مفت علاج کا وعدہ جو پورا نہیں ہوا


”ڈاکٹر بابو لکھ دو نا“

وہ اپنی بات پہ اڑا ہوا تھا اور میں اس کی بچگانہ ضد ہنس کے ٹالے جا رہا تھا۔ کچھ دیر یہی کشمکش چلتی رہی اور پھر میں نے ڈائری کا صفحہ پھاڑا اور اس پہ لفظ گھسیٹنے لگا

” تمھارے عمر بھر کے علاج کی ذمہ داری میری ہے اور میں ہمیشہ تمھارا علاج مفت میں کیا کروں گا۔“

وہ چھوٹا سا تھا جب اس نے ہمارے گھر بطور ملازم آنا شروع کر دیا۔ اس کی تسلسل سے آمد نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے ملازم کے عہدے سے ہٹا کر گھر کا فرد بنا دیا تھا۔ ہم نے ہوش سنبھالا تو اسے گھر کے سارے کام کاج کرتے دیکھا۔ گھر میں کسی چیز کی مرمت کرنی ہو، باہر سے کچھ لانا ہو یا کسی گھر آئے کی مہمان نوازی کرنی ہو، وہ دوڑا دوڑا سارے کام کرتا نظر آتا۔ پھر چاچو نے اسے اپنے کاروباری معاملات میں ساتھ رکھنا شروع کیا تو وہ ان کا دایاں بازو بن گیا۔ گھر سے زیادہ ان کے کاروباری کام نپٹاتا رہتا، ان کی لین دین کے معاملات دیکھتا رہتا۔

جب میرا میڈیکل کالج میں داخلہ ہو گیا تو وہ بڑا خوش تھا۔ بار بار کہتا ”اب ہمارا بابو ڈاکٹر بن جائے گا“

میں میڈیکل کے دوسرے سال میں چھٹیوں پہ گھر آیا ہوا تھا جب ایک دن وہ میرے پاس آ بیٹھا اور کہنے لگا کہ مجھے لکھ کر دو تم ڈاکٹر بننے کے بعد میرا علاج ہمیشہ مفت میں کیا کرو گے۔ میں نے شروع میں تو مذاق سمجھ کر ٹالا مگر اس کے بار بار کہنے پہ اسے یہ سب لکھ دیا۔

لکھا ہوا پڑھ کے سنایا اور اس کے مطمئن ہونے پہ کاغذ اس کے حوالے کر دیا۔ اس نے کاغذ کسی قیمتی صحیفے کی طرح وصول کیا اور خوشی خوشی وہاں سے چل دیا۔

وقت گزرتا رہا، میں ڈاکٹر بن گیا۔ ہسپتال میں مریضوں کے دکھ درد کا سدباب کرنے لگا۔ مصروفیت کی وجہ سے گھر جانا کم ہوا تو اس سے ملنا جلنا بھی کم ہو گیا۔ لیکن جب بھی گھر جاتا تو وہ بڑے چاؤ سے خدمت کرتا کہ ہمارا ڈاکٹر بابو آیا ہے، یہ بڑا خیال رکھتا ہو گا سب مریضوں کا۔

تقریباً ایک ماہ پہلے کی بات ہے جب گھر سے اطلاع ملی کہ اچانک ہی اس کی طبیعت خراب ہوئی تھی تو اسے ہسپتال لے جانا پڑا لیکن اب وہ بہتر ہے۔ میں نے فون پہ اس سے بات کی تو کہنے لگا

” اب تو ٹھیک ہو گیا ہوں لیکن ڈاکٹر بابو جلدی سے آ جاؤ، اگلی بار بیمار ہونے سے پہلے پہلے ہی میرا اچھے والا علاج کر دینا“

میں نے جلدی آنے کی یقین دہانی کروائی، اس کی ہمت بندھائی اور فون کاٹ کے اپنے کاموں میں لگ گیا۔

کچھ دن سے یہ صورت حال تھی کہ اسے جسم میں شدید کمزوری محسوس ہونے لگ گئی تھی۔ گھر والوں نے کئی دفعہ اسے ہسپتال لے جانے پہ زور دیا مگر وہ بضد تھا کہ ڈاکٹر بابو آئے گا تو بس وہی میرا علاج کرے گا، مجھے کسی اور کے پاس نہیں جانا۔

میں نے اپنی ڈیوٹی اور سہولت کے مطابق گاؤں جانے کا پروگرام ترتیب دے دیا لیکن جانے سے دو دن پہلے ہی ہسپتال میں ایمرجنسی کی ڈیوٹی کے دوران خبر ملی کہ وہ گزشتہ رات ایسا سویا ہے کہ پھر اٹھا ہی نہیں۔

یہ خبر نہیں تھی دھماکہ تھا جس نے کچھ لمحوں کے لیے مجھے سن کر کے رکھ دیا۔ حواس بحال ہوئے تو اس کے جانے کا دکھ آنکھوں سے بوندوں کی صورت بہنے لگا۔ سب کام۔ چھوڑ کر گاؤں روانہ ہوا اور شام ڈھلے جب گاؤں پہنچا تو مجھے جس کا معالج بننا تھا، اس کا جنازہ بھی ہو چکا تھا۔

رات گئے صحن کے ایک کونے میں چارپائی پہ لیٹا اداس آنکھوں سے آسمان کو تکے جا رہا تھا کہ بڑا بھائی پاس آیا اور ایک مڑا تڑا کاغذ میرے حوالے کرتے ہوئے بولا کہ جب وہ فوت ہوا تو اس کی جیب سے یہ کاغذ نکلا تھا۔

کاغذ تھامتے ہوئے میرا ہاتھ ایک لمحے کو لرز گیا کیونکہ میں اس کاغذ کو پہچان گیا تھا۔ پھر بھی یقین دہانی کے لیے کاغذ کھول کر دیکھا تو آنکھیں میں جو آنسو خشک ہوئے تھے وہ دوبارہ سے بہنے لگے، دکھ ایک دم پہلے سے بھی بڑا ہو گیا تھا۔ کاغذ پہ لکھے میرے ہی لفظ میرا منہ چڑا رہے تھے۔

” تمھارے عمر بھر کے علاج کی ذمہ داری میری ہے اور میں ہمیشہ تمھارا علاج مفت میں کیا کروں گا۔“
(ڈاکٹر نویدؔخالد تارڑ)

(یہ معمولی سے رد و بدل کے ساتھ میرے قلم سے ایک دوست کی کہانی ہے۔ احباب سے مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کی درخواست ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments