رسائی خصوصی لڑکیوں کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے


ارم ارشد کا تعلق لاہور سے ہے۔ پولیو اور سکالی اوسس کا شکار ہیں۔ فلاسفی میں ایم۔ اے کیا ہے۔ پی۔ سی۔ آئی۔ آر لیبارٹری لیب کمپلیکس میں سترہیویں گریڈ میں بحیثیت انڈسٹریل لائزن افسر کام کر رہی ہیں۔ ارم اول سے دسویں جماعت تک سکول میں ٹاپ کرتی رہی ہیں۔ آٹھویں اور دسویں جماعت میں سکول سے بہترین سٹوڈنٹ کا میڈل بھی حاصل کر چکی ہیں۔ کالج کی تعلیم میں بھی ہمیشہ فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔ ایم۔ اے کرنے پر سرٹیفکیٹ آف میرٹ حاصل کیا۔

ارم غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بھر پور حصہ لیتی رہی ہیں۔ سکول میں پینٹنگ اور تقریری مقابلوں میں بھر پور حصہ لیتی رہیں۔ ان مقابلوں میں بھی ہمیشہ نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ سکول کی سالانہ تقاریب میں بننے والے انویٹیشن کارڈز ارم سے بنوائے جاتے تھے۔

والد صاحب پی۔ سی۔ آئی۔ آر۔ ایس سے پرنسپل سائنٹفک افسر ریٹائرڈ ہیں۔ والدہ صاحبہ تعلیم یافتہ خاتون خانہ تھیں۔ خاندان چار بہنوں اور ایک بھائی پر مشتمل ہے۔ ایک بہن ڈاکٹر ہیں فارماسوٹیکل کا کاروبار چلا رہی ہیں، دوسری بہن نے سائیکالوجی میں ایم۔ ایس۔ سی کی ہے، تیسری بہن نے کیمیکل انجینئرنگ کے ساتھ ایم۔ بی۔ اے کیا ہے، سنیکس کا کاروبار کر رہی ہیں، جبکہ بھائی بی۔ سی۔ ایس کے بعد بزنس کر رہے ہیں۔ ارم کے سوا سب شادی شدہ ہیں۔

تین چار ماہ کی عمر میں تیز بخار ہوا۔ بھاگ دوڑ کے بعد پولیو کی تشخیص ہوئی۔ لاہور کے بہترین ہسپتالوں سے علاج ہوا لیکن افاقہ نہ ہوا۔ تین چار سال کی عمر میں سرجری بھی ہوئی۔ جس کے بعد بریسز سے چل لیا کرتی تھیں۔ لیکن بریسز اتنے بھاری ہوا کرتے تھے کہ ارم رونا شروع کر دیتیں۔ چند ماہ بعد بریسز سے چلنا چھوڑ دیا۔ کچھ عرصہ بعد ویل چیئر لے لی۔

ارم سکول جانے کی عمر کو پہنچیں تو والدین پریشانی میں مبتلا ہو گئے۔ سوچ بچار کے بعد پی۔ ایس۔ آر۔ ڈی کے خصوصی تعلیمی ادارے میں داخلہ کروا دیا گیا۔ ابتدائی ایام میں والد صاحب ڈیوٹی دیتے تھے۔ پھر وین لگوا دی گئی۔ ارم نے شاندار پرفارمنس کے ساتھ اسی سکول سے میٹرک پاس کیا۔

والد صاحب کی خواہش تھی کہ میٹرک کے بعد ارم کا داخلہ گھر کے نزدیک ترین کالج میں کروا دیا جائے۔ جہاں آنے جانے میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جبکہ ارم لاہور کے کسی اچھے کالج سے تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھانا چاہتی تھیں۔ ذہن میں کنیرڈ کالج اور لاہور کالج کے نام گردش کر رہے تھے۔ بڑی بہن نے بھر پور ساتھ دیا۔ صرف انہی دو کالجوں میں داخلے کے فارم لیے اور دونوں کی فرسٹ لسٹ میں نام بھی آ گیا۔ کنیرڈ کالج کو ارم کے لئے زیادہ موضوع قرار دیا گیا۔

کالج کی ڈیوٹی بھی والد صاحب ادا کیا کرتے۔ ارم کبھی جلدی فارغ ہو جاتیں تو دفتر سے چھٹی لے کر لینے آ جاتے۔ کالج کی پرنسپل نے ارم سے بھر پور تعاون کیا۔ دوسری منزل کی کلاسز کو نیچے مینیج کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ باتھ روم قابل رسائی نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا تھا اس لیے ارم کوشش کرتیں کہ گھر جا کر ہی باتھ روم استعمال کیا جائے۔ ارم نے بی۔ اے ہائی فرسٹ ڈیویژن میں پاس کیا۔

یونیورسٹی لانے لے جانے کی ذمہ داری بھی والد صاحب نے ادا کی۔ یونیورسٹی میں کالج والے مسائل کا سامنا تھا۔ کلاسز، باتھ روم اور لائبریری میں رسائی کا سامنا تھا۔ یونیورسٹی کی دوستوں نے ارم کا ہر موقع پر بھر پور ساتھ دیا۔ ارم دوستوں کے ساتھ خوب گھوما بھی کرتیں۔

ڈگری مکمل کرنے کے چند روز بعد اخبار میں پبلک سروس کمیشن کی طرف سے لیکچرار کی پوسٹس دیکھیں تو اپلائی کر دیا۔ ارم نے اوپن میرٹ اور خصوصی افراد کے کوٹے پر اپلائی کیا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ کوٹے پر نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ ارم اپنی زندگی کے خوشگوار ترین لمحات سے گزر رہی تھیں۔

نوکری حاصل کرنے کا خط ملا تو پتہ چلا کہ ارم کو نارووال کے لئے بھرتی کیا گیا ہے۔ ویل چیئر استعمال کرنے والی لڑکی کے لئے کسی دوسرے شہر میں رہنا ناممکن تھا۔ وزیراعلٰی، وزیرتعلیم وغیرہ کو خطوط لکھے گئے پر بات نہ بنی۔ ارم کو سب کچھ بکھرتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ مایوسی نے ارم کے گرد ڈیرے ڈال لیے ۔

خدا سے مدد کی درخواست کی اور زندگی کو آگے بڑھانا شروع کر دیا۔ اپنا دل بہلانے کے لئے ٹیوشن پڑھانا شروع کردی اور ساتھ ساتھ سرکاری نوکری کی تلاش شروع کر دی۔

پھر ارم نے والد صاحب کے ڈیپارٹمنٹ میں ڈیلی ویجر کے طور پر کام شروع کر دیا۔ دو سال ڈیلی ویجر کے طور پر کام کیا۔ 2012 ء میں ارم انڈسٹریل لائزن افسر کے طور پر گریڈ سترہ میں کنفرم ہو گئیں۔ ارم کو جیسے خوابوں کی تعبیر مل گئی۔

ہمارے ملک میں سکول، کالجز، سرکاری دفاتر سے لے کر ہسپتال تک قابل رسائی نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے خصوصی افراد کو تعلیم، روزگار، صحت اور سیر و تفریح کے معاملات میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ارم کو بھی انہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈائریکٹر جنرنل شہزاد عالم اور ڈائریکٹر پی۔ این۔ ٹی ڈاکٹر نصرت اعجاز نے ارم کے ساتھ بھر پور تعاون کیا۔ رسائی کے لئے لکڑی کی ریمپ بنوائی، باتھ روم کو قابل رسائی بنوایا گیا۔ اس طرح ارم کی زندگی میں مزید آسانیاں پیدا ہو گئیں۔

ارم کی عملی زندگی بڑی کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ لیکن صحت کے مسائل پیچھا نہیں چھوڑ رہے۔ ارم کو پولیو کے ساتھ سکولی اوسس بھی ہے۔ جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے۔ مسلسل ویل چیئر پر بیٹھنے سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔

طبعیت زیادہ خراب رہنے لگی تو ڈاکٹر حسن سندھو سے رائے لی۔ ڈاکٹر صاحب نے بوسٹن بریز کا مشورہ دیا۔ دو ، ڈھائی سال بوسٹن بریز استعمال کیے پھر انھیں ترک کرنا پڑا۔ بریز کو پہننا، اس کے ساتھ پورے دن بیٹھنا، گاڑی اور ویل چیئر پر شفٹ ہونا اور گرمی کے دنوں میں پسینہ، تکلیف کا باعث تھا۔

ڈاکٹر عامر عزیز اور ڈاکٹر عبداللہ نے آپریشن کا مشورہ دیا لیکن ارم کے پھیپھڑوں کو آپریشن کے لئے کمزور قرار دیا۔ آپریشن کی صورت میں رسک زیادہ تھا۔ ایک سال قبل ارم نے بہنوں کے ساتھ ٹرین پر کراچی کا سفر کیا۔ کراچی کی آب و ہوا سانس کے مسائل میں مزید اضافے کا سبب بنی۔ ڈاکٹر نے بائی پیپ کا مشورہ دیا۔ جس نے سانس کے مسائل کو کافی حد تک حل کر دیا۔

ارم کو دفتر لانے لے جانے کی ڈیوٹی والد صاحب ادا کرتے تھے۔ 2015 ء میں اپنی گاڑی لے لی اور ایک ڈرائیور رکھ لیا۔ اب ارم آفس آنے جانے سے لے کر گھومنے پھرنے اور شاپنگ وغیرہ خود ہی مینیج کرتی ہیں۔ ایک چیز کا افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی بلڈنگ، تفریحی مقام، تعلیمی ادارہ اور دفتر قابل رسائی نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے ویل چیئر استعمال کرنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ارم جہاں کہیں بھی رسائی کا مسئلہ دیکھتیں ہیں شکایت درج کرواتیں ہیں۔ تاکہ احتجاج کم از کم ریکارڈ کا حصہ تو بنے۔

ارم زندگی کو بھر پور انداز میں انجوائے کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ جب بوریت محسوس کرتی ہیں گھومنے نکل جاتی ہیں۔ 2008 ء میں ارم کی بڑی بہن نے انہیں سیر کے لئے ملائیشیا بلایا جو اس وقت ملائیشیا میں پی۔ ایچ۔ ڈی کر رہی تھیں۔ ایک ماہ کے اس ٹرپ میں ملائیشیا کے اہم مقامات کی سیر کا موقع ملا۔ تین سال قبل ارم عمرے کی سعادت بھی حاصل کر چکی ہیں۔ ارم کو رسائی کے حوالے سے ملائیشیا اور سعودیہ وطن عزیز سے بہت بہتر لگے۔

ارم فراغت کے لمحات میں پینٹنگ، لکھنا، کوکنگ، شاپنگ اور کتابیں پڑھنا پسند کرتی ہیں۔ نئی کتابوں کی تلاش میں دکانوں، لائبریریوں اور اتوار بازاروں کے چکر لگاتی رہتی ہیں۔

ارم رسائی کو خصوصی افراد کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ رسائی فراہم کرنے سے خصوصی افراد کے بیشتر مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments