“

” لاٹری کا یہ میرا ستہترواں برس ہے۔“ بوڑھے وارنر نے مجمع میں سے گزرتے ہوئے کہا۔ ”ستہترویں بار۔“

”واٹسن۔“ دراز قد لڑکا عجیب بے ڈھنگے پن سے مجمع سے باہر آیا۔ کسی نے کہا، ”گھبراؤ نہیں جیک۔“ مسٹر سمرس نے کہا ”بیٹا، کوئی جلدی نہیں۔ آرام سے پرچی نکالو۔“

” زننی۔“

پھر ایک طویل وقفہ تھا۔ ایک ایسا وقفہ جس میں مجمع کی سانسیں تھم سی گئی تھیں۔ پھر مسٹر سمرس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی پرچی کو اوپر اٹھا کر کہا، ”ساتھیو، اب اپنی پرچیاں کھولیے۔“ ایک منٹ تک کوئی جنبش نہیں ہوئی۔ پھر ساری پرچیاں کھولی گئیں۔ اچانک ساری عورتیں ایک ساتھ بولنے لگیں، ”کس کو ملی وہ پرچی؟“ وہ پرچی کسے ملی؟ ”“ ڈنبار کو ملی کیا؟ ”“ واٹسن کو ملی؟ ”پھر آوازیں کہنے لگیں،“ ہچنسن کو ملی۔ ”“ بل کو ۔ ”“ بل ہچنسن کو ملی ہے پرچی۔ ”

” دوڑ کر اپنے ڈیڈی کو خبر کرو،“ مسز ڈنبار نے بیٹے سے کہا۔

لوگ مڑ مڑ کر مسز ہچنسن کو دیکھنے لگے۔ بل ہچنسن خاموش کھڑے تھے اور اپنے ہاتھ کی پرچی کو گھورے جا رہے تھے۔ اچانک ٹیسسی ہچنسن مسٹر سمرس پر چیخ پڑیں، ”آپ نے ان کو اتنا وقت نہیں دیا کہ یہ اپنی مرضی سے پرچی نکالتے۔ میں دیکھ رہی تھی۔ یہ نا انصافی ہے۔“

”ٹیسسی، بچکانی بات مت کرو۔“ مسز ڈیلا کروئے بولیں۔ مسز گریوس نے کہا، ”ہم سب نے برابر کا جوکھم اٹھایا تھا۔“

” چپ بھی کرو ٹیسسی،“ بل ہچنسن نے کہا۔

مسٹر سمرس نے کہا : ”تو حاضرین، پہلا مرحلہ تو بہت جلد ختم ہو گیا۔ اب ہمیں تھوڑی اور جلدی کرنی ہوگی تاکہ سب کچھ وقت پر نمٹ جائے۔“ انھوں نے اپنی دوسری فہرست پر نظر ڈالی اور کہا، ”بل، آپ ہچنسن کنبے کے لیے پرچی نکالیے۔ کیا ہچنسن کنبے میں کوئی اور گھر شامل ہے؟“

” ڈان اور ایوا ہیں،“ مسز ہچنسن چیخیں۔ ”ان سے بھی پرچی نکلوائیے۔“

” بیٹیاں اپنے شوہروں کے خاندان کے ساتھ پرچی نکالتی ہیں، ٹیسسی،“ مسٹر سمرس نے نرمی سے کہا۔ ”سب کی طرح تم بھی یہ بات جانتی ہو۔“

ٹیسسی نے کہا ”یہ نا انصافی ہے۔“

”اور کوئی نہیں ہے جوئے،“ بل ہچنسن نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔ ”میری بیٹی اپنے شوہر کے خاندان کے ساتھ پرچی نکالتی ہے۔ یہی مناسب بھی ہے۔ بچوں کے سوا میرے پاس اور کوئی نہیں ہے۔“

”پھر جہاں تک کنبے کی پرچی نکالنے کی بات ہے، وہ آپ نکالیں گے،“ مسٹر سمرس نے واضح کیا، ”اور گھر کی بھی پرچی آپ ہی نکالیں گے۔“

”ٹھیک ہے“ مسٹر ہچنسن نے کہا۔
”کتنے بچے ہیں بل؟“ مسٹر سمرس نے رسماً پوچھا۔
” تین“ بل ہچنسن نے کہا۔ بل جونیئر، نینسی، ننھا ڈیو، ٹیسسی اور میں۔ ”
” تو ٹھیک ہے،“ مسٹر سمرس نے کہا، ”ہیری، تم نے ان کی پرچیاں لے لیں؟“

” مسٹر گریوس نے اثبات میں سر ہلایا، اور پرچیاں اوپر اٹھائیں۔ “ انھیں ڈبے میں ڈال دو ۔ ”مسٹر سمرس نے ہدایت دی۔ بل کی پرچی بھی ڈبے میں ڈال دو ۔“

”میرے خیال سے ہمیں پھر سے لاٹری کرنی چاہیے،“ مسز ہچنسن نے اتنے دھیرے سے کہا جتنا دھیرے سے کہنا ان کے لیے ممکن تھا۔

” میں آپ سے کہہ رہی ہوں، یہ نا انصافی ہے۔ آپ نے انھیں پرچی چننے کے لیے زیادہ وقت نہیں دیا تھا۔ سب نے دیکھا۔“

مسٹر گریوس نے پانچ پرچیاں منتخب کیں اور انھیں ڈبے میں ڈال دیا۔ باقی ساری پرچیوں کو فرش پر گرا دیا، جنھیں وہاں سے ہوا اڑا لے گئی۔

”پلیز میری بات تو سنئے،“ مسز ہچنسن اپنے چاروں طرف کھڑے مجمعے سے کہہ رہی تھیں۔

” تیار ہو بل؟“ مسٹر سمرس نے پوچھا۔ بل ہچنسن نے اپنی بیوی اور بچوں پر ایک نظر ڈالی اور اثبات میں سر ہلایا۔

مسٹر سمرس نے کہا ”پرچی نکالیے، اور یاد رہے جب تک سب اپنی اپنی پرچیاں نہ نکال لیں، انھیں کھولنا نہیں ہے۔ ہیری، تم ننھے ڈیو کی مدد کرو۔“ مسٹر گریوس نے چھوٹے بچے کا ہاتھ پکڑا، جو ان کے ساتھ آرام سے ڈبے کے پاس آیا۔ ”ڈبے میں سے ایک پرچی نکالو ڈیو،“ مسٹر سمرس نے کہا۔ ڈیو نے اپنا ہاتھ ڈبے میں ڈالا اور ہنس پڑا۔ ”صرف ایک پرچی نکالو“ مسٹر سمرس نے کہا۔ ”ہیری، تم اس کی طرف سے پرچی پکڑو۔“ مسٹر ہیری نے بچے کا ہاتھ پکڑا اور اس کی سختی سے بند مٹھی میں سے پرچی نکال کر اپنے ہاتھ میں لے لی۔ ننھا ڈیو ان کے پاس کھڑا حیرت سے انھیں دیکھتا رہا۔

” اب نینسی کی باری ہے،“ مسٹر سمرس نے کہا۔ نینسی بارہ سال کی تھی۔ جب وہ اپنا اسکرٹ لہراتی ہوئی آگے بڑھی اور اس نے بہت نفاست سے ایک پرچی نکالی تو اس کے اسکول کے دوستوں نے گہری سانسیں کھینچیں۔ ”بل جونئیر،“ مسٹر سمرس نے پکارا۔ بلی، سرخ چہرے کے ساتھ لمبے ڈگ بھرتا ہوا آگے بڑھا اور پرچی نکالتے وقت ڈبے کو ٹھوکر مارتے مارتے بچا۔ ”ٹیسسی،“ مسٹر سمرس نے پکارا۔ مسز ہچنسن ایک لمحے کے لئے ہچکچائیں، باغیانہ تیور سے ادھر ادھر دیکھا، پھر ہونٹ بھینچ کر ڈبے کی طرف بڑھیں۔ انھوں نے ڈبے سے پرچی جلدی سے اٹھائی اور اپنے پیچھے چھپا لی۔

”بل،“ مسٹر سمرس نے کہا۔ مسٹر ہچنسن نے ڈبے میں ہاتھ ڈال کر ٹٹولا۔ بالآخر ہاتھ باہر نکالا تو اس میں ایک پرچی تھی۔ مجمع خاموش تھا۔ ایک لڑکی پھسپھسائی، ”خدا کرے نینسی کو نہ ملی ہو۔“ اس کی پھسپھساہٹ مجمع کے آخری سرے تک سنی گئی۔

”پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔“ بوڑھے وارنر نے کہا۔ ”اب پہلے جیسے لوگ ہی نہیں رہ گئے۔“
مسٹر سمرس نے کہا، ”ٹھیک ہے، پرچی کھو لئے۔ ہیری، تم ننھے ڈیو کی پرچی کھولو۔“

مسٹر گریوس نے پرچی کھولی۔ انھوں نے ہاتھ اوپر اٹھایا تو مجمع نے لمبی سانس لی۔ سب نے دیکھا کہ پرچی کوری تھی۔ نینسی اور بل جو نئیر نے اپنی پرچیاں ایک ساتھ کھولیں اور دونوں کھل کر ہنس پڑے۔ وہ مجمع کی طرف مڑے۔ ان کے سروں کے اوپر ان کی کوری پرچیاں نظر آئیں۔

”ٹیسسی،“ مسٹر سمرس نے کہا۔ ایک بھیانک سناٹا۔ پھر مسٹر سمرس نے بل ہچنسن کی طرف دیکھا۔ بل نے اپنی پرچی کھول کر دکھائی۔ یہ بھی کوری تھی۔

”ٹیسسی کو ملی ہے۔“ مسٹر سمرس نے کہا۔ پھر دھیمی آواز میں بولے، ”بل، ہمیں ٹیسسی کی پرچی دکھائیے۔“

بل ہچنسن اپنی بیوی کے پاس گئے اور ان کے ہاتھ سے پرچی زبردستی چھین لی۔ اس پر ایک سیاہ نشان بنا ہوا تھا۔ یہ وہی نشان تھا جسے مسٹر سمرس نے کوئلہ کمپنی کے دفتر میں گہری پنسل سے رات کو بنایا تھا۔ بل ہچنسن نے اسے اوپر اٹھایا۔ مجمع میں ایک کلبلاہٹ سی مچ گئی۔

” ٹھیک ہے دوستو،“ مسٹر سمرس نے کہا۔ ”آئیے، ہم جلدی سے تقریب کو نمٹا لیں۔“

حالانکہ گاؤں والے تقریب سے متعلق کئی رسمیں بھول چکے تھے اور اصلی سیاہ ڈبہ بھی غائب ہو چکا تھا، لیکن پتھروں کے استعمال سے ابھی بھی واقف تھے۔ پتھروں کا ڈھیر تیار تھا جسے بچوں نے صبح ہی جمع کر دیا تھا۔ فرش پر بھی پتھر تھے جن پر وہ پرچیاں پھڑپھڑا رہی تھیں جو ڈبے سے گرائے جانے کے بعد اڑ کر ان سے الجھ پڑی تھیں۔ مسز ڈیلا کروئے نے ایک پتھر کا انتخاب کیا جو اتنا بڑا تھا کہ انھیں دونوں ہاتھوں سے اٹھانا پڑا۔ وہ مسز ڈنبار کی طرف پلٹیں، ”آئیے، جلدی کیجئے۔“

مسز ڈنبار کے دونوں ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پتھر تھے۔ انھوں نے پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان کہا، ”میں بالکل دوڑ نہیں سکتی۔ آپ آگے جائیے، میں پہنچتی ہوں۔“

بچوں کے پاس پہلے سے ہی پتھر تھے۔ کسی نے ننھے ڈیو ہچنسن کو بھی کچھ پتھر پکڑا دیے تھے۔

مسز ہچنسن (ٹیسسی) اب میدان کے مرکز میں ایک صاف مقام پر کھڑی تھیں۔ گاؤں والے جب ان کی طرف بڑھے تو انھوں نے مایوسی میں اپنے ہاتھ ان کی طرف رحم طلب انداز میں پھیلا دیے۔ ”یہ نا انصافی ہے۔ “ انھوں نے کہا۔ ایک پتھر ان کے سر سے ٹکرایا۔

بوڑھا وارنر کہہ رہا تھا ”آئیے، آئیے، سب لوگ آ جائیے۔“ اسٹیو ایڈمس گاؤں کے مجمعے کی اگلی قطار میں تھے اور مسز گریوس ان کی بغل میں تھیں۔

” یہ نا انصافی ہے، یہ ٹھیک نہیں ہے۔“ مسز ہچنسن چیخیں، اور پھر سب ان پر ٹوٹ پڑے۔
(جون 1948)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments