توہین اسلام و رسول اسلام کے نام پر تشدد: پس پردہ عوامل، ذمہ داران اور اس کا حل


توہین اسلام اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نام پر تشدد اور ماورائے عدالت و انصاف گھناؤنے قتل کے جرم کا ارتکاب وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں عشق رسول کا دعوہ ہے۔ اس عمل میں کسی خاص فرقہ کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا، سبھوں کے دامن داغدار اور ہاتھ رنگین ہیں۔ ایسا کرنے والی بھیڑ کی غالب ترین اکثریت کے عشق اور اتباع رسول کا حال یہ ہے کہ روز مرہ کی عبادات اور دنیاوی اعمال و معمولات میں شاید ہی تعلیمات و ارشادات نبوی کا خیال غلطی سے بھی انہیں آتا ہو۔

ذاتی دشمنی کی بنیاد پر اور بعض وقت اپنی کمزوری پر پردہ ڈالنے کے لیے کسی پر توہین کا الزام عائد کیا جاتا ہے، تشہیر کی جاتی ہے اور عدالت میں بھانڈا پھوٹنے کے ڈر سے آناً فاناً قتل کر دیا جاتا ہے۔ غیر مسلم تو کسی کھاتے میں ہیں ہی نہیں کہ جاہلوں کے نزدیک ان کا قتل گناہ کے زمرہ میں آتا ہی نہیں ہے، مسلمانوں کو یہاں تک کہ حافظ قرآن کو اس درندگی کا شکار ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

متمدن سماج میں رہتے ہیں توہین کا الزام اگر درست ہو تب بھی ماورائے عدالت قتل کی اجازت نہیں دی جا سکتی، ایسا کرنا اسلام کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔ اس کے باوجود انسان نما درندوں کی بھیڑ کسی مسلم یا غیر مسلم کو توہین کے الزام میں قتل کرتی ہے اس لیے نہیں کہ اسے رسول سے محبت ہے۔ محبت ہوتی تو رسول کا کہا مانتے، مذہبی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار کر بھلے مانس بنتے اور توہین کے بارے میں بتائے گئے ضابطہ پر عمل کرتے۔

محبت کی آڑ میں در اصل دو پائے جانور عشق رسول کے نام پر اپنی انا کی تسکین کے لیے قتل کے مجرم بنتے ہیں۔ یہ سوچتے ہیں کہ ”ہم“ جس مذہب کو مانتے ہیں یا ”ہم“ جس رسول کی امت ہیں ”دوسرے لوگ“ اس کی توہین کیسے کر سکتے ہیں۔ معاملہ اسلام یا رسول کی توہین کا ہوتا ہی نہیں ہے، مقابلہ ”ہم“ اور ”وہ“ کے درمیان ہوتا ہے۔

غور کرنے والی بات یہ ہے کہ بھیڑ پاگل کیوں ہو جاتی ہے، اسے افیون کھلانے والے کون لوگ ہیں! اس کا جواب یہ ہے کہ جن مسلم یا غیر مسلم ممالک میں قانون کی حکمرانی ہے اور انتظامیہ چست درست ہے وہاں عوامی نوعیت کے تقریباً پر معاملہ میں ضوابط اعمال و اخلاق متعین ہیں۔ کسی خاص پہلو سے ان کے غلط یا صحیح ہونے پر بات کی جا سکتی ہے لیکن ان پر عمل در آمد ضروری ہے، عمل کرنا ہے یا نہیں کرنا ہے اس پر بحث مباحثہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

بد قسمتی سے بر صغیر ہند و پاک میں اس کا فقدان ہے۔ مذہبی ادارے اور شخصیات کسی قسم کے ضابطۂ اخلاق سے آزاد ہیں۔ بے شک عبادت کے معاملات پر حکومت کے کنٹرول کا کوئی جواز نہیں ہے اور نہ ہی کوئی حکومت اس کی خواہش پالتی ہے لیکن عبادت خانوں میں عبادات کے علاوہ وعظ و ارشاد کے نام پر جو شعلہ فشانیاں ہوتی ہیں ان پر چیک اینڈ بیلنس ضرور ہونا چاہیے۔ عبادت کسی بھی شخص یا گروہ کا بنیادی انسانی حق ہے، لیکن انسانی آبادی کو الفاظ کے زیر و بم سے بارود اور بم میں تبدیل کر نے حق کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔

پہلے ایسا تھا کہ شہروں میں ماہانہ تنخواہ کے عوض علماء کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں لیکن گاؤں اور قصبوں میں بیشتر اہل محلہ میں سے ہی ایک دو بزرگ پابندی سے اذان دینے اور امامت کرنے کی ذمہ داری رضا کارانہ طور پر انجام دیتے تھے۔ وہی بزرگ یا گاؤں قصبوں کے علماء جمعہ اور عیدین کی امامت کرتے تھے۔ بڑے سکون و اطمئنان کے ساتھ مساجد آباد رہتی تھیں۔ پچھلی چند دہائیوں میں مدارس کی کثرت کے نتیجہ میں گندم نما جو فروش فارغین (جنہیں علماء کہنا علم کی توہین ہے ) کی باڑھ آ گئی۔

امامت نے بین الاقوامی پیشے کی شکل اختیار کی، پھر کیا شہر اور کیا گاؤں جہاں دیکھیے وہاں ایک انار (مسجد) سو بیمار۔ مذہب کے نام پر، فرقوں کے نام پر، ذاتوں برادریوں کے نام پر اور کہیں ایک ہی برادری کے مختلف خاندانوں کے درمیان اماموں نے اپنے حق میں پولرائزیشن کو فروغ دینا شروع کر دیا۔ کبھی اسلام کی حرمت اور فرقہ پرستی کی غیرت کے نام پر اور کبھی اپنی عزت کے نام پر عوام کو اکسایا، بھڑکایا، موبلایز کیا؛ جس کے نتیجہ میں بہت سی جگہوں پر موب لنچنگ ہوئی اور بہت سی جگہوں پر ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اس قسم کی خبریں آئے دن اخبار کے صفحات سیاہ کرتی رہتی ہیں۔ قرآن نے جن لوگوں کو ”رجل رشید“ یعنی ”ذی ہوش“ انسان کہا ہے اگر ایسے چند لوگ ہر سماج میں نہ ہوتے تو شاید کوئی گاؤں محفوظ نہ ہوتا اور کم سے کم دو تین لنچنگ ہر گاؤں میں ہو چکی ہوتی اور شاید تب بھی مولوی برادری سبق نہ سیکھتی۔

مدارس کے زائد از ضرورت ناکارہ فارغین کا دوسرا طبقہ پیشہ ور مقررین کا ہے جو گھنٹہ دو گھنٹہ کی تقریر کے عوض موٹی رقم وصول کرتا ہے، سماج میں آگ لگاتا ہے اور رفو چکر ہو جاتا ہے۔ بد ذوق ان پڑھ عوام کو لچھے دار جذباتی تقریریں پسند آتی ہیں، چاہے ان کی سمجھ میں کچھ خاک نہ آوے، ویسے ان کی تقریروں میں سمجھنے کے لیے کچھ ہوتا بھی کہاں ہے! اس کا ثبوت یہ ہے کہ سال کے باون 52 جمعہ میں، کبھی نہیں بھی کرتا ہو تو، کم از کم بیالیس 42 میں امام تقریر کرتا ہے، ان کے علاوہ سال بھر ہونے والی میلاد کی محفلوں، محرم کی مجالس اور چھوٹے بڑے جلسوں میں بھی تقریریں ہوتی رہتی ہیں۔

ان سب کے باوجود اسلام اور رسول اسلام کی کی سیرت سے متعلق مسلم عوام کا مبلغ علم معلوم کرنا ہو تو بنیادی نوعیت کے عام سے ایک دو سوال ان سے کر کے دیکھ لیجیے ان کی اوقات معلوم ہو جائے گی۔ نفرت کے یہ سوداگر علم تقسیم نہیں کرتے ہیں، ان کی باتوں میں موضوعیت نہیں ہوتی ہے، جذبات کی خیرات بانٹتے ہیں اور عداوت کا زہر کاشت کرتے ہیں۔

کتنا بھلا تھا وہ زمانہ جب گاؤں کے مولوی صاحب مولود کی کتاب اور شہادت نامہ لے کر بیٹھتے تھے اور اسے پڑھ کر حاضرین کو سنا دیا کرتے تھے۔ گو کہ ان کتابوں میں مذکور واقعات میں بھی تحقیق کا عنصر ناپید ہوتا تھا لیکن نفرت آمیز ہرزہ سرائیاں نہیں ہوتی تھیں۔

کچھ ایسے مسلمان عوام بھی ہیں جو اپنی حرام خوریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کسی غیر مسلم پر توہین اسلام و رسول اسلام کا الزام عائد کر کے مسلمانوں کی ہمدردیاں بٹورتے ہیں اور فتنہ فساد کا سبب بنتے ہیں۔ جرم کی نوعیت اس وقت مزید سنگین ہو جاتی ہے جب وہ غیر مسلم کمزور طبقہ سے تعلق رکھتا ہو اور مسلمانوں کی آبادی میں گھرا ہوا ہو۔ ایسی حالت میں انصاف کے تقاضے کے مطابق مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مجرم مسلمان کی گردن اس وقت تک دبوچے رکھیں جب تک وہ اس غیر مسلم کی مزدوری یا اس کا واجب حق ادا نہ کر دے۔

مذہبی ادارے اور خاص کر مساجد حکومت کے کنٹرول سے باہر ہیں، انہیں باہر ہونا بھی چاہیے، ایسے میں معاشرے کے ”رجل رشید“ یعنی ”ہوش گوش“ رکھنے والوں پر امن وامان برقرار رکھنے کی دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہونی چاہیے کہ خطابت کا منبر، اسٹیج اور مائک ہر مولوی ملا کے حوالے کرنا ہی نہیں چاہیے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ تقریر کے مشمولات content of speech کیا ہوں گے یہ باہر سے آنے والا مقرر طے نہیں کرے گا، ارباب حل و عقد اس کو پیشگی بتائیں گے کہ ان کے سماج کو کس قسم کی معلومات مطلوب ہیں۔ اسی طرح مسجد کی انتظامیہ امام کو پابند کرے کہ وہ کن کن مسائل کو اپنی ہفتہ وار جمعہ کی تقریر کا موضوع بنائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ممکن ہے معاشرہ ناگہانی آفات سے محفوظ ہو سکے گا اور خوبصورت بھی۔ و ما علینا الا البلاغ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments