میں بے ہنگم، لاوارث، منافق شہر کا باسی


کہاں سے شروع کروں، کہاں پہ ختم کروں، عجب ہی ماجرا ہے اس عجیب بستی کا۔ مجھے کوئی پوچھے کہ تمہاری زندگی کا سب سے بدترین اور غلط فیصلہ کون سا تھا۔ میرا جواب ہو گا کہ میری جائے پیدائش (جتوئی، ضلع مظفرگڑھ) چھوڑ کر جام پور منتقل ہونا۔ حالانکہ جب یہ فیصلہ ہوا تب میں چند ہی سالوں کا تھا۔

بڑے کہتے ہیں کہ بچے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے چند ہی ماہ بعد نئی جگہ میں گھل مل جاتے ہیں۔ مگر میرے ساتھ ایسا نہ ہوسکا۔ میں خوش قسمت ہوں کہ تعلیم کے سلسلہ میں اس شہر سے دوری برقرار رہی۔ مگر جب جب چھٹی پر آیا تو پرانے زخم پھر ادھڑ جاتے ہیں۔ مایوسی، نفرت، دکھ، بے بسی کے بھالے روح کے اندر تک گھس کر ایسے گہرے گھاؤ لگاتے ہیں۔ کہ ان زخموں کو مندمل ہونے میں عشرے لگ جاتے ہیں۔

یہ شہر (نہ چاہتے ہوئے ) میرا شہر دراصل ایک بے حس، منافق لوگوں کی وہ بستی ہے کہ جو جتنی امیر ہے اتنی ہی غربت کی ماری ہے۔ پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ 80 فیصد آبادی کو دو وقت کی روٹی کے لالے ہیں۔ امارت ان بلندیوں پر ہے کہ زمین 8، 8 لاکھ روپے فی مرلہ پربھی ایڈوانس بکنگ میں بک جاتی ہے۔ امارت کے حرص میں ہاؤسنگ سوسائٹیز اژدھے کی مانند زرعی زمینیں نگلی جا رہی ہیں۔

وہ کھیت، کھلیان، وہ میدان جن کو دیکھتے، جن میں کھیلتے بچپن گزرا۔ اب وہاں مہنگی مہنگی ہاؤسنگ سوسائٹیز بن چکی ہیں۔ 10 لاکھ آبادی کے اس شہر میں صبح 8 سے رات 8 تک ٹریفک کا وہ اژدھام ہوتا ہے کہ اللہ توبہ، اللہ معافی۔ ٹریفک پولیس کا محکمہ بھی اس شہر میں ہے تو سہی، مگر اللہ جھوٹ نہ بلوائے پچھلے 8 دنوں میں مجھے ڈھونڈنے سے بھی کوئی اہلکار نظر نہ آیا۔

امن و عامہ کی یہ حالت ہے کہ لوگ نئے موٹرسائیکل لے کر پرانا سامان لگوا دیتے ہیں۔ اس ڈر کے مارے کہ نئی موٹرسائیکل لے کر نکلے تو ہاتھ سے جائے گی۔ اب آپ سوچیں گے کہ پولیس کہاں ہے؟ جی اس سوال کا جواب میں بھی 8 دن سے کھوج رہا ہوں۔ پولیس آپ کو چٹی دلالوں، وڈیروں، سرداروں کے گھر کی باندی ملے گی۔

یہاں تو یہ حال ہے کہ 11 دفعہ نوکری سے نکالے جانے کے بعد بحال ہونے والا ایک ہیڈ کانسٹیبل اتنا طاقتور ہے کہ نوکری سے برخاست ہونے کے باوجود شہر میں دندناتا پھرتا ہے۔ پورے پاکستان میں اسلحہ کی نمائش پر پابندی ہے مگر یہ شخص ڈی ایس پی آفس کے بالمقابل سرکاری دفتر پر اسلحہ لئے قبضہ جمائے ہے۔ کسی ڈی پی او، کسی آر پی او کسی آئی جی کی مجال نہیں کہ اس سے پوچھ گچھ کرسکے۔

آپ کو یقین نہیں آئے گا مگر 2021 میں بھی یہاں 7 دن سے یو فون کا نیٹ ورک غائب ہے۔ اور لاکھوں کسٹمرز ذلیل ہو رہے ہیں۔ کیا کسی اور شہر میں ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا یو فون یا زونگ یا کوئی نیٹورک ایسا سلوک کسی اور شہر ساتھ کر سکتا ہے؟ جواب ہے نہیں، پی ٹی اے کو شکایت کریں تو ٹکا سا جواب ملتا ہے کہ شکایت درج کروائیں، شکایت درج کروائیں تو کمپنی کی جانب سے مبہم سے جواب پر اس شکایت کو رجسٹر کی نظر کر دیا جاتا ہے۔

حماد اظہر صاحب کہتے ہیں کہ ملک بھر میں کہیں لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی اور بجلی وافر مقدار میں ہے۔ اس بے حال شہر میں بجلی چند ہی گھنٹوں کے لیے آتی ہے۔ گزشتہ 8 دنوں میں مر کر 24 گھنٹے بھی بجلی نہیں رہی ہوگی۔ یہاں کے باسی اتنا بے حس ہوچکے ہیں کہ پینے کو پانی بھی نایاب ہوجاتا ہے۔ مگر کسی کو اس ظلم اس جبر کے خلاف آواز اٹھانے کی توفیق نہیں ہوتی ہے۔

اس شہر کا 90 فیصد حصہ سیوریج سسٹم نہ ہونے کہ وجہ سے جوہڑ کا منظر پیش کرتا ہے۔ ہر گھر کے باہر، ہر گلی کچرا کنڈی کا منظر پیش کرتی ہے۔ یہاں محکمہ سینٹری تو ہے مگر یہ نہیں پتہ کہ وہ کس بدیسی ملک میں خدمات سرانجام دیتا ہے۔ یہاں کی انتظامیہ کو یہاں کے استحصالیوں کے ہاں چائے پینے، دعوتیں کھانے سے فرصت نہیں ملتی ہے، کہ وہ اس مظلوم شہر کی داد رسی کے لئے اقدامات کرسکیں۔ یہاں کے ہر سرکاری محکمہ کے باہر رشوت مافیا ببانگ دہل رشوت مانگتا ہے۔ بغیر رشوت کے میرا وزیراعظم صاحب تک کو چیلنج ہے کہ وہ کوئی جائز کام کروا کر دکھا دیں۔

یہاں ایکٹوسٹ تو ہیں مگر وہ سوشل میڈیا اور وڈیرے سرداروں کے ہاں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ میں نے یہاں کے صحافیوں کو لغاری، مزاری دریشکوں کی ترجمانی نما خوش آمدیں کرتے ہوئے پایا۔ مگر صحافت مجھے یہاں نہ دکھی یا ملی۔ افسوس یہ ہے کہ صحافت، ایکٹو ازم کیمرے اور سوشل میڈیا کی چکا چوند میں اپنی قدر کھو بیٹھے ہیں۔

یہاں کے لوگ منافقت سے لبریز اور احساس سے عاری ہیں۔ میں اتنا تلخ نوائی پر معذرت خواہ ہوں مگر اس مٹی پر میرا سانس گھٹتا ہے۔ میرے سے رہا نہیں جاتا کہ میں اس ظلم پر خاموش رہوں۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اس بے ہنگم بے حس شہر کا باسی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments