کہیں نہیں لکھا کہ صفائی غیر مسلموں کی ذمہ داری ہے



حساب دو۔ حساب دو
جینٹرز کے حقوق کا حساب دو
ان کے خون ناحق کا حساب دو

اتوار کی صبح کراچی کے ساحلی علاقے سی ویو پے جب دو ڈھائی سو لوگوں کا اجتماع یہ نعرہ لگا رہا تھا تو پاس سے گزرتی کئی گاڑیوں نے بریک لگاتے ہوئے پوچھا کیا ہوا؟ کس بات کا حساب مانگ رہے ہیں؟

ایک محتاط اندازے کے مطابق ڈھائی کروڑ سے زائد آبادی والے اس شہر کراچی میں اتوار کی صبح دس بجے اپنے بستروں اور گھروں کو چھوڑ کے ڈھائی تین سو مرد و زن اور بچوں کا کسی مقصد کے نکل آنا، ایک جگہ جمع ہوجانا اور نعرے لگاتے ہوئے واک کرنا آج کے اس دور میں بہت بڑی بات ہے۔

کیوں کہ اس شہر خرابی میں تو اوپر تلے برسوں رہنے والوں کو ایک دوسرے کا نام بھی پتہ نہیں ہوتا۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ بڑے شہروں کا طرز زندگی ایسا ہی ہوتا ہے وہاں کسی کو کسی کی خبر نہیں ہوتی۔

کسی کو کسی کی خبر ہو یا نہ ہو لیکن ہر حساس سوچ رکھنے والا دماغ اور دکھ محسوس کرنے والا دل جانتا ہے کہ اس شہر میں ”نعیم صادق“ نامی ایک ایسا انسان رہتا ہے جو معاشرے کے ہر دبے ہوئے طبقے کا نہ صرف درد رکھتا ہے۔ ان کے لئے آواز اٹھاتا ہے۔ احتجاج کرتا ہے اور دوا کے حصول کے لئے بھاگ دوڑ بھی کرتا ہے۔

نعیم صادق کی آواز میں آواز ملانے والوں کا یہ اجتماع دراصل معاشرے کے اس طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے تھا جو شہروں، گاؤں، گلیوں، گھروں، سڑکوں پے ہماری پیدا کردہ غلاظت کو صاف کر کے ہمارے چلنے پھرنے اور رہنے کے قابل بناتے ہیں۔ اور جنھیں ہم انتہائی حقیر انداز میں طرح طرح کے ناموں سے پکارتے ہیں اور معاوضہ دیتے وقت انتہائی تنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

آج معاشرہ کے یہ افراد کام کرنا بند کر دیں یا ہڑتال پے چلے جائیں تو تصور کیجیے کہ ہمارے شہروں، گھروں، اسکولوں، ہسپتالوں، سڑکوں اور گلیوں کا کیا حال ہو گا؟

گندے پانی کے نالوں، نالیوں اور گٹروں کے ساتھ ہم جو سلوک روا رکھے ہوئے ہیں اسے کسی بیان کی ضرورت نہیں۔ تصور کیجیے اس وقت کا جب گٹر بند ہو جائیں اور کوئی کھولنے والا نہ ہو اور غلاظت کمروں، برآمدوں، لاؤنج اور کچن سے ہوتی ہوئی ہمارے چاروں طرف پھیل رہی ہو، گھوم رہی ہو تو کیا منظر ہو گا؟

مجھے اس وقت کینیڈا کا شہر ٹورنٹو یاد آ رہا ہے جب 2009 میں وہاں تھی اور شہر کے سینٹری ورکرز یا کہہ لیں صفائی کے کام پر مامور عملے نے ہڑتال کردی تھی۔

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتی ہوں کہ ساری مہذب دنیا میں کچرا جسے عرف عام میں کوڑا بھی کہا جاتا ہے۔ تھیلوں میں بند ہوتا ہے یہ ہی نہیں مختلف قسم کے کچرے کی نشاندہی مختلف رنگوں کے تھیلوں سے ہوتی ہے۔ اور کسی میں اتنی جرات نہیں کہ کچرے کو غلط تھیلے میں ڈال دے۔ ہر کچرے کا ایک دن مقرر ہوتا ہے۔ اپنے مقررہ دن پر گاڑی آتی ہے اور ایک رات قبل رکھے گئے تھیلے اٹھا کے لے جاتی ہے۔ نہ کوئی تھیلا پھٹا ہوتا ہے، نہ کسی کا منہ کھلا ہوتا ہے اور نہ ہی کسی میں سے کچرا ٹپک رہا ہوتا ہے۔ اگر کوئی فرد مقررہ دن پر تھیلا رکھنا بھول جائے تو اس کو ٹھکانے تک پہنچانا صاحب معاملہ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس کام پے مامور گاڑی نہ صرف چمکتی دمکتی ہوتی ہے فرض کی ادائیگی پر مامور افراد بھی صاف ستھری ڈانگریوں میں ملبوس ہوتے ہیں۔

اس سے بھی مزے کی بات یہ ہے کہ کینیڈا میں فی گھنٹہ حساب سے کام کرنے والوں میں میونسپل کارپوریشن کے ملازمین کی فی گھنٹہ ادائیگی سب سے زیادہ ہے۔

اور اس سے بھی زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے مختلف ممالک سے جانے والے غیر تربیت یافتہ ایمیگرنٹ کی اکثریت اس ملازمت کے حصول کے لئے مرے جاتے ہیں۔ انھیں کینڈین کچرے کے تھیلے اٹھانے میں کوئی قباحت نہیں ہوتی۔ معاوضہ کے زیادہ حصول کے لئے ہونے والی اس بھاگ دوڑ کو دیکھتے ہوئے کینڈین حکومت نے اس ملازمت کو صرف پرانے کینڈین کے لیے مخصوص کر دیا ہے۔

بات ہو رہی تھی ٹورنٹو کے عملہ صفائی کی ہڑتال کی۔ وہاں کی مقامی حکومت نے کئی ہفتوں پر مشتمل اس ہڑتال کو طالب علموں اور رضاکاروں کے توسط سے نمٹا۔

تذکرہ تو یہ بھی بے محل نہ ہو گا کہ مکہ مدینہ اور سعودی عرب کے دوسرے شہروں میں صفائی کے کام پر کون لوگ مامور ہوتے ہیں؟ اور اس ملازمت کو کتنے پاپڑ بیل کے حاصل کرتے ہیں۔

ایک سوال میرے ذہن میں کلبلا رہا ہے کہ کیا کینیڈا، امریکہ، سعودی عرب اور دوسرے بہت سے ملکوں کا کچرا زیادہ عزت دار ہے؟

بات سے بات نکلتی جا رہی ہے۔ جب کہ بات کا آغاز میں نے یہ سب کہنے سننے کے ارادے سے نہیں کیا تھا۔

میرا مقصد صرف اور صرف اس طبقے کی مشکلات کو اجاگر کرنا تھا جنھیں ہم روز مرہ کی زبان میں بھنگی، چوڑے، جمعدار، خاک روب جیسے القابات سے پکارتے ہیں اور معاوضہ دیتے وقت ہمارے ہاتھ سکڑ جاتے ہیں۔

آج تک مجھے یہ بات بھی سمجھ نہیں آ سکی ہم نے یہ کیوں طے کر لیا ہے کہ ہمارے گھروں، گلیوں، بازاروں، چوراہوں، اسکولوں، ہسپتالوں، دفتروں سے ہر قسم کی گندگی غلاظت اور کوڑا کرکٹ ہندو یا عیسائی اٹھائیں گے؟

پاکستانی آئین کی کس شق میں یہ تحریر نہیں ہے کہ صفائی ستھرائی کا کام غیر مسلموں کا ہے؟

جتنا میرا علم ہے اس کے مطابق ہماری دینی کتاب ہمیں پاکی ناپاکی اور صفائی ستھرائی کا حکم بھی دیتی ہے اور درس بھی لیکن یہ تو کہیں نہیں لکھا کہ اس کام کی ادائیگی ہمارے بجائے کسی دوسرے عقیدے اور مذہب کے پیروکار کریں گے۔

ورثے میں آئی اور بہت ساری سماجی برائیوں کی طرح غیر منقسم ہندوستان سے آنے والے یہ بھی اپنے ساتھ لائے اور اس کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جب کہ ہمارا دین بار بار کہتا ہے کہ سب انسان برابر ہیں اور کسی کو ایک دوسرے پر رنگ، نسل، زبان، عقیدے کی بنیاد پر افضلیت حاصل نہیں۔

یہ کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے ہمارے معاشرے میں صفائی ستھرائی کے کام پر مامور افراد کے ساتھ ہمارا معاشرتی رویہ بہت ظالمانہ اور حقیرانہ ہے۔ ہم انھیں ناموں سے مخاطب کرنے کی بجائے طرح طرح کے ناموں سے پکارتے ہیں۔ انھیں تیسرے چوتھے درجے کا انسان سمجھتے ہیں۔

ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ وقت بہت بدل چکا ہے۔ دنیا میں آج وہی اقوام پھل پھول رہی ہیں جو فرد کی عزت اس کے کام اور پیشے کی بنیاد پر نہیں بلکہ بحیثیت فرد کے کرتی ہیں۔

ہمیں بہادر شاہ ظفر کی پڑ پوتیوں کی تصویروں کو نہیں بھولنا چاہیے۔ نہ ہی شاہ ایران کے تاراج کو، آنکھیں کھولنے کو تو ہمارے اطراف ایسے نجانے کتنے واقعات ہیں۔ ہمیں اپنے رویے اور سوچ کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔

یہ ہی نہیں بحیثیت جیتے جاگتے ذہن اور دھڑکتے دل کا مالک ہوتے ہوئے اس طبقے کی مراعات کے لئے آواز اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ ہی نہیں ان کے کام کرنے کے ماحول کو بہتر بنانا بھی ہمارا فرض ہے۔

تصور کریں دنیا چاند سے ہوتی ہوئی مریخ تک جا پہنچی اور جانے کہاں کہاں کمندیں ڈالنے کے منصوبے بنا رہی ہے اور ہمارے ہاں گٹروں، نالوں کی غلاظت میں آج بھی ایک جیتا جاگتا انسان بنا کسی حفاظتی انتظام کے اترتا ہے اور ہانپتا کانپتا غلاظت میں لتھڑا نکل آتا ہے اور کبھی۔

سوچیں بار بار سوچیں اس اپنے جیسے دو ہاتھ پیروں والے انسان کے بارے میں جو کبھی ہمارے گٹروں سے نہیں نکل پاتا۔

ہم خود اپنے گھروں کی گندگی صاف کرنے اور غلاظت اٹھانے کو تیار نہیں اور ایک دوسرے انسان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ڈبکی لگائے اور ہمارا گٹر صاف کردے۔

ہم کتنے ظالم ہیں۔ اپنے اس ناروا سلوک کا حساب دینا ہی ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments