گمشدہ لاہور میں فوٹوگرافی پر پابندی


کچھ دن سے لاہور میں ہوں سموگ اور فاصلوں میں لاہور گم ہو گیا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی یہ کون سا شہر ہے۔ نہر کنارے جا رہا تھا تو دیکھا مینار پاکستان نظر آیا۔ لوہے کا مینار پاکستان بہت عجیب لگا کہ یار ایفل ٹاور تو سمجھ آتی ہے۔ فرانس میں اس کی فوٹوکاپی کر کے لاہور میں لگائی جائے اور لاہور کو فرانس بنایا جائے۔ پر مینار پاکستان تو لاہور میں ہی ہوتا تھا پھر اس اصل کے باوجود فوٹو کاپی کی کیا ضرورت پیش آئی۔ عجیب صورتحال تھی نہر پر کئی چیزیں بن چکی تھیں اور کئی انڈر پاسز کی نظر ہو چکی تھیں شام کو ڈی ایچ اے سے گزر رہا تھا تو دیکھ کر حیران ہوا کہ ڈی ایچ اے بھی راوی روڈ پر منتقل ہو چکا ہے اور وہاں بھی ایک چوک کے ساتھ مینار پاکستان تعمیر ہو چکا ہے۔ مجھے لگتا ہے یہ ماڈل بنانے والے بھی آہستہ آہستہ لاہور کا محل وقوع تبدیل کرتے جا رہے ہیں۔ بازار حسن اب فوڈ سٹریٹ بن چکا ہے اور اس کے بھی کئی ماڈل جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ میں نے خود کئی جگہ ٹکسالی گیٹ دیکھے۔ فضل دین عرف پھجہ بھی اب جگہ جگہ اپنی فوٹو کاپی لگا چکا ہے۔

پہلے لاہور میں دو راوی دریا بہتے تھے بڈھا راوی اور راوی دریا۔ اب بڈھا راوی فوت ہو چکا ہے اور ہم بہت محنت سے دریائے راوی کو بڈھا راوی بنا رہے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ راوی کی ابھی تک فوٹو کاپی کسی نے ابھی تک ایجاد کیوں نہیں کی۔ پہلے کینٹ کے علاقوں میں فائبر گلاس کے گھوڑے نظر آتے تھے اب ہر طرف ان گھوڑوں نے بچے دے دیے ہیں۔ ہر علاقہ کینٹ ہی نظر آتا ہے کیونکہ ہر ہاؤسنگ سوسائٹی ان دو یا تین گھوڑوں کے مجسموں سے اپنی ہاؤسنگ کا سنگ بنیاد رکھتی ہے۔ جیسے گھوڑا ہمارا قومی نشان ہو۔

ساری پاکستان میں وہی، قلم، گلوب، کتابیں، شاہین کے چوک بن رہے ہیں۔ اب یہ ساری چیزیں چوک میں ہی نظر آتی ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے سے ان کا تعلق ختم ہوتا جا رہا ہے۔ مجھے نہیں سمجھ آ رہی کہ میرا لاہور سموگ کی وجہ سے نظر نہیں آ رہا ہے یا پھر اصل لاہور ہم نے بیچ کر اس کی جگہ اس کی اصل سے بہتر کاپی رکھ دی ہے۔ پہلے لاہور میں شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد، مسجد وزیر خان، سنہری مسجد، داتا دربار، کامران کی بارہ دری، شیش محل، دریائے راوی، رنگ محل، نیلا گنبد، پرانی انارکلی، نئی انارکلی، پنجاب یونیورسٹی ورسٹی، گورنمنٹ کالج، نیشنل کالج آف آرٹس، لاہور کالج فار ویمن، کنیرڈ کالج، ہوم اکنامکس کالج، لبرٹی مارکیٹ، منی مارکیٹ، میں مارکیٹ، غالب مارکیٹ، فردوس مارکیٹ، اچھا مارکیٹ، مون مارکیٹ، الحمرا آرٹ کونسل، مال روڈ، آواری ہوٹل سب کچھ ہوتا تھا۔

پر اب سب کچھ کھو گیا ہے اب مسجد کا نام لو تو بچے بحریہ ٹاؤن لے جاتے ہیں، مارکیٹ کا نام لو تو ڈی ایچ اے، بحریہ ٹاؤن لے جاتے ہیں۔ یار بڑے دن ہو گئے انارکلی دیکھے ہوئے اور وہ سمجھتے ہیں کھانا کھانا ہے تو کسی بڑے مال میں لے جاتے ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ شاید لاہور اور لاہوریے امیر ہو رہے ہیں مجھے لگ رہا ہے پیسے کی دوڑ میں لاہوریے اپنی اقدار کھو رہے ہیں۔ اچھا ہے والڈ سٹی اتھارٹی نے سارے پرانے لاہور کو رنگ کر دیا ہے اور وہ بھی اب نوا لاہور بن گیا ہے۔

یہ عذاب شاید کامران کی بارہ دری جو دریائے راوی کے درمیان شاہدرہ سے پہلے موجود ہے سے شروع ہوا۔ جس کو رنگ و روغن کر کے نوے کی دہائی میں نیا بنایا گیا، جیسے کہ بہت پرانی دلہن کو نیا میک اپ کیا گیا اور پھر یہ وائرس پھیلتا چلا گیا۔ اور اصل لاہور گم ہو گیا اور نوا لاہور بنتا چلا گیا۔ میری لارنس گارڈن یا جناح باغ سے بتیس سال پرانی دوستی ہے کل اس کے گیٹ پر گارڈ کھڑا دیکھ کر گزر ہی گیا کہ شاید باغ یہاں سے چوری ہو گیا ہے۔ کیونکہ ہر چوری اور ڈکیتی کے بعد اس گھر کے مالک گارڈ رکھ لیتے ہیں۔

لاہور میں ہر جگہ فوٹوگرافی پر پابندی لگ چکی ہے آپ لاہور کو ڈاکومنٹ نہیں کر سکتے، اگر آپ کو اصل لاہور دیکھنا ہے تو یقیناً آپ کو فقیر اعجاز صاحب سے رابطہ کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اب لاہور کی تصویر بنانے کی اجازت نہیں ہے سارا لاہور بدل رہا ہے یا بدل گیا ہے اور انتظامیہ اس کے ثبوت نہیں چھوڑنا چاہتی۔ میرا دوست محمد افضل لاہور کا فوٹوگرافر جس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ بادشاہی مسجد اور مینار پاکستان کو ڈاکومنٹ کرنے پر لگا دیا اب وہ بھی میانوالی، ہنزہ اور دیگر علاقوں میں فوٹوگرافی کا شوق پورا کرنے کے لئے جاتا ہے۔

کل بہت عزیز دوستوں کی فوٹوگرافی کی نمائش دیکھنے الحمرا آرٹ گیلری لاہور گیا۔ چار فوٹوگرافر چاروں ہی اپنے فن میں کسب کمال۔ مختلف موضوعات پر بیس تصاویر تھیں بہت کمال تھیں۔ پر ان میں لاہور کے علاوہ سب تھا۔ کیونکہ کہ فوٹوگرافی پر پابندیاں ہمارے بہترین فوٹوگرافرز کو دوسرے شہروں اور موضوعات کا رخ کرنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹیوٹ ڈی ایچ اے لاہور میں وقت مقررہ پر اسلام آباد سے چیک اپ کے لئے پہنچا تو ایک مریض دیر سے آنے پر ڈاکٹر صاحب کے کوارڈینیٹر کو بتا رہا تھا کہ میں اصل میں لاہور سے آیا ہوں اس لئے دیر لگ گئی۔ وہ کہنے لگے یہ مریض اسلام آباد سے آیا ہے تو جواب اچھا تھا لاہور بہت دور اے دیر ہو ہی جاندی اے۔

سمجھ نہیں آ رہی سموگ فضا میں ہے یا ہمارے دماغ میں۔ پر اس کا نقصان میرے لاہور کو پہنچ رہا ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ کل کے اخبارات میں تلاش گمشدہ کا اشتہار دوں اور مساجد میں اعلان بھی کرواؤں۔ کہ میرا لاہور گم ہو گیا ہے۔

محمد اظہر حفیظ
Latest posts by محمد اظہر حفیظ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments