انسان کا ارتقائی سفر (قدیم حجری دور سے تہذیب کی ابتدا تک)


موجودہ دور کا انسان آج الیکٹرانک اوزار اور ہتھیار سے لیس ہے۔ مگر اس کے قدیم آبا و اجداد جب لاکھوں سال پہلے سطح زمین پر رونما ہو کر کچھ جسمانی اور ذہنی ارتقائی مراحل طے کرتے گئے تو انہوں نے ابتدائی طور پر جو اوزار اور ہتھیار بنانے شروع کیے وہ پتھر کے تھے۔ انسانوں کے اس زمانے کو حجری ( پتھر) دور کہا جاتا ہے۔ ماہرین نے اس کو دو بڑے حصوں ( قدیم اور جدید دور حجر ) میں تقسیم کیا ہے

قدیم کو دور شکار اور جدید کو دور زراعت بھی کہا جاتا ہے

قدیم دور حجر۔ وہ دور جو Paleolithic age یا قدیم پتھر کا زمانہ جاتا ہے اوائل قدیم اوزار بنانے والے انسانوں سے شروع ہوتا ہے

یہ کئی لاکھ سالوں پر محیط گردانا جاتا ہے ( یہ دور 11000 سے 10000 سال قبل سب سے پہلے مشرقی قریب ( عراق اور مصر ) کے بعض علاقوں میں اختتام پذیر ہوا۔ جب وہاں کے باشندوں نے کھیتی باڑی کا فن سیکھ کر کاشت کاری شروع کی۔ جب کہ دنیا کے دوسرے خطوں میں قدیم دور حجر بعد میں بتدریج حتم ہوتا رہا )

قدیم دور پتھر کے لوگ شکاری اور خوراک چننے والے (Food gatherer ) تھے۔ چونکہ وہ کھیتی باڑی نہیں جانتے تھے اس لیے وہ مستقل قیام گاہ بھی نہیں بناتے تھے۔ جب کسی جگہ خوراک ختم ہو جاتی تو اپنے غاروں اور شاخوں سے بنے خیموں جیسی ساخت کے ٹھکانوں کو چھوڑ کر نئی جگہوں کی تلاش میں نکل پڑتے انسان کی معاشرتی ترقی شکار اور خوراک چننے کے اس طویل صدیوں کے تجربے سے بتدریج متشکل ہوئی۔ بقا کے لیے خاندانوں کے گروپ 25 / 30 افراد پر مشتمل گروہ بناتے۔

جس کے ممبر تنظیم۔ تعاون، اعتماد اور شرکت داری سیکھتے۔ مرد شکار کرتے۔ عورتیں بچوں کا خیال رکھتیں۔ آگ جلاتی اور پھل، بیریاں اور دانے اکٹھا کرتیں شکار میں شکاری ایک دوسرے کی مدد کرتے اور اس باہمی تعاون کو انفرادی کوشش سے زیادہ کامیاب پاتے۔ اپنی شکار اپنے گروہ کے افراد کے ساتھ شریک کرانے سے معاشرتی بانڈز زیادہ مضبوط ہوتے گئے۔ جو گروہ شکار میں تعاون نہ کرتے یا دوسروں کو اپنے ساتھ شکار میں حصہ دار نہ بناتے تو وہ تنہا باقی نہیں رہ سکتے۔

شکار اور خوراک کو اکٹھا کرنا ذہنی اور جسمانی ترقی کا باعث بھی بنتا۔ وہ جانتے کہ کون سا پھل کھانے کے قابل ہے اور ان کو کہاں سے حاصل کرنا ہے

شکار طاقت رفتار، اچھی بصارت و سماعت اور ذہنی صلاحیت کا متقاضی تھا۔ شکاری اپنے شکار کی عادتوں کا مطالعہ اور تجزیہ کرتا۔ موسمی حالات کا جائزہ لیتا کچھاروں کے جائے وقوع۔ اور گھاٹوں کو ذہن نشین کرتا اور بہتر اوزار اور ہتھیار بناتا۔

جسمانی طور پر کمزور اور ذہنی طور پر نا اہل جو شکار کا تعاقب نہ کر سکتے وہ زیادہ عرصے تک زندہ نہیں رہ سکتے تھے۔ برتر جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں والے افراد زیادہ عرصے تک زندہ رہتے اور ان خصوصیات کو منتقل کرنے اور نوع انسانی کو بتدریج بہتری کی طرف لے جانے کی پوزیشن میں ہوتے۔

اگرچہ ابتدائی دور حجر کی طویل صدیوں میں انسانی ترقی کی رفتار بہت کم تھی۔ تاہم ایسی ترقیات ضرور ہوئیں۔ جن نے مستقبل پر گہرا اثرات ڈالے۔ اس دور کے انسانوں نے بول چال کی زبان تشکیل دی۔ اور اوزاروں کا بنانا اور استعمال کرنا سیکھا۔ یہ دونوں کارنامے اس انسانی خصوصیت کا ثبوت ہے جو اس کو دوسرے جانداروں سے ممتاز کرتی ہے۔

ابتدائی دور حجر کا انسان ہڈی، لکڑی اور پتھر کے اوزار اس انداز میں متشکل کرتے جو اس کے ذہن میں موجود تصورات کے مطابق ہوتے۔ وہ اپنی تخلیقات کو محفوظ بناتا اور اگلی نسلوں کو اس کا ہنر اور استعمال سکھاتا۔ بعد کی نسلیں اپنے اجداد سے سیکھی ہوئی اشیاء کو مزید بہتر بناتیں۔

ان سادہ مگر کارآمد اوزاروں سے ابتدائی دور حجر کا انسان جڑیں کھودتا، درختوں کی چھال چھیلتا، جانوروں کو پکڑتا، مارتا اور کھال اتارتا۔ پوشاک بناتا، اور مچھلیوں کے جال بناتا۔

اس نے آگ پر قابو پانا بھی سیکھ لیا۔ جس سے وہ گوشت پکاتا۔ اور سردی سے خود کو بچاتا۔
اوزار بنانے کی طرح زبان بھی اس دور کا بڑا انسانی کارنامہ تھا۔

زبان نے انسان کو اپنا علم۔ تجربات اور جذبات دوسروں کے ساتھ Share کرنے کے قابل بنایا۔ اسی طرح زبان کلچر کی ترقی اور ایک نسل سے دوسری تک منتقلی میں موثر عامل تھا۔ زبان نے والدین کو اولاد کو طرز عمل کے اصول۔ مذہبی عقائد نیز اوزار بنانے اور آگ جلانے گر کے سکھانے میں مدد دی۔

ماہرین کا اندازہ ہے کہ انسان کے قدیم دور حجری اجداد نے فطرت، پیدائش، بیماری اور موت کے اسرار کی وضاحت کے لیے دیو مالائی مذہبی عقائد مرتب کر لیے۔ ان ابتدائی انسانوں کے ہاں سورج، بارش۔ آندھی۔ آسمانی گرج چمک اور بجلی زندہ عناصر تھے۔ وہ طبعی عناصر میں روح کے قائل تھے۔

وہ فطرت کی ان قوتوں کو اپنے تئیں خوش کرنے کی خاطر نذرانے پیش کرتے تھے۔ اس طریقے سے بتدریج کاہنوں، جادوگروں اور جادو گرنیوں کا طبقہ پیدا ہوا۔ جو مختلف رسومات کے ذریعے ان مبینہ ارواح کے ساتھ رابطہ کرنے میں لگے رہتے۔ قدیم دور حجری کے انسانوں نے مردوں کو دفنانا بھی شروع کیا تھا۔ جن کے لیے بعض اوقات دعائیہ رسم بھی ادا کی جاتی تھی۔ جس سے قیاس ہوتا ہے کہ وہ موت کے بعد زندگی پر عقیدہ رکھتے تھے۔

4000 اور 2500 سال پہلے کے دوران ہاتھی دانت، لکڑی اور مٹی سے بنائے گئے عورتوں کے بہت سارے مجسموں سے ان کے ”دیوی ماں“ کی نمائندگی ہوتی ہے۔ جو زندگی۔ خوراک اور تحفظ کا باعث تھی۔

30000 اور 12000 سال پہلے کے درمیان قدیم دور حجری کے انسان نے رہنے کے لیے غاروں کے تاریک اور خاموش اندرونی گوشے تلاش کر لیے۔ جس میں روشنی کے لیے صرف چمنی ہوتی۔ غاروں کی دیواروں پر انہوں نے بڑی مہارت سے جانوروں کی تصویر کشی کی تھی۔ اس قسم کی تصویریں غالباً شکار کی فراوانی اور اس میں کامیابی کے حصول کے عقیدہ کے تخت نقش کرتے تھے

۔
نیولیھتک انقلاب Neolithic Revolution (نیا دور حجر )
۔ ۔

اگرچہ ابھی تک اس بات کا یقینی تعین نہیں ہو سکا کہ اس ”انقلاب“ کا آغاز کب اور کہاں ہوا اور نہ یقین سے معلوم ہے کہ آیا یہ کسی ایک مرکز میں پہلے رونما ہوا اور دوسرے علاقوں میں نفوز کر گیا۔ یا مختلف علاقوں میں اس کا الگ الگ آغاز ہوا؟

تاہم آثار قدیمہ کے بیشتر ماہرین کا گمان یہ ہے کہ نئے دور حجر کا آغاز آج سے 10000 سال پہلے مشرق قریب (عراق اور مصر ) میں ہوا۔ اس دور میں نوع انسانی نے کھیت باڑی کا ہنر دریافت کر لیا۔ جانوروں کو سدھایا۔ گاؤں آباد کیے۔ پتھروں کے اوزار بہتر کر لیے۔ ظروف سازی شروع کی اور کپڑے بنوانے لگے۔ یہ پیشرفتیں اتنی اہم تھیں کہ ان کو نیولیھتک انقلاب کہا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک بڑی معاشرتی اور فکری تبدیلی کا باعث بھی بنا

زراعت۔ ( کھیتی باڑی ) سب سے پہلے مشرقی قریب کے پہاڑی خطوں میں پنپی۔ جہاں گندم اور جو جنگل میں بڑے پیمانے پر آ گتے تھے۔ افراد نے یہاں جنگلی بھیڑ، بکریوں کو بھی سدھارنا شروع کیا۔ دنیا کے دوسرے حصوں میں کھیتی باڑی اور جانوروں کو سدھارنا غالباً الگ طور پر عمل میں آئے۔ زراعت اور جانوروں کا سدھارنا انسان کی زندگی میں انقلاب لے آیا۔ جہاں قدیم دور حجری کا انسان شکار اور خوراک کی تلاش میں اس امر پر مجبور تھے کہ صرف وہ کچھ استعمال کریں جو فطرت ان کو دیں جبکہ نئے دور حجر کے کسانوں نے اپنے ماحول کو انسانی ضروریات کے مطابق تبدیل کر دیا۔ دانوں، جڑوں اور بیروں کی تلاش میں اپنا وقت لگانے کے بجائے انہوں نے اپنے ٹھکانوں کے قریب فصل اگانا شروع کیا۔

طویل فاصلوں تک شکار کا تعاقب کرنے بجائے گوشت پالتو بھیڑ بکریاں سے حاصل کرنے لگے۔ زراعت کی ابتدا نے ایک نئی طرز کی کمیونٹی کو تشکیل دینا ممکن بنا دیا۔ چونکہ شکار کے سلسلے میں ایک وسیع علاقے میں پھیرنے کی ضرورت پڑتی اس لیے شکاری طبقہ لازما ایک چھوٹے گروہ پر مشتمل ہوتا۔ گروہ میں تعداد بڑھ جانے سے ان میں نئے گروہ بن جاتے جبکہ اس کے برعکس ”زراعتی کمیونٹی“ میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں افراد اکٹھا رہ سکتے تھے۔ کسانوں کو اپنی زمینوں کے نزدیک رہنا تھا اور مستقبل کے لیے خوراک ذخیرہ کر سکتا تھا اس لیے زراعت مستقل آبادی کا باعث بنا۔ زراعت کی دریافت سے پہلے قدیم دور حجر کے آخر میں 200 یا 300 تک افراد پر مشتمل گاؤں نہیں ابھرے تھے شکاری ایسے علاقوں میں ڈیرے ڈالتے جہاں خوراک کی فراہمی اور فراوانی ہوتی۔

زراعت کی ترقی نے گاؤں کی طرف رجحان بے حد تیز کر دیا۔ اندازہ ہے کہ تجارت نے بھی لوگوں کو دیہاتی کمیونٹیوں میں آنے پر متحرک کیا۔

نمک، شیشہ اور خام دھات کی فراوانی رکھنے والے علاقوں میں رہنے والے چرواہوں، شکاریوں اور خوراک جمع کرنے والوں نے تجارتی آبادیاں بنائیں جہاں خام مال کا خوراک سے تبادلہ ہوتا۔

دیہاتوں نے زندگی کا طرز تبدیل کر دیا۔ خوراک کی فراوانی سے بعض افراد کو یہ فراغت ملی کہ وہ اپنے وقت کا کچھ حصہ ٹوکرے بنانے یا اوزاروں کی تیاری کے ہنر کو بہتر کرنے میں صرف کر سکیں۔ خام مال کی ضرورت اور ماہر دستکاروں کی موجودگی نے تجارت اور تجارتی آبادیوں کو نشو و نماء دی۔ اسی طرح ذاتی ملکیت کا شعور پیدا ہوا۔

شکاری بہت کم ملکیت رکھتے تھے کیونکہ ان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں زیادہ سامان بوجھ بنتا۔ جبکہ دیہاتی ( کسان ) صاحب جائیداد تھا اور اس کو ایک دوسرے سے یا بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ کرنا پڑتا۔ شکاری مساوات پسند ( egalitarian) ہوتا عموماً اس کے ارکان ایک دوسرے سے زیادہ ملکیت یا طاقت و اثر کا مالک نہیں ہوتا تھا۔ جبکہ زراعتی دیہات میں حکمران طبقہ ابھر آیا۔ جو زیادہ دولت اور طاقت رکھتا تھا۔

پچھلی صدی میں آثار قدیمہ کے ماہرین نے کئی نیولیتھک گاؤں دریافت کیے ہیں جن میں سب سے پرانا 8000 ق م سے پہلے قائم کیا گیا تھا۔ ان میں زیادہ مشہور سائٹس ”کاٹیل ہویوک“ ( انطالیہ ترکی ) ”جریکو“ ( فلسطین ) اور ”جرمو“ ( مشرقی عراق) ہیں۔ ماہرین کے اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ آیا یہ آبادیاں محض ترقی یافتہ گاؤں تھے یا ابتدائی شہر۔

روایتی نظریہ یہ ہے کہ شہر کی ابتدا 3000 ق م کے لگ بھگ اوائل انسانی تہذیب کے آماجگاہ میسوپوٹیمیا ”کے سومیر“ کہلائی جانے والے حصے میں ہوئی۔ کچھ ماہرین کا موقف ہے کہ سو میری شہروں سے کئی ہزار سال پہلے ”جریکو“ کے 2000 ہزار باشندوں نے تجارت اور مفاد عامہ کے کاموں کے آغاز سے شہری زندگی کی ابتداء کی تھی۔ ”جریکو“ قصبے کی دیواریں 6 فٹ 6 انچ موٹے اور بعض جگہوں پر 200 فٹ اونچی تھیں۔ اس قسم کی تعمیر باہمی تعاون اور تقسیم کار کی متقاضی تھی۔ جو زرعی دیہات کی استعداد سے بالا تر متقصیات تھے۔ اس قسم کی آبادیاں یا ابتدائی شہر ما قبل تاریخی دور کے اخیر میں زیادہ تر مشرق قریب میں قائم تھے۔

نیولیتھک باشندوں نے ٹیکنالوجی میں بھی کافی پیشرفتیں کی تھیں
انہوں نے پختہ مٹی سے کھانے پکانے اور خوراک اور پانی رکھنے کے برتن بنائے۔

کمہاری پہیے کی ایجاد سے برتن وغیرہ زیادہ تیزی سے بنائے جا سکنے لگے۔ پہیے اور جہازوں کے بادبان سے نقل و حمل کو بہتر بنایا۔ اور تجارت کو ترقی ملی۔ ہل اور جغ کے استعمال سے کاشتکاری آسان تر ہو گئی۔

نیولیتھک دور میں دھات کے استعمال کے آثار بھی ملے ہیں۔ دھاتوں میں سب سے پہلے تانبے (کاپر) سے اوزار اور ہتھیار بنائے گئے۔ بعد میں تانبے اور ٹین کے مرکب سے کانسی ( Bronze) بنانا سیکھا گیا۔ جو تانبے سے زیادہ پائدار اور موثر تھا۔

اس دور میں خوراک کی رسائی زیادہ یقینی یو گئی دیہاتی زندگی پھیلی اور آبادی بڑھنے لگی۔ دولت مند خاندان اونچے سماجی حیثیت حاصل کر کے گاؤں کے رہنما بنے۔

مذہب زیادہ رسمی اور باضابطہ ہو گیا۔ ان کے احترام میں قربان گاہیں بنائی گئیں۔ ان کے لیے تقریبات کا اہتمام ہوتا۔ جن کا انتظام مذہبی پیشواؤں کے ہاتھوں ہوتا۔ دیوتاؤں کو لوگوں کے دیے گئے نذرانوں سے پیشواؤں کی طاقت اور دولت میں اضافہ ہوتا۔

نیولیتھک معاشرہ بتدریج منظم اور پیچیدہ ہوتا رہا کہ بالآخر تہذیب کے دھانے پر کھڑا ہوا،
______________

جس کو تہذیب کہا جاتا ہے وہ ماہرین کے مطابق سب سے پہلے آج سے 5000 سال قبل مشرق قریب ( میسوپوٹیمیا ( عراق) اور مصر ) اور مشرق بعید (انڈیا اور چین ) میں ابھری۔ یہ اوائل تہذیب ایسے شہروں میں شروع ہوئیں جو اپنے سیاسی، معاشی اور معاشرتی ساخت میں آخری دور حجری کے گاؤں سے زیادہ بڑے، آباد اور پیچیدہ تھے۔ چونکہ شہر کو خوراک کی فراہمی کے لیے ملحقہ دیہات کے کسانوں پر انحصار تھا اس لیے زرعی تیکنیک ضرور اتنے ترقی یافتہ ہو چکے ہوں گے کہ زائد خوراک مہیا کر سکے۔ زیادہ پیدوار سے ان شہری مکینوں کے لیے خوراک کا بندوبست ہوتا۔ جو تجارت، دست کاری، نوکر شاہی اور پیشوائیت جیسے غیر زرعی پیشوں سے منسلک تھے۔

تحریر کی ایجاد سے یہ اوائل تہذیبں علم کو محفوظ، منظم اور وسیع کرنے کی قابل ہوئیں۔ اس کے علاوہ اس سے حکومتی اہلکار اور مذہبی پیشوا اپنے معاملات زیادہ موثر انداز میں نبھانے لگے۔ تہذیبی معاشرے میں منظم حکومتیں بھی تھیں جو قوانین صادر کرتیں اور اپنی ریاستوں کے حدود واضح کرتیں۔

دور حجری معاشروں کے مقابلے میں اوائل تہذیبی دور کے باشندوں نے بڑے پیمانے پر عمارتیں اور یادگاریں تعمیر کیں۔ تجارت کرنے لگے۔ اور مختلف منصوبوں کے لیے مخصوص ہنر مند مزدور بروئے کار لارہے۔ مذہبی زندگی زیادہ منظم اور پیچیدہ ہو گئی۔ مضبوط اور دولت مند پیشوائیت ابھر آئی۔ یہ پیشرفتیں ( شہر۔ پیشوں کی تخصیص، تحریر منظم حکومتیں، یاد گاری تعمیرات اور پیچیدہ مذہبی ڈھانچے ) ابتدائی تہذیبی معاشروں کو قبل از تاریخی کلچروں سے ممتاز کرتی ہیں۔

ان ابتدائی تہذیبوں میں مذہب مرکزی قوت تھی۔ اس نے فطرت کے مظاہر اور اپنے دور کے مطابق تشریح مہیا کی۔ موت کے خوف کو کم کرنے میں مدد دی۔ روایتی اخلاقیات کے اصولوں کو جواز دیا۔ مذہب نے آرٹ، ادب اور سائنس میں بھی تخلیقی سرگرمیوں کو آگے بڑھایا۔ اس کے علاوہ حکمران ( جو دیوتاؤں کے نمائندے تصور کیے جاتے تھے ) اپنی قوت مذہب سے اخذ کرتے تھے۔

تہذیب کا ظہور ایک بڑا تخلیقی عمل تھا اور یہ محض زرعی معاشروں کے ناگزیر تشکیل کے باعث نہ تھا۔ کھیتی باڑی تو کئی معاشروں میں رواج پا گئی تھی لیکن ان میں صرف چند ایک تہذیب میں ڈھل گئیں۔ اوائل تہذایب کے خالق معاشروں ( سومیری اور مصری ) نے اس اہم۔ کامیابی کو کیسے حاصل کیا۔ اس سوال نے مورخین کو متحیر رکھا ہے اور کوئی ایک تشریح پوری طرح تسلی آفرین نہیں ہے۔ اکثر ماہرین تہذیب اور دریائی وادیوں کے درمیان تعلق پر زور دیتے رہے ہیں۔ ان کے مطابق دریا ملحقہ زمینوں پر زرخیز تہہ جمانے، فصلوں کے لیے پانی مہیا کرنے اور تجارت کے لیے ذریعہ بنے۔ تاہم صرف ماحولیاتی عوامل تہذیب کے ظہور کی پوری وضاحت نہیں کر پا سکتے۔ اس حوالے سے انسان کے فکری صلاحیت اور باہمی تعاون کی سرگرمیوں جیسے عوامل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔

آبپاشی کا نیٹ ورک بنانے اور اس کو برقرار رکھنے کے عمل میں لوگوں نے اصول و ضوابط کی تشکیل اور پابندی سیکھی اور انتظامی، فنی اور حسابی مہارت حاصل کی۔ ریکارڈ رکھنے کی ضرورت تحریر کی ایجاد کا باعث بنی۔

فطرت کی طرف سے لائے گئے چیلنجوں کو اس طرح کے تخلیقی انداز سے نمٹانے پر سومیر اور مصر کے اوائل باشندوں نے تہذیب کے سلسلے میں اہم قدم اٹھائے اور یوں انسانی تقدیر کا رخ تبدیل کر دیا۔

جس وقت عبرانی اور یونانی ( جو مغربی تہذیب کے روحانی اور فکری اجداد ہیں ) تاریخ کے اسٹیج پر نمودار ہوئے تو تہذیب 2 ہزار سال پہلے سے موجود چلی آ رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments