ظلم اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے


خطابت کے جواہر اس قدر کہ عطاء اللہ شاہ بخاری اور آغا شورش کاشمیری کے فن تقریر کے چراغ کی لو ٹمٹما جائے اور لہجہ ایسا پر اعتماد کہ صادقین بھی کو اپنی سچائی پر شبہ گزرنے لگے۔ کوئی دن ایسا ڈھلتا نہیں کہ جب تقریر سے دل نہ بہلایا جائے۔ آج سے دو برس قبل جب مقرر نے اقوام متحدہ میں تقریر کے ذریعے فاتحین عالم کا خطاب پایا تھا تو ڈاکٹر طاہر مسعود گویا ہوئے تھے کہ ”تقریر تیری میرا دل نہ بہلا سکے گی“۔ آج بھی معاملہ وہی ہے۔

کاش کہ ان کے مبارک لبوں سے نکلنے والے الفاظ نوالہ بن جائیں، اگر ایسا ممکن ہو جائے تو شاید کسی غریب کو بھوکا سونے نوبت نہ آئے کیوں کہ ہر روز الفاظ اس قدر ادا ہوتے ہیں کہ تمام غریبوں کا با آسانی پیٹ بھر جائے۔ کوئی وقت تھا، جب کہ کہنے والے کہتے تھے کہ، کام، کام، اور صرف کام۔ اور اب وقت ہے کہ کہا جاتا ہے کہ بات، بات، اور صرف بات۔

یہ باتیں ہی تو ہیں جنہوں نے ناکامی کی گرداب گرہ گیر میں حکومتی کشتی کو سنبھال رکھا ہے۔ ملاح کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ باتوں کے پتوار گھما کر گرداب سے نکلنا چاہتا ہے۔ خیر خواہوں کا گروہ کثیر بھی یہی سمجھتا ہے کہ باتوں سے باغ پر چھائی خزاں بہار میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ حقیقت کی دنیا میں فقط باتوں سے سمت درست نہیں ہوتی۔ جو شخص اپنی شخصیت کے ہالے کا اسیر ہو جائے، انجام اس کا گہری کھائی کے سوا کیا ہوتا ہے۔ معلوم نہیں خود کو ناگزیر سمجھنے کا کیڑا دماغ میں کیسے پیدا ہو جاتا ہے جو مسلسل بڑا ہوتا رہتا ہے۔ یہ کیڑا اس وقت مرتا ہے جب بربادی کے نوشتے سر دیوار ہو جاتے ہیں۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ اکثر حکمران کتابوں سے شغف نہیں رکھتے، وگرنہ میر انیس کا شعر تو ناگزیریت کے شجر کو بیج بنا دے۔

جو زندہ ہے وہ موت کی تکلیف سہے گا
جب احمد مرسل ﷺ نہ رہے تو کون رہے گا

اب ذرا دیکھیے تو، کابینہ کی کہکشاں دنیائے تاریخ کے عظیم قاضی، ثاقب نثار کی بے گناہی باتوں سے ثابت کر رہی ہے۔ فواد چودھری سے لے کر وزیراعظم تک، ہر کوئی اس فکر سے نمک کی مانند گھل رہا ہے کہ اگر آڈیو درست نکلی تو سورج مغرب سے طلوع ہو جائے گا۔ اس کابینہ پر فرض ہو گیا کہ وہ ثاقب نثار کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے شمال و جنوب ملا دے۔ پہلے پہل حیرت ہوئی کہ آڈیو آنے سے تحریک انصاف کو لاحق کیا پریشانی ہے۔ پھر حقیقت عیاں ہوئی کہ یہ تو ایک کھیل تھا جو ریشم کے دھاگوں کی طرح بہت خوبصورتی سے بنا گیا تھا۔ اس کھیل کی گندگی اسی صورت آنکھوں سے اوجھل رہ سکتی تھی جب کہ آڈیو سامنے نہ آتی اور اگر آ گئی ہے تو ہر صورت جھوٹ ثابت ہو۔ کھیل کے اختتام پر بساط پلٹ گئی ہے،

اب بات چل نکلی ہے تو کچھ تذکرہ ثاقب نثار کا طویل ہو جائے۔ ہلکے پھلکے انداز میں انجنئیر محمد علی مرزا نے کہا ہے کہ یہ ثاقب نثار نہیں بلکہ ثاقب ناسور ہیں جنہوں نے عدلیہ کی لٹیا ہی ڈبو دی ہے۔ قاضی القضاۃ کے عہدے پر براجمانی کے عرصے کے دوران آپ نے ایک ڈیم فنڈ بھی قائم کیا تھا، جس میں کچھ چندہ خاشع نے بھی جمع کروایا تھا۔ اب پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ تب تو ہم سے یہی کہا جاتا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ڈیم کے مقام پر خیمہ لگا لوں گا اور زندگی کی آخری سانسوں تک ڈیم بنوانے میں اپنا کردار ادا کروں گا۔ اور پھر ائرپورٹ کے کیمروں نے دیکھا کہ ریٹائرمنٹ کے فوراً زمینی جنت یعنی گوروں کے ملک کو ہجرت فرمائی گئی۔

نہ جانے کیوں خیال ابھرتا ہے کہ ابھی اس گندے تالاب سے اور بھی تعفن زدہ اشیا برآمد ہوں گی۔ آڈیوز اور ویڈیوز۔ اتنا ظلم، ملک کے ساتھ، عوام کے ساتھ، ایک خاندان کے ساتھ، محسوس ہوتا ہے کہ جیسا قدرت بھی آمادہ اس بات پر ہے کہ اب ظلم کو مٹنا چاہیے۔ اشارے بھی مثبت ہیں، کہیں علی احمد کرد کی تقریر تو کہیں بلوچستان میں احتجاج۔ شاید سیاہ رات کی طوالت ختم ہونے کو ہے۔ اور ظلم اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے، عنبرین فاطمہ پر حملہ اسی ہتھکنڈے کی نشانی ہے.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments