لوک ورثہ اسلام آباد میں سجا ایک دلکش و انوکھا میلہ


یوں تو ہم اپنے اردگرد روزمرہ کی بنیاد پر بے شمار فیملی فیسٹیولز، سماجی تقریبات اور بہت سارے تفریحی پروگرامات میں شرکت کرتے ہیں۔ مگر ہماری ان تقریبات کا حصہ ہمیشہ سماج کے وہ باشندے ہوتے ہیں جنہیں اس سماج نے خود سے جوڑا ہوتا ہے۔ ہمارے سماج میں کئی ایسے طبقات ہیں جنہیں محض چند حادثات و کچھ معاشرتی حالات کی بنیاد پر ہم نے انہیں اپنے سماج سے الگ تھلگ رکھا ہوا ہے۔ ان طبقات میں کچھ افراد محض جنسی حیثیت کی بنیاد پر (خواجہ سراء) انہیں معاشرے نے خود سے جدا کیا ہے اور کچھ افراد کو غربت یا مکمل خاندانی سہارا نا ہونے کے سبب اس خود غرض معاشرے نے انہیں خود سے جدا کر رکھا ہے جن میں اگر ان یتیم و بے سہارا بچوں کی بات کی جائے جو مختلف یتیم خانوں میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہماری سماجی روزمرہ کی زندگیوں سے مکمل الگ تھلگ ہیں بجائے ان بچوں کے جو والدین جیسی عظیم نعمت سے مالامال ہیں اور اپنے گھر جیسے خوبصورت آغوش میں پل رہے ہیں جو اس معاشرے کا باقاعدہ فرد تصویر کیے جاتے ہیں اور سماجی تقریبات ہوں یا تفریحی میلہ جات ہوں ان کا باقاعدہ حصہ رہتے ہیں جبکہ ان کے برعکس یتیم خانوں میں رہائش پذیر بچے اس سماج میں ایک مختلف طبقہ محسوس ہوتے ہیں جنہیں مذکورہ تمام سماجی میل ملاپ نا ہونے کے سبب خود میں ایک علیحدگی اور احساس محرومی کا ایک دردناک و المناک سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسی عظیم سوچ و فکر کی پیروی کرتے ہوئے کہ ”انسان اپنی ذات کے لئے تو جیتا ہی ہے مگر دوسروں کی فلاح و بہبود کے لئے زندگی جینا ہی حقیقی زندگی ہے“ اسلام آباد میں قائم ایک فلاحی و رضاکارانہ تنظیم ایکٹ آف کائینڈنیس ( Act of Kindness ) کے بانی جناب عتیق آفریدی نے اپنی پوری ٹیم کے ہمراہ 28 نومبر 2021 کو اسلام آباد کے لوک ورثہ میں سجایا ایک دلکش و انوکھا میلہ۔ جی ہاں! یہ میلہ ہماری روز مرہ تفریحی تقریبات سے قدر مختلف تھا کیونکہ اس میں محض سماج کے ان افراد کی شرکت نہیں تھی جنہیں ہمارا معاشرہ بذات خود تسلیم کرتا ہے اور جو معاشرے کے بلاواسطہ افراد تصور کیے جاتے ہیں اور یہ کوئی ایسی تقریب بھی نہیں تھی جہاں محض معاشرے سے علیحدہ شدہ طبقوں کی ہی موجودگی ہو بلکہ اس میلے میں دلکش و انوکھی بات یہ تھی کہ اس پروقار فیسٹیول میں اسلام آباد و راولپنڈی کے مختلف یتیم خانوں کے ننھے و پھول نما بچوں کی خصوصی شرکت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر عام و خاص فرد کو بھی مدعو کیا گیا تھا تاکہ ان بچوں کے ذہنوں سے اس احساس محرومی کو ختم کیا جائے کہ معاشرہ ہمیں ایک الگ فرد یا طبقہ تصور کرتا ہے اور ہم اپنے معاشرے کی رونقوں و تقریبات اور فیسٹیولز کا حصہ تصور نہیں کیے جاتے ہیں۔

اس میلے کو ٹیم Act of Kindness کی جانب سے 2021 ’Kind Fest کا عنوان دیا گیا۔ میلے میں اسلام آباد/راولپنڈی کی مختلف جامعات کے طلباء و طالبات نے نا صرف رضاکارانہ طور پر میلے کے انتظامات میں اپنی خدمات سر انجام دی بلکہ اس فیسٹیول کو کامیاب کرنے کے لئے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مختلف انداز میں مالی امداد اکٹھا بھی کرنے کا فریضہ سر انجام دیا۔ میں خوش بختی سے اس شاندار میلے کے انتظامات سنبھالنے والوں کی صفوں میں تھا اور اپنی جامعہ (انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد) کی نمائندگی کرتے ہوئے حتی الامکان اس کائنڈ فیسٹ (Kind Fest) کو خوبصورت و کامیاب بنانے کی کوشش کی۔

اس فیسٹیول میں اسلام/راولپنڈی کے مختلف یتیم خانوں کے تقریباً 300 یتیم و بے سہارا بچوں نے شرکت کی جہاں ان بچوں کی تفریح کے لئے مختلف جھولے، کھیل اور گیمز وغیرہ کا اہتمام کیا گیا جن سے بچوں نے خوب لطف حاصل کیا جبکہ اطراف میں کھانوں و دیگر اشیاء کے بے شمار اسٹالز بھی سجائے گئے اور رات کو محفل موسیقی کی خوبصورت محفل سجائی گئی جس میں ملک کے نامور فنکار شان خان سمیت کئی گلوکاروں، فنکاروں نے بچوں سمیت شرکاء محفل کو اپنی سریلی آواز اور فن موسیقی سے خوب محظوظ کیا۔

یقیناً یہ اپنی نوعیت کا ایک انوکھا، دلکش و شاندار میلہ تھا جہاں ان یتیم و بے سہارا بچوں نے یہ بالکل بھی محسوس نہیں کیا کہ ہم باقی معاشرے کے بچوں سے مختلف ہیں بلکہ فیسٹیول میں شریک مختلف فیملیز کے ہمراہ آئے ہوئے بچوں کے ساتھ مل کر وہ خوب لطف اندوز ہوئے۔ بلا شبہ اس خوبصورت تقریب کو سجانے پر عتیق آفریدی سمیت Act of Kindness کی پوری ٹیم بے حد داد و تحسین کی مستحق ہے ہر وہ شخص لائق تحسین ہے جس نے اس خوبصورت و شاندار میلے میں حصہ لیا۔

میں اس تحریر کے توسط سے پورے معاشرے کو یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ ہمیں اپنے معاشرے کے تمام تر افراد کو سمیٹ کر ایک سماج تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ معاشرے میں جنس، مال و دولت، حسب و نسب سے بالائے طاق ہو کر معاشرے کے امیر و غریب فرد کو اس سماج کا حصہ تصور کرنا چاہیے اور Kind Fest کی طرح ایسے فیسٹیولز کا انعقاد کر کے نا صرف معاشرے کو اس بات کا احساس دلانا چاہیے کہ معاشرے کا ہر فرد اس سماج کا حصہ ہے بلکہ ان افراد کے بھی احساس جدائی و محرومی کا مداوا کرنا چاہیے تاکہ ”ہم سب ایک ہیں“ کے فلسفے پر رہتے ہوئے معاشرتی امن و ہم آہنگی کی بنیاد پر خوشی خوشی زندگی بسر کرسکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments