سانحہ سیالکوٹ اور ہمارا المیہ


ایک دفعہ پھر دماغ سے عاری کچھ شر پسندوں نے ایک اور معصوم انسانی جان کو توہین رسالت کے الزام میں بے گناہ موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس واقعے سے قبل خیبرپختونخوا کے شہر مردان میں واقع عبدالولی خان یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے طالب علم مشال خان کو بھی توہین رسالت کے الزام میں ایک ہجوم نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس کی وجہ سے وہ اپنی جان کی بازی ہار گئے اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس پورے واقعے کی تحقیقات کیں تو پتہ چلا کہ مشال خان کے اوپر بھی توہین رسالت کا غلط الزام لگایا گیا تھا۔

آج مشال خان کیس کا مرکزی ملزم سزائے موت کی چکی میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔ اس واقعے کے چند ماہ بعد گوجرانوالا کے ایک حافظ قرآن نے جائیداد میں سے اپنا حصہ مانگا تو اس کے خاندان کے افراد نے اس کو بھی توہین رسالت کے الزام میں موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کی لیکن جب اس حافظ قرآن نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ جائیداد میں سے حصہ نہیں دینا تو نہ دو، اگر مجھے مارنا چاہتے ہو تو بیشک جان سے مار دو لیکن میرے اوپر توہین رسالت کا الزام مت عائد کرو۔ جب اس واقعے کی اطلاع مقامی انتظامیہ کو پہنچی تو انہوں نے اس متاثرہ لڑکے کے تمام خاندان کے افراد کے خلاف کارروائی عمل میں لا کر قوم کو ایک اور بڑے سانحے سے بچایا۔

اس بات میں کوئی شک کی گنجائش ہی نہیں کہ سانحہ سیالکوٹ نے ہمارے سر شرم سے جھکا دیے ہیں۔ آخر اس سری لنکن فیکٹری مینجر کا کیا قصور تھا؟ اس کے خاندان کے افراد کے اوپر اس لمحے کیا بیت رہی ہوگی؟ کیا توہین رسالت کا لیبل اتنا ہی غیر اہم ہو گیا ہے کہ ہر شخص اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے اور اپنے دل کی تسکین کے لیے اس کارڈ کو استعمال کرتا ہے۔ ابھی چند عرصہ قبل فرانس کی جانب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی شان اقدس میں گستاخی کی گئی تو پاکستان میں ایک مذہبی گروہ نے فرانس اور اس کی حکومت کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروانے کی بجائے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس گستاخی کا جواب ملکی و غیر ملکی میڈیا پر احتجاج ریکارڈ کروانے کے علاوہ فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے دیا جاتا اور فرانس کی معیشت کو غیر مستحکم کیا جاتا لیکن افسوس ہم نے یہ رستہ نہیں اپنایا اور الٹا اپنے ہی ملک کے شہریوں کو تکلیف پہنچانا شروع کر دی اور پرتشدد واقعات رونما کرنا شروع کر دیے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں اطراف مسلمان بھائی آپس میں لڑ پڑے اور جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان اقدس میں گستاخی کی تھی تو وہ ان پرتشدد مظاہروں کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کر رہا تھا۔

ہائے افسوس! آج ہم اپنے اصل مقصد سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ آج ہم سیدھے راستے پر چلنے کی بجائے شیطان کے راستے پر چلنا شروع ہو گئے ہیں۔ ہمارا مذہب تو امن پسندی کی دعوت دیتا ہے، ہمارا مذہب تو دوسروں کے جان و مال کی حفاظت کرنے کا درس دیتا ہے لیکن آج ہم اپنے مذہب کے بتائے ہوئے راستے کی بجائے الٹے رستے پر چلنا شروع ہو گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کے جان و مال کی حفاظت کی بجائے اس کے دشمن بن گئے ہیں اور یہ راستہ ہمیں جنت کی طرف نہیں بلکہ دوزخ کی آگ طرف ضرور لے جا سکتا ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانی جان کی حفاظت کے متعلق قرآن مجید کی سورہ المائدہ میں ارشاد فرمایا کہ؛ ”جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے ) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔“ یہاں پر ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالٰی نے اس آیت مبارکہ میں مسلم و غیر مسلم لوگوں کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ پورے بنی نوع انسانوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اگر کوئی مسلم کسی غیر مسلم کو اور کوئی غیر مسلم کسی مسلم کو ناحق قتل کرتا ہے تو قانون میں اس کی سزا ”سزائے موت“ مقرر کی گئی ہے لیکن ماورائے عدالت کسی بھی انسانی جان کو موت کے گھاٹ اتارنے کی اسلام قطعاً اجازت نہیں دیتا۔

اس سانحے کے بعد ایک دفعہ پھر ہمارا امتحان شروع ہو گیا ہے اور حکومت کو سری لنکن مینیجر کے قتل میں ملوث تمام ملزمان کو سخت سے سخت سزا دینی چاہیے اور ایک بل قومی اسمبلی میں بھی پیش کرنا چاہیے کہ جو شخص کسی دوسرے شخص پر بغیر کسی ٹھوس شواہد کے توہین رسالت کا الزام عائد کرے گا تو پاکستانی قوانین کے مطابق اس کی سزا سزائے موت ہوگی۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو ہدایت عطاء فرمائے اور شیطان کے شر سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments