سانحہ سیالکوٹ ذمہ دار کون؟



مارو مارو مارو۔ اس کی ایسی کی تیسی۔

مارو۔ یہ آوازیں سیالکوٹ کی ایک فیکٹری کے باہر روڈ پر سے آ رہی تھی جہاں کا منظر عجیب منظر تھا۔ ایسا منظر کہ جس کو دیکھ کر انسانیت شرما جائے۔ چند وحشی حیوان ایک خون سے لت پت لاش پر تشدد کر رہے ہیں وہ لاش سری لنکا کے شہری کی ہے جو فیکٹری میں ملازمت کرتا تھا۔ اس کو توہین رسالت کے الزام میں بے دردی سے قتل کر کے اب سڑک پر گھسیٹا جا رہا ہے۔ کوئی ڈنڈے کوئی پتھر تو کوئی لاتیں مار رہا ہے۔ آواز آتی ہے اس کو جلا ڈالو۔

مسخ شدہ لاش کو بیچ سڑک پر جلایا جا رہا ہے اور سینکڑوں بے انسان نما حیوان کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ درندگی وحشت اور بے حسی ان کے چہروں سے جھلک رہی ہے۔ اور ہر طرف سے نعروں کی آوازیں آ رہی ہیں گستاخ رسول کی سزا، سر تن سے جدا۔ افسوس کے وہاں کھڑے دو تین سو پتلوں میں کسی کی صدا نا آئی کہ لاش کی بے حرمتی نا کرو۔ جس نبی کے عاشق ہونے کے نعرے لگا رہے اس نبی کا تو فرمان ہے جس نے ایک انسان کا قتل کیا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا۔

انسان تو انسان آپ نے جانوروں پر ظلم کرنے سے منع کیا۔ ستم ظریفی یہ کہ سیلفیاں بنائی جا رہی ہیں۔ انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے۔ ان تماشائیوں میں کوئی زندہ ضمیر نا تھا۔ کوئی ایک بھی انسان کہلانے کا حقدار نا تھا۔ وہ سب خود کو مسلمان کہلانے والے ہیں مگر افسوس کہ اسلام سے دور ہیں۔ یہ احوال ہے ہماری پستی کا۔

آج سوچیں کہ دنیا پھر میں مسلمان، اسلام اور پاکستان کا یہ چہرہ گیا ہو گا۔ یہ آگ اس لاش کو نہیں اسلام کے تشخص کو لگی ہے۔ ہمارا مذہب، تہذیب اور قانون ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ ہم اس طرح کسی کو توہین مذہب کے الزام میں ظلم و بربریت کے ساتھ قتل کر دیں اور لاش کو مسخ کر کے جلا دیں پھر عاشق رسول ہونے کے نعرے لگائیں۔ اگر اس نے توہین کی بھی تو قانونی راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ وہ شیطان جس نے خدا کے سامنے انکار کیا لیکن خدا نے اسے اختلاف رائے پر مارا نہیں بلکہ مہلت دی۔ لیکن خدا کے ماننے والے پتا نہیں کس مٹی سے بنے ہیں۔

جب ملک کے منبروں سے گستاخ رسول کی سزا سر تن سے جدا کی آوازیں آئیں اور چند کالعدم اشتعال پسند گروہ جو اسلام اور عاشق رسول ہونے کا پرچار کرتا ہے لوگوں کو ایسے نعرے اور حدیثیں سنا کر مشتعل کرے جب عشق رسول کا پرچار کرنے والے اپنے ذاتی مقصد کے لئے ملک کی سڑکیں بند کر دیں اور اشتعال پھیلائیں اور توہین رسول کے نام پر اپنی مسلمان بھائیوں اور پولیس والوں کو قتل کر دیں اور حکومت ان کے ساتھ مذاکرات کر کے چھوڑ دے۔

جب کسی ریاست کی عدالتوں میں انصاف پیسوں اور طاقت سے بکتا ہو۔ جب کسی غریب کو عدلیہ سے بروقت انصاف نا ملتا ہو۔ جب قاتل پیسے دے کر باعزت بری ہونے لگیں۔ جب پولیس کبھی موقع پر نا پہنچی ہو۔ جب قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے کام میں کوتاہی برتیں۔ جب کیس تھانے کی فائلوں میں پڑے ختم ہو جائیں اور مظلوم انصاف کے لئے مارا مارا پھرتا رہے تو پھر اس ریاست میں ہر کوئی قانون کی دھجیاں اڑانا شروع کردے گا۔ جس کا دل کرے گا طاقت کے زور میں قتل کر ڈالے گا۔

تو پھر ملک کی گلی گلی میں ایسے حالات ہوں گے ۔ روز کوئی نا کوئی کسی کو توہین رسول کا الزام لگا کر موت کے گھاٹ اتار دے گا۔ جس طرح چند دہائیاں پہلے جہاد کے نام پر دہشت گردی پھیلائی گئی۔ کبھی فرقہ واریت تو کبھی جہاد کے نام پر اور کبھی غیرت تو کبھی توہین رسالت کے نام پر قتل و غارت جاری ہے۔ ہم اس ملک میں رہتے ہیں جہاں کوئی چور عوام کے ہتھے چڑھ جائے تو موقع پر ہی عوام اس کو تشدد کا شکار بنا دیتی ہے۔ جھوٹی جھوٹی باتوں پر قتل عام ہوجاتا۔

ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات بڑے واقعات کو جنم دیتے ہیں۔ ہم بحیثیت ایک قوم عمل سے خالی ہیں۔ ہمارے دعوے اور نعرے کھوکھلے ہیں۔ ہم اسلامی تعلیمات سے دور ہیں۔ اسلام امن کا درس دیتا ہے انسان عدل و انصاف کا درس دیتا ہے۔ اسلام عفو و درگزر کا درس دیتا ہے۔ اسلام انسانیت کا درس دیتا ہے۔ مگر افسوس کہ ہم نے اسلامی تعلیمات کو بھلا دیا ہے۔

خدا کے لئے بس کرو۔ اس ملک پاکستان پر رحم کرو۔ اب بہت ہو گیا اندھی تقلید بند کرو۔ مذہب کے نام پر مذہب کا تماشا نا بناؤ۔ خدا کے لئے ملک میں اور فساد برپا نا کرو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments