سیاسی منظر نامہ اور حکومتی مشکلات


اس وقت انتخابی اصلاحات کے حوالے سے اپوزیشن اور حکومت میں ٹھنی ہوئی ہے اپوزیشن کی بھرپور مخالفت کے باوجود حکومت انتخابی اصلاحات کا قانون پاس کروانے میں کامیاب رہی ہے اس میں ایک تو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا انتخابات میں استعمال ہے۔ اپوزیشن چاہتی تھی کہ انتخابات روایتی طریقہ کار کے مطابق ہوں ان کو ڈر ہے کہ الیکٹرانک مشینوں میں گڑ بڑ آسانی سے کی جا سکتی ہے۔ دوسری طرف حکومت کا موقف ہے کہ اپوزیشن روایتی طریقہ کار میں خرابیوں کی نشاندہی کرتی آئی ہے اور تقریباً پچھلے تمام انتخابات میں دھاندلی اور بے قاعدگیوں کے الزامات لگتے رہتے ہیں اب اس طریقہ کار سے ان بے قاعدگیوں کا سد باب ہو سکے گا۔

انتخابی عملہ جو سرکاری ملازمین پر مشتمل ہوتا ہے وہ ناخواندہ ووٹروں کی ووٹنگ پر اثر انداز ہوتا ہے اب ان الیکٹرانک مشینوں سے اس عملہ کی مداخلت ختم ہو جائے گی اس دلیل میں کافی وزن بھی ہے۔ مگر اپوزیشن اور حکومت میں اعتماد کی کمی ہے اور وہ اس نئے عمل کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ جلد یا بدیر ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے اس لئے اپوزیشن کو اس کی مخالفت کی بجائے اس پراسس کو فول پروف بنانے پر زور دینا چاہیے اپوزیشن آئی ٹی کے ماہر پولنگ ایجنٹس بٹھا کر اس عمل کو شفاف رکھنے کی کوشش کر سکتی ہے اس کے علاوہ عالمی مبصرین بھی اس عمل پر کڑی نظر رکھنے کے لئے موجود ہوں گے۔

انتخابی نتائج کی ترسیل کے دوران ہونے والی گڑبڑ کا اس سے سد باب بہت حد تک ممکن ہو جائے گا۔ اس طرح دیہاتی اور ان پڑھ خواتین کی پرچیوں پر انتخابی عملے کی جانب سے من پسند امیدواروں کے حق میں اب ٹھپے بھی نہیں لگ سکیں گے۔ ان انتخابی اصلاحات میں دوسرا اہم ترین عنصر بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا ہے حکومت کو امید ہے کہ بہت سارے حلقوں میں ان پاکستانیوں کے ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوں گے اور وہ سمجھتے ہیں کہ حکومتی پارٹی کی حمایت ان بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں بہت زیادہ ہے اور وہ ان کو کئی حلقوں میں جتوا سکتے ہیں۔

اس سے ملک کے اندر مہنگائی اور دوسرے کئی عوامل کی وجہ سے حکومتی پارٹی کو پہنچنے والے سیاسی نقصان کا ازالہ ہو جائے گا۔ اپوزیشن کھل کر تو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو دیے جانے والے اس حق کی مخالفت نہیں کر پا رہی مگر وہ یقیناً اس اقدام سے خوش نہیں ہے۔ اپوزیشن لیڈر کی طرف سے ایک تجویز یہ بھی تھی کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لئے کچھ سیٹیں علیحدہ سے مختص کر دی جائیں اس طرح وہ تمام مقامی حلقوں پر اثر انداز نہیں ہو پائیں گے اس بات میں بھی وزن ہے کہ مقامی حلقہ کی سیاست میں ان کے کردار ادا کرنے کا حق اس لئے نہیں بنتا کہ وہ کبھی حلقے میں قیام پذیر نہیں رہتے اور مقامی ضروریات سے نابلد ہوتے ہیں۔

امیدواروں سے بھی ان کا رابطہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے مگر حکومت کے اپنے عزائم ہیں اور وہ اب تک اس میں کامیاب نظر آتی ہے۔ اپوزیشن بے بس نظر آتی ہے کچھ عرصے پہلے ان کو امید کی کرن نظر آئی تھی جب لگتا تھا کہ شاید حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اب ایک صفحہ پر نہیں ہیں مگر ان کی یہ خوشی دیرپا ثابت نہیں ہوئی اسٹیبلشمنٹ نواز جماعتوں نے کچھ ہچکچاہٹ کے بعد بدستور اپنا وزن حکومتی پلڑے میں ڈالا ہوا ہے۔

ادھر سپریم کورٹ کے سخت ریمارکس کے بعد حکومت کو بلدیاتی ادارے بحال کرنا پڑے ہیں پنجاب میں ان اداروں پر اپوزیشن جماعت مسلم لیگ نون چھائی ہوئی ہے۔ حکومت نیا بلدیاتی نظام لا رہی ہے اور اب بلدیاتی الیکشن کا دنگل لگنے والا ہے اس میں پنجاب میں سخت مقابلہ متوقع ہے اگر حکومتی پارٹی پنجاب میں شکست کھاتی ہے تو اگلے جنرل الیکشن میں کامیابی بھی غیر یقینی ہوگی۔ ادھر حکومت سے مہنگائی قابو میں نہیں آ رہی۔ ڈالر کی بلند اڑان جاری ہے۔

آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر قرضہ لیا گیا ہے، پیٹرول اور بجلی کی قیمتیں مزید بڑھنے جا رہی ہیں ان حالات میں ووٹرز کو اپنی جانب مائل کرنا حکومتی امیدواروں کے لئے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ زرعی اجناس کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی کا ایک اور طوفان آنے والا ہے۔ روئی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں جس سے روٹی کے بعد کپڑا بھی مہنگا ہونے جا رہا ہے۔ ان معاشی مشکلات اور آئی ایم ایف کے دباؤ کے باعث ترقیاتی بجٹ میں بھی کمی آئی ہے اگر آخری دو سال میں بھی بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام ہوتے نظر نہ آئے تو حکومتی امیدواروں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس وقت اسٹیبلشمنٹ نواز جماعتوں ایم کیو ایم ق لیگ بلوچستان عوامی پارٹی اور جی ڈی اے وغیرہ کے ساتھ حکومت کے تعلقات پرجوش نظر نہیں آتے۔ پرویز الہی صاحب نے انتخابی اصلاحات کے قانون پر ان سے مشاورت نہ کرنے کا شکوہ کرتے ہوئے تحریک انصاف سے اپنی راہیں جدا کرنے کا اعلان کیا مگر پھر کچھ غیبی اشارہ ملتے ہی اس کے حق میں ووٹ بھی ڈال دیے۔ پنجاب گورنمنٹ اور وفاقی حکومت اپنے ان اتحادیوں کے سہارے کھڑی ہیں اس لئے وہ آزادانہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی ابھی لوکل گورنمنٹ کے آرڈیننس پر چوہدری پرویز الہی نے اعتراض لگا دیا اور بطور گورنر اس پر دستخط ثبت نہیں کیے اسی دوران موجودہ گورنر پنجاب چوہدری سرور نے برطانیہ میں ایک بیان میں آئی ایم ایف سے قرض لینے کے بدلے اپنا سب کچھ لکھ کر دینے پر کڑی تنقید کی ہے۔

اس معاہدے کے بعد سٹیٹ بنک کو بے انتہا پاورز دی گئی ہیں اور عوامی نمائندوں پر مشتمل پارلیمنٹ اس کے آگے محض ربر سٹمپ بن جائے گی۔ سٹیٹ بنک آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں پر عملدرآمد کے لئے عوام پر ٹیکسز لگانے اور سبسڈیز ختم کرنے کا مجاز ہو گا۔ مستقبل کی حکومت کے کیے بھی صف بندیاں شروع ہو چکی ہیں جہاں مسلم لیگ نون کے شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کو اپنی بے انتہا تابع داری دکھا کر ایک اچھا اور قابل قبول ممکنہ وزیراعظم کے طور پر موجود ہیں وہیں نون لیگ کے اندر سے نواز شریف کو چوتھی دفعہ وزیراعظم بنانے کے لئے بھی ان کے وفادار سرگرم ہو چکے ہیں۔

رانا شمیم سابق چیف جج کا حلف نامہ اسی سلسلہ کی کڑی گردانا جا رہا ہے جس کا مقصد ان کی سزا ختم کروا کر ان کو اہل بنوانا ہے۔ خواجہ آصف نے چکوال میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے پر کفارہ ادا کرنا ہو گا اور یہ کفارہ نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم بنا کر ادا ہو سکتا ہے اب یہ وہ عوام کو مخاطب تھے یا ان طاقتوں کو جن کی آشیرباد اب وہ چاہ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments