بس ایک بوتل


سردی کی شدت، چھوٹے چھوٹے بچے، ہیٹر، چولہا اور گیس، ہاشو شکاری کل سے پریشان تھا کہ کرے تو کیا اور جائے کہاں؟ تبدیلی گزیدہ حالات ایسے کہ چولہا صرف گیس سونگھتا رہے تو بل مہینے کی آمدنی سے زیادہ، پریشانی میں چلتا چلتا شیدے کے کھوکھے جا پہنچا۔ ابھی بیٹھا ہی تھا کہ اس کے کانوں میں ایک آواز پڑی۔ ہاشو کی تو گویا لاٹری نکل آئی۔ ایک چیختی ہوئی آواز کانوں میں خبر داغ رہی تھی کہ :سردی کی شدت کم کرنے کے لیے ایک بوتل شراب کی اجازت ہے۔

ہاشو حیران رہ گیا کہ شراب بھلا سردی کی شدت کو کیسے کم کر سکتی ہے؟ کافی سوچنے پر بھی بات سمجھ میں نہ آئی تو اس نے ایک بہت ہی مشہور مصنف ”کامیاب تھکان“ کی لکھی ہوئی ایک نادر کتاب کھولی۔ یہ کتاب بائیس کی جدوجہد کے بعد کسی نامعلوم مہم جو نے ڈھونڈ نکالی تھی اور آج کل اس کا نیا ایڈیشن پچھلے تین سالوں سے عوام پر قیامت ڈھا رہا تھا۔ کتاب کا نام تھا ”ہر مسئلے کا حل مغرب کی روشنی میں“ ۔ تھوڑی سی تلاش کے بعد صفحہ نمبر بانوے پر اسے اپنے مسئلے کا حل مل گیا۔

لکھا تھا ”اگر کبھی کوئی بات سمجھ نہ آئے تو نہایت خشوع و خضوع سے ورلڈ کپ انیس صد بانوے (1992ء) کی جھلکیاں دیکھیں اور اپنے مسئلے کا شافی حل پائیں“ ۔ ہاشو اٹھا، دادی اماں کی پرانی الماری کھولی اور ایک ویڈیو کیسٹ نکالی کر چلا دی۔ آدھا گھنٹہ دیکھنے کے بعد اس کی آنکھ لگ گئی اور خوابوں کی گاڑی میں سفر کرتے ہوئے وہ وادی جھلکستان پہنچ گیا۔

ہاشو خواب دیکھ رہا تھا۔ اس کے سامنے ایک بہت پہنچے ہوئے بزرگ بیٹھے تھے۔ ہاشو کو اپنی طرف متوجہ پا کر کہنا شروع کیا: میرے بیٹے! پریشان نہ ہونا کہ سردی اور شراب کا آپس میں کیا لنک ہے؟ وہی لنک ہے جو زمین اور آسمان کا ہے جس طرح زمین آسمان سے دور ہوتی ہے اسی طرح شراب سے سردی دور ہوتی ہے۔ جس طرح دودھ میں پانی ڈالنے سے اس کی سفید رنگت کم ہوتی جاتی ہے اسی طرح شراب پینے سے سردی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ جس طرح جہاں سچ ہوتا ہے وہاں جھوٹ نہیں ہوتا بالکل اسی طرح جہاں شراب ہوتی ہے وہاں سردی نہیں ہوتی۔

ہاشو نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ بزرگ نے اس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھا اور کہا: ناں پتر ناں! مجھے پتا ہے تمہارے ذہن میں کیا ہے؟ یہی ناں کہ ایک بوتل کی اجازت ہی کیوں؟ بیٹا! یہ نئے لوگوں کے لیے ہے ورنہ پرانے پاپیوں کے لیے تو دس بوتلیں بھی کم ہیں۔ جب بندہ شراب پیے گا، نشے میں آئے گا، نشہ اسے دنیا سے بے خبر کر دے گا اور یوں وہ سردی سے بھی بے خبر ہو جائے گا۔ ہاشو کو اپنے سارے سوالوں کا جواب مل چکا تھا۔

اس نے آنکھیں کھولیں اور اپنی دنیا میں واپس لوٹ آیا۔ اب اسے یہ فکر نہیں تھی کہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو سردی سے بچانے کے لیے ہیٹر جلائے گا تو بل کہاں سے دے گا کیونکہ حل اس کے سامنے تھا اور وہ تھا ایک بوتل شراب، سستے داموں مہنگی گیس سے نجات۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب جو بھی مسئلہ ہو گا وہ شراب کی بوتل ہی سے حل کرے گا۔ بس ایک گھونٹ چڑھائی اور نشیلی دنیا کی فلائٹ پکڑ لی۔ ادھر وہاں ”لینڈنگ“ ہوئی اور ادھر سب مسائل حل۔

اس بات میں شک کی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں تھی۔ یورپ کی مثال اس کے سامنے تھی۔ جب بھی وہاں کوئی میچ ہوتا تو تماشائیوں میں ایشیائی باشندے بھی ہوتے تھے اور مقامی گورے بھی لیکن ایک بات اسے ہمیشہ حیران کرتی تھی کہ ایشیائی باشندوں نے سردی سے بچنے کے لیے گرم گرم سویٹرز پہن رکھی ہوتی تھیں جبکہ مقامی گورے سردی سے بے نیاز بیٹھے ہوتے بلکہ کئی ایک تو کپڑوں سے ہی بے نیاز ہوتے تھے۔ وادی جھلکستان کی ایک ہی سیر نے اسے بتا دیا تھا کہ گوروں پر سردی کی شدت کا اثر کیوں نہیں ہوتا؟ یہ ایک بوتل شراب کا اثر تھا۔ آج اسے معلوم ہو چکا تھا کہ جو کام شراب کی ایک بوتل کر سکتی ہے وہ کام سویٹر یا ہیٹر نہیں کر سکتا۔

ہاشو نے یہی نسخہ آزمایا اور اس کا ایسا اثر ہوا کہ وہی ہاشو جو کل تک ایک مشہور وزیر کے اس بیان کا مذاق اڑا رہا تھا کہ: ”ہمارا مسئلہ غربت کا نہیں مہنگائی کا ہے“ آج وہی ہاشو، شیدے کے ہوٹل میں بیٹھا اسی بیان کا دفاع کر رہا تھا۔ اس کے بقول جونہی یہ بیان آیا، آئی ایم ایف نے اسے ضبط کر لیا اور یہ شرط عائد کر دی کہ پاکستانیوں کو اس بیان کی ہوا بھی نہیں لگنی چاہیے ورنہ قرضے کی نئی قسط نہیں ملے گی۔ وہ تو بھلا ہو سیٹھ عابد مرحوم کا جس بڑی چالاکی سے یہ بیان پاکستان سمگل کر دیا۔

پٹواریوں کی بات الگ لیکن محب وطن پاکستانیوں سے گزارش ہے کہ اس بیان پر ملک دشمن اور لفافہ ماہرین معاشیات کی باتوں پر کان مت دھریں۔ ان بیچاروں کو کیا پتا کہ غربت اور مہنگائی کا آپس میں کیا رشتہ ہے؟ اگر پوچھنا ہی ہے تو رشتے کرانے والی کسی آنٹی سے پوچھو۔ اچھے رشتے ڈھونڈتے ڈھونڈتے جوتیاں گھس جاتی ہیں۔ ہم تو خوش قسمت ہیں کہ ایک ستر سالہ نوجوان نے مہنگائی اور غربت کا رشتہ کرایا اور انہیں ہماری دہلیز پر پھینک کر چلا گیا۔ ہمارا قومی فریضہ ہے کہ ہم ان سے سے بنا کر رکھیں اور انہیں دشمن ممالک میں تباہی مچانے بھیج دیں۔ کام پورا ہو جائے تو واپس گھر بلا کر دوبارہ جھاڑو پوچے میں لگا دیں۔ اس طرح ان ممالک کو بھی اپنی اوقات معلوم ہو جائے گی کہ وہ تو بس اس قوم کی دو منکوحوں کی مار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments