تحریک انصاف حکومت دعوے اور کارکردگی۔ ( 4 )


عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی تفصیلات اب آہستہ آہستہ طشت از بام ہو رہی ہیں۔ یہ تفصیلات حیران کن ہیں۔ ان تفصیلات کے مطابق پاکستان میں آنے والے دن کسی بھی لحاظ سے تسلی بخش یا حوصلہ افزا نہیں ہوں گے بلکہ پریشان کن ہوں گے۔

وزیراعظم جب اپوزیشن میں تھے تو فرمایا کرتے تھے کہ ”قرض لینے والی قوم کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتی اس کی دنیا میں کوئی عزت نہیں ہوتی۔ میں اگر وزیر اعظم پاکستان ہوتا تو خود کشی کر لیتا لیکن عالمی مالیاتی اداروں کے پاس کبھی نہ جاتا۔ آپ سوچیں کہ جب کسی ملک کا وزیراعظم جگہ جگہ ملکوں کے سا منے ہاتھ پھیلائے اور بھیک مانگتا پھرے کہ مجھے قرض دے دیں تو کیا اس سے قوم اور ملک کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ“ یہ اور ایسی بے شمار باتیں بہت سارے پاکستا نیوں کو بہت پسند آئیں کیونکہ یہ ان کے دل کی آواز تھی اور الفاظ کی شدت ہی احساس کی ترجمانی کرتی ہے۔ لیکن پھر چشم فلک نے وہ دن بھی دیکھا جب ایک بقراط العصر نے یہ گوہر نایاب ارشاد فرمایا کہ اپنے بیان سے پھرنا ہی عظیم لیڈر کی نشانی ہے اور اپنی بات سے مکر جانے والا ہی عزیمت کی منزل کو پہنچ سکتا ہے۔

آج اسی نابغہ روزگار کی پاکستان میں حکومت ہے اور عالمی مالیاتی ادارے کا ملازم، مملکت خداداد کے مرکزی بینک کا گورنر ہے جس کے لیے پاکستان کے پارلیمان نے قانون تحفظ پاس کیا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کا آج کی دنیا میں بالکل وہی کردار ہے جو کسی وقت میں بر صغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا تھا۔

بہرحال جو تفصیلات ابھی سامنے آئی ہیں ان کے مطابق پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ جب کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں لگ بھگ دس ڈالر فی بیرل کی کمی واقع ہوئی ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ پاکستان کا رواں سال کا ترقیاتی بجٹ نو سو ارب روپے تھا اور اب عالمی مالیاتی ادارے کے اصرار پر اس بجٹ میں تین سو ارب کی کٹوتی کر دی گئی ہے۔ محصولات کو بڑھانے کے لیے مزید ٹیکس لگائے جائیں گے۔

تمام طرح کی سبسڈی جو عوام کو میسر ہیں ان کو ختم کر دیا جائے گا۔ منی بجٹ جو کہ دو تین روز میں متوقع ہے کے ساتھ ہی مہنگائی کا ایک نہ رکنے والا طوفان شروع ہو جائے گا۔ پاکستان میں مرکزی بینک اور اس کا گورنر احتساب سے بالاتر ہوں گے کیوں کہ وہ عالمی مالیاتی ادارے کے تحت کام کر رہے ہیں اور اس کے مفادات کی حفاظت کے لئے کام کر رہے ہیں۔

موجودہ گورنر مرکزی بینک جو کہ ملازم تو عالمی مالیاتی ادارے کے ہیں لیکن تنخواہ ریاست پاکستان سے وصول کر رہے ہیں اور ان کو مرکزی بینک کے گورنر کا عہدہ بھی حاصل ہے۔ یہ اس سے پہلے عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے مصر میں موجود تھے۔ کیوں کہ مصر نے بھی عالمی مالیاتی ادارے سے قرض حاصل کیا ہوا ہے اور اور موصوف وہاں اس کے نگران تھے۔ انہوں نے عالمی مالیاتی ادارے کے مفادات کا تحفظ بھرپور انداز سے کیا اور مصر کی معیشت کو درست کر سیدھا پاکستان آئے ہیں۔

مصر کی معیشت کی اس وقت کیا صورت ہے، آ ئیے مستقبل کے آئینے میں اپنی صورت دیکھتے ہیں۔ مصر کی آمدن اٹھاون ارب ڈالر ہے جب کہ اخراجات چھیانوے ارب ڈالر ہیں۔ مصر کا کل قرض اس وقت ایک سو اڑتیس ارب ڈالر ہے اور قرض کا سالانہ خرچہ پینتیس ارب ڈالر ہے۔ مصر میں بھی اس وقت آمریت قائم ہے اور مصر کے عبد الفتاح السیسی ایک مطلق العنان آمر ہیں اور مصر کے مفادات اور مصری قوم کی خدمت کے اسی جذبے سے سرشار ہیں جس جذ بے سے پاکستان کے خان صا حب۔

کرونا امداد کی مد میں ملنے والے فنڈ کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق امدادی فنڈ کی رقوم میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں ہیں، اس کے مطابق تین سو پچاس ارب روپے کا سرے سے کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے اور دو سو ارب کا ریکارڈ ہے جس میں چالیس ارب کی خرد برد ہے۔ پشاور ریپڈ بس منصوبہ جو کہ ابتدا میں چالیس ارب کا تھا لیکن ایک سو بیس ارب سے بھی زیادہ میں مکمل ہوا اس پر حکومت وقت نے عدالت سے حکم امتناع لے رکھا ہے۔ راولپنڈی رنگ روڈ کے منصوبے کے بارے میں بھی اربوں کی داستانیں زبان زد عام ہیں۔

چینی، گندم، آٹا اور پیٹرولیم بحرانوں کی بازگشت ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ گیس کے پے در پے بحران شفافیت کی کوئی اور ہی داستان سنا رہے ہیں۔ بلین ٹری سونامی، اربوں درخت تو اس ملک کو نہ دے سکا، اربوں کی کرپشن کی بازگشت ہے البتہ۔ ڈالر کی اونچی اڑان اور اسٹاک مارکیٹ کی مندی کے پیچھے کارفرما عوامل ابھی سامنے آنا باقی ہیں اس تمام کے ہنگام، پنڈورا پیپرز کے انکشافات بھی مالی بدعنوانیوں کی الگ داستان ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ حکومت وقت نے لگ بھگ اکیس ہزار ارب کا قرض لیا ہے جو کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے لیکن اتنے قرض کے باوجود عوامی فلاح کا کوئی قا بل ذکر منصوبہ مکمل تو درکنار شروع بھی نہیں ہو سکا۔

اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ :

” میں لوگوں کے درمیان دنوں کو پھیرتا ہوں“ اس لیے یہ اقتدار عارضی اور مشروط ہے احتساب سے۔ اس ذمہ داری کو امانت، قا بل احتساب اور قا بل گرفت سمجھ کر خوف خدا کے سائے میں اپنے فرائض منصبی ادا کرنے والے ہی تاریخ میں سرفراز و کامران ٹھہرتے ہیں۔ ریاست اور عوام کی خدمت اور خیر کے فیصلے کرنے والے درد مند ہی تاریخ میں اپنی جگہ بنا پاتے ہیں باقی سب تاریخ کے کوڑے دان میں۔ اندور کے قادر الکلام شا عر نے کہا تھا :

” جو آج صاحب مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
”کرایہ دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے“

محمد سجاد آہیر xxx

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد سجاد آہیر xxx

محمد سجاد آ ہیر تعلیم، تدریس اور تحقیق کے شعبے سے ہیں۔ سوچنے، اور سوال کرنے کا عارضہ لاحق ہے۔ بیماری پرانی مرض لاعلاج اور پرہیز سے بیزاری ہے۔ غلام قوموں کی آزادیوں کے خواب دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔

muhammad-sajjad-aheer has 38 posts and counting.See all posts by muhammad-sajjad-aheer

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments