بیتے ہوۓ کچھ دن ایسے ہیں، ہم راہی جنہیں دہراتے ہیں !



اسکول میں گزارے گئے دن، ہمارے ہاں عام طور پر، ہمیشہ یاد رہ جانے والے اور زندگی کے بہترین ایام تصور کیے جاتے ہیں، شاید ایسا اس لئے ہے کہ یہ لمحات تعلیمی سلسلے کے ابتدائی اور بنیادی شب و روز سے سجے ہوتے ہیں اور بلاشبہ، یہی وہ مرحلہ ہے جو غیر محسوس طریقے سے سماجی رابطے کی پہلی ( با ضابطہ ) سیڑھی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ یوں وقت کے ساتھ ساتھ، دنوں، ہفتوں اور مہینوں کا ساتھ، ساری عمر کا ساتھ بن جاتا ہے اور شعوری اور لا شعوری طور پر ذہن کے کسی حصے میں خوش گوار یاد اور سنہری تصویر کی صورت، ثبت رہتا ہے۔

یہی وہ پس منظر ہے جس کی بنا پر، اس موڑ پر جنم لینے والی شناسائی، تشکیل پانے والے تعلقات اور (ان خصوصی حالات میں) وجود میں آنے والے احساسات، حد درجہ معصومیت، غیر معمولی سادگی اور بلا کی سچائی کا مظہر بن جاتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ یہ نقش پھر، مٹائے نہیں مٹتے۔

بناؤٹ، کھوٹ، ریاکاری، خود غرضی اور مفاد، جہاں جگہ نہ بنا سکیں، وہاں یقیناً اعلی انسانی اقدار کو پروان چڑھنے اور پر پھیلانے سے کون روک سکتا ہے!

سو، یہ اور اس طرح کے ملتے جلتے خیالات، اس وقت امڈ امڈ کر، بار بار ذہن کو اپنے حصار میں لیتے رہے، جب، اوکاڑہ کی ابتدائی درسگاہ، گورنمنٹ ستلج بوائز ہائی اسکول کی حدود میں سب داخل ہوئے۔ کسی کے لئے اسکول دیکھنے کا یہ دس سال بعد کا تجربہ تھا، کسی کے لئے بیس سال اور کسی کے لئے یہاں قدم رکھنے کی انتہائی حد پچاس سال تھی۔ ایسے لگا جیسے، حال، دھندلا کے کہیں گم ہو گیا ہو اور ماضی، وقت کی قید سے آزاد ہو کر، زیادہ نمایاں اور متحرک دکھائی دے رہا ہو۔

شکل بدلتے گراؤنڈ میں پی ٹی ماسٹر نذر حسین صاحب کی مخصوص سیٹی اور ڈسپلن کے لئے کی جانے والی مسلسل تاکید کی صدائیں، سماعت کی گرفت میں ابھی بھی محفوظ سنائی دیں۔ اسمبلی کے لئے برپا ہونے والے اجتماعات اور اس دوران، ہیڈ ماسٹر قاضی عبدالحکیم صاحب کے دل کی گہرائیوں سے نکلنے والے فکر انگیز الفاظ کی گونج، ذہنوں سے کہاں محو ہوتی ہے، ادھر سے گزرتے، اس کی یاد نہ آئے، یہ کیسے ممکن ہے۔

اتوار کی تعطیل کے سبب سارے برامدے خاموش اور کلاسیں خالی تھیں، مگر یادوں کا کارواں کسی بھی مقام کو خالی گرداننے پر آمادہ نہیں تھا۔ ہر گوشے میں کوئی نہ کوئی وابستگی اپنی موجودگی جتانے پر، بہ ضد تھی۔ در و دیوار کے نئے رنگ و روپ، پرانے پن کی مہک ختم کرنے سے عاجز تھے۔ کلاسوں میں دستیاب، روایتی فرنیچر اور ماحول، اپنی ثابت قدمی اور قدیم شکل و صورت کے سبب، گزرے کل کی طرف جھانکنے کا کھلا دریچہ محسوس ہوتا تھا۔

چشم تصور سے، کلاس میں اساتذہ اسی طرح مصروف عمل نظر آئے۔ میاں بشیر صاحب حاضریاں پکارتے ہوئے، عزیز صاحب معاشرے کے ارتقا پر روشنی ڈالتے ہوئے، شمس صاحب اپنی حس مزاح کے ساتھ طلبہ کو کھلکھلانے پر اکساتے ہوئے، غفور صاحب پوری سنجیدگی کے ساتھ ریاضی کی گتھیوں کو سلجھاتے ہوئے، ابراہیم صاحب سائنس کی دنیا کی طرف مائل کرتے ہوئے، عاشق حسین صاحب لکیروں سے خوش نما نقش بنوانے کی کوشش کرتے ہوئے اور یعقوب صاحب، ہمیشہ کی طرح، الفاظ کی صحیح ہجے کی ادائیگی پر اصرار کرتے ہوئے!

اس دوران، سب کے پسندیدہ مزاح نگار، شفیق الرحمان کی تحریروں میں پیش کیے گئے خاکوں کے کئی کردار بھی بہت یاد آئے کہ ان سے مماثل کردار، اس اسکول کی چار دیواری میں بھی اسی طرح رنگ جما چکے تھے۔ بندر، ریہڑا، سڑیل، بطخ، روندو، گھوڑا، بھونڈی۔

جانے یہ کن تخلیقی ذہنوں کی شرارت رہی ہوگی کہ جنہوں نے اتنے اور ایسے القاب، ان شخصیات سے ایسے نتھی کیے کہ اتنے برس بعد بھی، ان کا تعاقب جاری ہے۔ اب یہ سوال شاید بے معنی ہو چکا ہو کہ آیا یہ القاب کسی کی خصوصیات کے نمائندہ تھے بھی کہ نہیں، ان سے دامن چھڑانا اس لئے ناممکن تھا کہ فلیش بیک اسکرین پر، یہی القاب، سب کی پہچان بن چکے تھے۔ جہاں اصلی نام، یاددہانی میں معاون نہ ہو، وہاں شناخت کے لئے یہی علامتیں کارآمد اور کارگر ہو سکتی تھیں۔

اس ساری روداد کا سب سے اہم اور روشن پہلو یہ ہے کہ اس سفر میں شریک، سارے ساتھی مختلف مقامات، مختلف حالات، مختلف مصروفیات اور مختلف پیشہ جات کے سبب، فطری طور پر، مختلف خیالات اور مختلف مزاج کے حامل تھے مگر ان میں اگر کوئی قدر مشترک تھی تو وہ یہ کہ ان کا اسکول، ان کی کلاس، ان کے اساتذہ اور ماضی میں ان کا ساتھ گزارا ہوا وقت، مشترکہ تھا اور یہی احساس رفاقت باقی ہر بات پر حاوی تھا۔

وہ آج، اپنی رضامندی سے خود کو کل کے ساتھ جوڑنے پر آمادہ کر کے آئے تھے، اسی لئے سارے سماجی تکلفات اور محفل کے آداب کو دوستوں کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا تھا۔ وہ عمر کے اس حصے کو چھونے کے خواہاں تھے، جسے گزرے، عمر بیت چکی تھی۔ وہ اپنے مذاق اور قہقہوں میں اسی آزادی اور بے باکی کے طالب تھے جو انھیں طالب علم ہوتے ہوئے کبھی میسر تھی۔

پرانی یادوں کے ساتھ مل بیٹھنا، نئی امنگوں اور نئے جذبوں کو کیسے بیدار کرتا ہے، آج یہی آزمانے کی گھڑی ہے۔

سب، اپنا آپ فراموش کر کے، دوسرے کی دلجوئی اور خوشنودی کے جذبے سے سرشار، اس دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کے لئے برسر پیکار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments