اخلاقی اقدار اور بہتر معاشرہ


موجودہ حالات پر نظر دوڑائی جائے یا پھر آپ اپنے ساتھ بیٹھے کسی صاحب شعور شخص سے یہ بات کر کے دیکھ لیں کہ ہمارے ہاں اخلاقی اقدار کا معیار کیا ہے تو آپ کو اس کا جواب سن کر کوئی خاص راحت نہیں پہنچے گی کیونکہ میں یہ سوال بارہا اپنے لائیو فیس بک سیشنز میں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے صاحب شعور اور صاحب علم لوگوں سے کر چکی ہوں اور تقریباً سبھی نے ہماری اخلاقی پستیوں کا ذکر تفصیل سے کیا۔

فلسفہ کے میدان میں اقدار وہ خصوصیات ہیں جو حقیقت کا تخمینہ لگاتی ہیں یا نہیں۔ یہ اقدار منفی یا مثبت ہو سکتی ہیں۔ اگرچہ ان کی مکمل وضاحت ممکن نہیں کیوں کہ ان کی تعریف فلسفیانہ یا مفکر کے مطابق مختلف ہو سکتی ہے جو تحقیق کے نتیجے میں ان کی تجویز پیش کرتے ہیں۔ تاہم بہت ساری اقدار جن کا ذکر اکثر بحث و مباحثے کے بغیر کیا جاتا ہے وہ ہوتی ہیں جن کو بلا تفریق مختلف معاشروں میں قبولیت حاصل ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر حساسیت ایک ایسی انسانی قدر ہے جو ہر طرح کے انسانی معاشروں میں تسلیم شدہ ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ لوگوں میں احساس کا ہونا ضروری ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل ہوں جو کہ عین انسانی فطرت بھی ہے کہ انسان دوسروں کے دکھ یا تکلیف پر ردعمل ظاہر کرتا ہے اگرچہ اس کے طریقے ہر معاشرے کے اپنے اپنے ہیں۔ اسی طرح دیگر اقدار، جنہیں بعض اوقات اخلاقیات بھی کہا جاتا ہے وہ ایمانداری، احترام، ذمہ داری، شکرگزاری، وقت کی پابندی، عقلمندی، اخلاص، شفقت، مادی چیزوں سے لاتعلقی، وفاداری اور عاجزی ہیں۔

یہ واضح رہے کہ بعض اوقات انسانی قدر قوانین یا ذمہ داریوں میں جھلکتی ہے۔ بعض سیاق و سباق میں ایک فرد ”صحیح طریقے سے“ کام کرنے کے اپنے محض ارادے کے لئے ذمہ دار ہونے کا انتخاب نہیں کرتا ہے، بلکہ اس لئے بھی کہ غیر ذمہ داری ایک جرم ہے اور یہ احساس اسے اس کا ماحول دلاتا ہے کہ معاشرتی طور پر یہ چیزیں وہاں کس حد تک قابل قبول ہیں۔

دوڑ کے مقابلوں میں فنش لائن سے چند فٹ کے فاصلے پر کینیا کا ایتھلیٹ عبد المطیع سب سے آگے تھا، مگر اس نے سمجھا کہ وہ دوڑ جیت چکا ہے، اس کے بالکل پیچھے اسپین کا رنر ایون فرنینڈز دوڑ رہا تھا اس نے جب دیکھا کہ مطیع غلط فہمی کی بنیاد پر رک رہا ہے تو اس نے اسے آواز دی کی دوڑو ابھی فنش لائن کراس نہیں ہوئی، مطیع اس کی زبان نہیں سمجھتا تھا اس لیے اسے بالکل سمجھ نہ آئی، یہ بہترین موقع تھا کہ فرنینڈز اس سے آگے نکل کے دوڑ جیت جاتا مگر اس نے عجیب فیصلہ کیا اس نے عبدالمطیع کو دھکا دے کے فنش لائن سے پار کروا دیا۔ تماشائی اس سپورٹس مین سپرٹ پر دنگ رہ گئے، ایون فرنینڈز ہار کے بھی ہیرو بن چکا تھا۔ ایک صحافی نے بعد میں فرنینڈز سے پوچھا تم نے یہ کیوں کیا؟

فرنینڈز نے جواب دیا ”میرا خواب ہے کہ ہم ایک ایسا معاشرہ قائم کریں جہاں کوئی دوسرے کو اس لیے دھکا دے تاکہ وہ جیت سکے۔“

صحافی نے پھر پوچھا ”مگر تم نے کینیا کے ایتھلیٹ کو کیوں جیتنے دیا“ ۔
فرنینڈز نے جواب دیا ”میں نے اسے جیتے نہیں دیا، وہ ویسے ہی جیت رہا تھا، یہ دوڑ اسی کی تھی۔“
صحافی نے اصرار کیا ”مگر تم یہ دوڑ جیت سکتے تھے“
فرنینڈز نے اس کی طرف دیکھا اور بولا،
” اس جیت کا کیا میرٹ ہوتا؟
اس میڈل کی کیا عزت ہوتی؟
میری ماں میرے بارے میں کیا سوچتی؟ ”

اقدار نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں، ہمیں اپنے بچوں کو کیا سکھانا چاہیے، بلاشبہ یہ کہ جیتنے کے لئے کوئی بھی ناجائز طریقہ اختیار نہیں کرنا، وہ آپ کی نظر میں جیت ہو سکتی ہے، دنیا کی نظر میں آپ کو بد دیانت کے علاوہ کوئی خطاب نہیں ملے گا۔

انسانی زندگی کے کچھ ضوابط ہیں جن کا احیاء بہت ضروری ہوتا ہے۔ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ اپنی مرضی کے مطابق زمین سے گزرنے کے حق ہمیں کبھی نہیں دیا گیا، بلکہ ذمہ داریوں کا ایک سلسلہ ہے جس کا مقصد فطرت کے توازن کو برقرار رکھنا ہے۔

جب تک ہم لوگ معاشرتی طور پر عملی برائیوں کر رد نہیں کریں گے، ان کو برا نہیں سمجھیں گے تب تک انسانی قدروں کی ایک فہرست سے محض زبانی تلاوت بیکار ہے جیسے ”چوری نہ کرو، دوسروں کے ساتھ اظہار تشکر اور ہمدردی ظاہر کرو۔“

ہمیں بطور فرد اور بطور معاشرہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے بغیر کسی قانونی لٹھ یا سزا کے خوف کے اپنے معاشرے کو سدھارنے کی جانب قدم اٹھانا ہو گا اور اس دنیا کو اپنے بعد آنے والوں کے لئے پہلے سے بہتر جگہ بنانا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments