مذمت اور بس مذمت


سیالکوٹ میں ایک سری لنکن مینجر پریا نتھا کمارا کی دردناک موت بارے خبر پڑھ کر اب تک سکتے میں ہوں کہ اس پر کیا لکھوں، کیا بولوں اور اپنے دل کو کیا کہہ کے تسلی دوں۔ حبیب جالب کی یہ نظم بار بار دل و دماغ پر دستک دے رہی ہے۔

*ناموس کے جھوٹے رکھوا لو
بے جرم ستم کرنے والو
کیا سیرت نبوی جانتے ہو
کیا دین کو سمجھا ہے تم نے
کیا یاد بھی ہے پیغام نبیﷺ
کیا نبی کی بات مانتے ہو
یوں جانیں لو یوں ظلم کرو
کیا یہ قرآن میں آیا تھا؟
اس رحمت عالم ﷺ نے تم کو
کیا یہ اسلام سکھایا تھا
لاشوں پر پتھر برسانا
کیا یہ ایماں کا حصہ ہے
الزام لگاؤ مار بھی دو
دامن سے مٹی جھاڑ بھی دو
مسلمان بھی کہلاؤ اور پھر
ماؤں کی گود اجاڑ بھی دو

قارئین کو واقعہ کے پس منظر سے آگاہ کرنے کے بعد بات کو آگے بڑھاؤں گا تاکہ ہمارے معاشرے کے اندر چھپی گندگی اور درندگی کو سمجھنا آسان ہو۔ تین دن پہلے (تادم تحریر) سیالکوٹ کی ایک نجی فیکٹری کے منیجر کو مبینہ طور پر اس الزام کے تحت کہ اس نے آپ ﷺ یا اصحاب اکرام کی شان میں گستاخی کی ہے، مار کر بیچ چوراہے آگ لگا دی۔ ممکنہ طور پر یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ وہ غیر ملکی منیجر وقت کی پابندی، عورتوں کو ہراساں کرنے اور کام میں سستی کے سخت خلاف تھا اور اس معاملے میں اپنے ماتحت عملے پر کافی سختی کرتا تھا۔

وہ دلی میل، نفرت کے انگارے یوں نکلے کہ ایک محض افواہی الزام کے تحت ہمارے عاشق رسولﷺ اور جنت کے ٹھیکیداروں نے پہلے زد و کوب کیا اور مار کر آگ لگا دی۔ وہ آگ اس منیجر کو نہیں بلکہ ہمارے سسٹم کو لگنی چاہیے جس نے ان درندوں کو ہوا دی ہوئی ہے۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف کی طرف سے مذمتی بیان کے ساتھ ساتھ سخت ایکشن کا عندیہ تو دیا گیا ہے لیکن یقیں مانیں میں اب ان باتوں سے کبھی خوش فہم نہیں ہوا۔ کیونکہ ان محض باتوں اور لفظی مذمتوں کو سامنے رکھو یا تحریک طالبان کو ملکی دھارے میں لانے کی خبروں اور اس پر ترجمانوں کی تعریف تمہید سنوں۔

میں ان لنڈے کے جنتیوں کی گرفتاریوں کے دعوؤں پر دوڑاؤں یا چند دن قبل کئی پولیس جوانوں کو شہید کرنے اور کروڑوں کا نقصان کرنے والی تحریک لبیک کے ساتھ خفیہ معاہدوں پر پلکیں جھپکوں۔ اب تو اس خونخوار معاشرے سے خوف آنے لگا ہے کہ کب کوئی جنت کا ٹکٹ تھامے، کس کو ذبح کر دے اور ہمارا سسٹم منہ میں انگلی دبائے ایک اور مذمت کا انتظار کرتا رہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ آخری محسوس ہو رہا ہے۔ ہر دلخراش واقعہ پر دو دن کا شوروغل پھر احساس سے عاری قوم نئے واقعہ ہونے تک مردہ ضمیر کے ساتھ اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ فیٹف جسے ہم انڈین لابی قرار دیتے ہیں کہ وہ ان پر ہمیں گرے لسٹ سے نہیں نکال رہے۔ بلاشبہ وہ ایسا کرتے ہیں لیکن ہم ہر چیز کو دوسروں پر اچھالنے کی بجائے آخر کب اپنے گریبان میں جھانکیں گے؟ ریاست کو آگے بڑھنا ہو گا۔ اپنی رٹ قائم کرنا ہو گی۔ ان نام نہاد جنتیوں کو لگام ڈالنا ہو گی۔

تمام سیاسی و مذہبی قائدین کو بنا کسی کب کیوں کے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ورنہ کل مشعال تھا، آج پریا نتھا کمارا اور آنے والے کل کو آپ میں یا کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی آپ ﷺ یا اصحاب کرام اجمعین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں گستاخی نعوذ باللہ تصور بھی نہیں کر سکتے لیکن ہم اپنی انا اور نفرتوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اس الزام کے تحت گھومتے بھیڑیوں کو بھی آزاد نہیں چھوڑ سکتے۔ ریاست پاکستان اور ہماری جوڈیشلی کو اس کیس کو ٹیسٹ کیس لے کر اس مجرمانہ کارروائی میں شامل تمام لوگوں کو سخت سے سخت سزا سنانا ہو گی۔ کیونکہ یہ طوفان کو کہیں نہ کہیں روکنا ہو گا ورنہ یہ آج سیالکوٹ کی بستی کو جلا رہا تو کل پاکستان کو بھی بھسم کر دے گا۔

ہماری سیاسی و عسکری قوتوں کو بھی اب اپنے رویے پر نظر ثانی کرنا ہو گی کہ وہ اپنی طاقت کو مستحکم کرنے کے لئے مذہب کارڈ کی بجائے مہذب کارڈ کھلیں۔ مذہبی جماعتیں اور قائدین ہماری آنکھوں کے سرچشمہ لیکن پرتشدد مظاہروں والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہو گا۔ اپنے ووٹ بنک کی خاطر بیک ڈور ملاقاتوں کے رواج کو اب ترک کرنا ہو گا۔ کیونکہ ہوا چنگاری کو اپنے رخ لے کر جاتی ہے وہ یہ نہیں دیکھتی کہ مجھے جلانے والے کی جھونپڑی ہے یا مخالف کی۔ خدارا اب ہوش کے ناخن لیں اور باتوں اور کھوکھلے دعوؤں اور نعروں کی بجائے عملاً کچھ کریں تاکہ یہ سلسلہ رک سکے۔ اللہ ہمارے ملک پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments