پیسہ صحت پر خرچ کریں یا بیماری کے علاج پر؟


اگر کوئی پوچھے کہ آپ پیسہ بیماری کے علاج پر خرچ کرنا چاہیں گے / گی یا صحت پر، تو آپ کا جواب کیا ہو گا؟ اس کے جواب میں کوئی بھی ذی عقل یہی کہے گا کہ پیسہ صحت پر خرچ کرنا چاہیے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مغربی ممالک میں نہ صرف حکومتیں اپنی عوام کو صحت کی سہولیات ترجیحی بنیادوں پر فراہم کرتی ہیں بلکہ لوگ خود بھی صحت اور مثبت طرز زندگی کے لئے دانستہ کوشش اور رقم خرچ کرتے ہیں۔ دوسری طرف، ہمارے ہاں بدقسمتی سے صحت اور مثبت طرز زندگی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ بس زندگی جیسے تیسے گزر رہی ہے اور ایک روز ختم ہو جائے گی۔ غریب اور شعور سے عاری لوگ تو کیا، امیر طبقے میں بھی صحت کو اولیت دینے کا رجحان کم ہی ہے۔

جسمانی اور ذہنی صحت کو شدت سے متاثر کرنے والے چند عوامل یہ ہیں :

غربت، بیروزگاری، جہالت، اور آبادی میں مسلسل اضافہ:

صحت کی خرابی اور بیماریوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ملک میں غربت، بیروزگاری، تعلیم و شعور کی کمی، اور آبادی کا بے قابو ہونا ہے۔ تیسری دنیا کے ملک میں بائیس کروڑ کی آبادی کی ضروریات پوری کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ مزید یہ کہ جہاں بائیس کروڑ میں سے تقریباً چالیس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو، وہاں صحت، تعلیم اور علاج تو دور کی بات، دو وقت کی روٹی پوری کرنا ہی ایک مصیبت ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں سرکاری ہسپتالوں میں لوگوں کے جم غفیر کو دیکھ کر آبادی اور صحت کے حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آبادی میں اضافے کو ہمارے عوام روک سکتے ہیں لیکن غربت اور بیروزگاری پر قابو پانے کے لئے حکومتی کارکردگی، اقدامات، اور پالیسی کا زیادہ عمل دخل ہے۔ مگر دیگر کئی معاملات ہمارے اختیار میں ہونے کے باوجود انحطاط پذیر ہیں۔ جہاں جہاں ہم دانستہ کوشش کر کے تبدیلی لا سکتے ہیں، وہاں بھی ناکام ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ہم نے صحت کے معاملے میں خود سے دشمنوں جیسا سلوک روا رکھا ہوا ہے۔ ہمارے رویے کچھ ایسے ہیں :

مادہ پرستی اور ظاہری زرق برق:

ہمارے مادہ پرست معاشرے میں لوگ نمائش اور عزت کی خاطر کپڑوں، جوتوں، جیولری، اور آرائش و زیبائش پر ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں۔ یہ آپ کی معاشرتی حیثیت اور عزت نفس کے لئے ضروری بھی ہے لیکن ان اشیاء سے آپ کی صحت پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑتا سوائے وقتی خوشی اور خوداعتمادی کے۔

لذت کی خاطر غذائیت کو نظرانداز کر دینا:

لوگ گھر کی بجائے باہر جا کے کھانے، گھر میں کھانا بنانے کی بجائے آرڈر پر غیر صحت بخش کھانے منگوانے، بیکری کی اشیاء، اور جنک فوڈز پر ہزاروں روپے لٹا دیتے ہیں۔ لذت کام و دہن کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن ہم کھانے کے معیار اور غذائیت کو جس بری طرح نظرانداز کر دیتے ہیں تو یہ لذت حقیقتاً صحت کی خرابی اور بیماریوں کا سبب بن جاتی ہے۔

غیر صحت مندانہ طرز زندگی:

ظاہری زرق برق اور مضر صحت کھانوں کے بعد تیسری چیز دور حاضر کا طرز زندگی ہے جو ہماری صحت کے لئے کافی خطرناک ہے۔ جدید ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ، اور برقی آلات کے استعمال سے جہاں سہولیات کا ایک خزانہ ہمیں میسر آیا ہے، وہیں ہماری صحت بھی متاثر ہوئی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی اور سموگ کا بھی اس میں نہایت اہم کردار ہے۔

موبائل، انٹرنیٹ ڈیوائسز، اور مائیکرو ویو اوون کا استعمال؛ کاہلی، سہل پسندی، ورزش نہ کرنا، اور جسمانی مشقت سے گریز؛ اور فطرت سے دور ہو جانا وغیرہ، یہ وہ مسائل ہیں جن کا احساس ہوتے ہوئے بھی ہم اپنے طرز زندگی کو بدلنے میں کافی حد تک ناکام ہیں۔

اس ناکامی کی اہم وجوہات میں لاپروائی اور بے حسی، دوسرا فیشن یا دنیا کا دستور، اور تیسرا وقت کی کمی اور مصروفیات کی زیادتی ہے۔ تینوں وجوہات ہماری صحت پر کس قدر منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں، یہ بات انتہائی پریشان کن بھی ہے اور قابل غور بھی۔ ان ہی کی بنا پر ہمارے ہاں بی پی، شوگر، جوڑوں کا درد، اور دل کے امراض میں گزشتہ بیس سالوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ جب تک ہم اپنی ذات کو اہمیت نہ دیں گے اور غیر صحت مندانہ سرگرمیوں کو دانستہ اپنی زندگی سے نہیں نکالیں گے، تب تک معاملات خراب رہیں گے۔ ہمیں دیانت داری سے اپنی ذات اور صحت کو مقدم رکھنا ہو گا۔ اپنی صحت کا خیال ہمی رکھ سکتے ہیں نہ کہ کوئی اور۔ صحت ہی دراصل زندگی ہے۔ بیماری میں زندگی بے کیف و بے ذائقہ ہو جاتی ہے۔ شوگر، بی پی، اور دل کے امراض میں ڈاکٹرز مختلف چیزوں سے پرہیز بتا دیتے ہیں جس سے آپ کئی طرح کی لذتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔

درجہ بالا تینوں وجوہات ہماری صحت اور آخر کار زندگی کو دیمک کی طرح لیکن آہستہ آہستہ چاٹ رہی ہیں جس کا احساس ہمیں کچھ سالوں یا عشروں کے بعد ہو گا لیکن تب تک وقت ہاتھ سے نکل چکا ہو گا۔ لوگ پہلے صحت کو نظر انداز کر کے بیماری کو دعوت دیتے ہیں، پھر ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے چکروں میں پیسے اور وقت برباد کرنے کے علاوہ خوار بھی ہوتے ہیں۔ بیماری کو شروع میں کنٹرول کرنا آسان اور ممکن ہوتا ہے۔ آخری سٹیج پر وہ لاعلاج ہو جاتی ہے مثلاً کینسر اور دل کے امراض۔ تو کیوں نہ ہم غیر صحت مندانہ طرز زندگی اور اپنی ذات کو نظرانداز کرنا آج ہی ترک کر دیں۔ جو ہمارے ہاتھ میں ہے، کم از کم وہ تو کریں۔

قارئین خود اس بات کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ ان کے معمولات اور طریق زندگی میں کیا کیا باتیں منفی اور نقصان دہ ہیں۔ پھر کوشش اور قوت ارادی کی مدد سے ان پر قابو پائیں۔ اس سلسلے میں صرف سگریٹ نوشی کی مثال کافی ہے۔ نمود و نمائش، لوگوں کے دباؤ اور ان جیسا بننے کے چکر میں فضول خرچی اور غیر صحت مندانہ طریقۂ زندگی ترک کر کے سادہ اور فطرت کے قریب زندگی کی طرف آئیں۔ لذت کے بجائے غذائیت کو اہمیت دیں۔ اپنی ذات کو بلاتفریق محبت اور وقت دیں۔ یہ آپ کی ذات کا حق ہے۔ جو پیسہ کل بیماری کے علاج پر خرچ ہونا ہے، اسے آج اپنی صحت پر خرچ کریں۔ یہی دانشمندی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments