نامور مصور غلام رسول نے کہا، یہ پینٹنگ آپ کی ہوئی !



جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ وہ عام طور پر اپنے تصورات اور خیالات کو کینوس پر منتقل کرنے کے لئے کس جگہ کا انتخاب کرتے ہیں تو انھوں نے اس کام کے لئے اسلام آباد میں اپنے دو پسندیدہ مقامات کی نشان دہی کی، ایک مارگلہ پہاڑیوں کے دامن میں واقع، سید پور اور دوسرا اسلام آباد سے ذرا ہٹ کے، بنی گالہ! ۔ بنی گالہ تب بہت حد تک غیر آباد اور شور شرابے سے دور خاموش علاقہ ہوا کرتا تھا اس لیے اس مقام کے لئے، آرٹسٹ کی ترجیح، سمجھ میں آتی تھی لہٰذا اس خوبی کے پیش نظر، یہی طے پایا کہ ان کی پروفائل ڈاکومنٹری کے لئے پہلی لوکیشن بنی گالہ ہی ہو گی تاکہ ابتدا، پرسکون اور تسلی بخش طریقے سے ہو۔

اس لوکیشن کے لئے، ان سے ایک کینوس اور مطلوبہ رنگوں کی فرمائش کی گئی اور اس طرح مقررہ دن، یہ مختصر کارواں صبح سویرے بنی گالہ کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں ان سے دوران گفتگو، اتفاق رائے سے یہ فیصلہ ہوا کہ آج ہم نے بس ایک کام کرنا ہے اور وہ ہے کسی ایک خوب صورت پس منظر کا انتخاب اور اس انتخاب کو ان کی فنکارانہ مہارت اور جمالیاتی حس کے ساتھ کینوس پر منتقل کرنا۔

اس تجویز پر پہلے تو انھیں کسی قدر حیرانی ہوئی کہ سارا دن اس منظر کی مہم جوئی سے کیا حاصل ہو گا اور یہ اندیشہ بھی، کہیں ان سے کرائی گئی یہ جبری محنت اور مشقت اکارت تو نہیں جائے گی، مگر اس تجویز کے پس منظر کی وضاحت پر انھیں بھی اس پر آمادہ ہونے میں قطعاً دیر نہ لگی بلکہ ایک آرٹسٹ کے طور پر انھیں اپنی پروفائل ڈاکومنٹری کے لئے یہ آرٹسٹک ٹریٹمنٹ بہت بھلا لگا۔

انھوں نے اس ٹریٹمنٹ پر خوشی کا اظہار کچھ یوں بھی کیا کہ نہایت پر جوش ہو کر وعدہ کیا کہ تکمیل کے بعد یہ پینٹنگ آپ کی ہوگی۔ ایک مایہ ناز مصور کی طرف سے محبت اور تعلق کا اس سے بڑا اظہار اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنا فن پارہ کسی کو تحفے میں نذر کر دے۔

سو اس پینٹنگ کا آغاز یوں ہوا کہ بنی گالہ پہنچ کر انھوں نے مختلف زاویوں سے مختلف جگہوں پر کھڑے ہو کر اپنے حسن نظر سے دکھائی دینے والے مناظر کا جائزہ لیا اور کچھ ہی دیر میں ایک مخصوص لینڈ اسکیپ منتخب کر کے ایزل اور کینوس وہیں سجا دیا۔

کمال دکھانے والے ہاتھوں اور جمال اور خوبصورتی کو پرکھنے والی آنکھوں کے توسط سے، سفید کینوس پر خوش نما رنگ آہستہ آہستہ اپنی جگہ بنانے لگے اور زیادہ وقت نہیں گزرا کہ اس پر درخت، پانی اور دوسرے آثار بھی ظاہر ہونے لگے۔ اس تخلیقی عمل کے دوران ان کی گفتگو بھی وقفوں وقفوں کے ساتھ ان کی زندگی کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالتی رہی۔

انھوں نے پنجاب یونیورسٹی میں آرٹ کے اپنے پہلے استاد خالد اقبال کا عقیدت سے ذکر کیا اور اپنی غیر ملکی تربیت کا احوال بھی بتایا۔ وہ 1969 میں امریکہ کی یونیورسٹی میں داخل ہوئے جہاں سے انھوں نے پرنٹ میکنگ اور پینٹنگ کی تربیت حاصل کی۔ پھر انھیں 1984 میں ایک فرانسیسی اسکالرشپ ملی اور یہ، وہ موقع تھا جب وہ پیرس میں نامور فرانسیسی مصوروں کے ساتھ رابطے میں رہے۔

مصوروں کی دینا میں، ان کی شناخت، ان کی بنائی ہوئی لینڈ اسکیپس رہیں اور اسی اعتبار سے انھیں عوام کا مصور بھی کہا گیا۔ پینٹنگ کا یہ انداز اختیار کرنے کے لئے انھوں نے اپنے استاد خالد اقبال کا حوالہ دیا جو پاکستان میں لینڈ اسکپیس کے پیش رو کہے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی جائے پیدائش اوکاڑہ کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا کہ شاید یہ وہاں کے مشاہدات اور تجربات تھے جنہوں نے انھیں اپنی زمین کی خوبصورتی کے حصار سے نکلنے نہ دیا۔

اوکاڑہ میں اسکول کے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے خاص طور پر اپنے ہیڈ ماسٹر اور اسکول کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے ان کی خواہشات اور کوششوں کا ذکر کیا۔ اس ضمن میں انھوں نے ایک دلچسپ واقعہ یہ سنایا کہ ایک دن اسمبلی میں انھوں نے اسکول کے ہر طالب علم کو تاکید کی کہ اسے اسکول آتے ہوئے، راستے میں جتنی اینٹیں ملیں، وہ انھیں اسکول لے آئے۔ یوں ان اینٹوں کا ڈھیر لگتا رہا اور پھر ان جمع شدہ اینٹوں سے انھوں نے اسکول میں ایک کمرہ تعمیر کرایا اور اپنے ادارے سے محبت، وابستگی اور محدود وسائل میں رہتے ہوئے کچھ کر دکھانے کی تڑپ کو عملی جامہ پہنایا۔ بعد میں اس کمرے کو اسکول کے ایک کلاس روم کی شکل دی گئی۔

گفتگو اور چائے کے ساتھ ساتھ، کینوس کے رنگوں اور منظر کشی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور کینوس سے باہر کا منظر، کینوس پر اپنی تمام فطری خوبیوں کے ساتھ منتقل ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ ایسے جیسے، ایک جیسے دو منظر، پہلو بہ پہلو ایک دوسرے کو تکتے ہوں۔

اس خوبصورت تخلیقی عمل کے دوران، وقت گزرنے کا احساس کسے ہوتا، سو انھوں نے اپنی پینٹنگ کی تکمیل کا خود اعلان کیا اور بتایا کہ اب اس میں فائنل ٹچز رہ گئے ہیں جو وہ بعد میں کسی وقت تسلی سے دیں گے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے ایک بار پھر، اپنا محبت بھرا وعدہ دہرایا کہ اس حتمی مرحلے کے بعد پھر، یہ پینٹنگ آپ کی!

یہ پینٹنگ کس طرح، کہاں پہنچی، یہاں یہ بتانا یقیناً ضروری ہے مگر اس سے پہلے اس بات کی وضاحت اس سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ، محض اس پینٹنگ پر، سارا دن صرف کرنے پر کیوں رضامند ہوئے۔ انھیں جب یہ تفصیل گوش گزار کی گئی کہ پینٹنگ بنانے کا یہ عمل سکرین پر جوں کا توں اکٹھے نہیں دکھایا جائے گا بلکہ اسے ٹکڑوں میں تھوڑا تھوڑا، کر کے پیش کیا جائے گا اور ان ٹکڑوں کے درمیان ان کی دوسری جگہوں پر ریکارڈ کی جانے والی گفتگو اور پہلے سے تخلیق کی گئی، فطرت کی نمائندہ مشہور زمانہ پینٹنگز اور دیگر ضروری دستاویزات شامل کی جائیں گی۔

گویا اس طرح، ان کی گفتگو کے مکمل ہونے پر، یہ پینٹنگ بھی، اپنی تکمیل کے مراحل سے گزر چکی ہو گی اور اختتام میں ان کے ہاتھوں سے، ان کی علامتی پہچان GR کے الفاظ، پینٹنگ پر نقش ہوتے دکھائے جائیں گے۔ یہ تفصیل شاید ان کے قائل ہونے کے لئے کافی تھی۔

اب سوال رہا اس پینٹنگ کا، کہ جس سے وہ منسوب ہوئی، اس تک کیوں کر پہنچی ( یا پہنچی بھی کہ نہیں پہنچی ) ۔ یہاں معاملہ مدعی سست، گواہ چست کا رہا۔ غلام رسول صاحب نے نہایت اپنائیت سے متواتر رابطہ کیا، پیغامات بھیجے، اور امانت کی وصولی پر بارہا اکسایا مگر جب، دن ہفتے، ہفتے مہینے اور مہینے سال بنے تو طویل نیند سے جاگنے والے کو جو، جواب (حسب حال) ملنا چاہیے تھا وہ ہی ملا کہ آپ کہاں روپوش تھے، میں نے پینٹنگ کو بہت بچائے اور چھپائے رکھا، انتظار جیسا انتظار کیا، اور پھر ایک قدر دان وہ مجھ سے ہتھیا لے گئے۔

(غلام رسول صاحب کی برسی 3 دسمبر کو منائی جاتی ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments