گندم کی کاشت کے دس ہزار سال: گندم ہماری زندگی، دولت اور جنگ کا حصہ کیسے بنی؟

اسد علی - بی بی سی اردو، لندن


پہلی عالمی جنگ میں دنیا کی بڑی بڑی صنعتی طاقتیں آمنے سامنے تھیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہر قسم کا ہتھیار ان کے پاس تھا۔ لیکن ایک رائے ہے کہ ’برابر کی طاقت‘ والے ان فریقوں کے درمیان، کروڑوں انسانوں کی جان لینے والی ’جنگ کا فیصلہ بھوک نے کیا‘ تھا اور اس میں فیصلہ کن ہتھیار گندم تھا۔ مگر کیسے؟

جنگ کے دوران ’برطانیہ نے اپنے دشمن جرمنی کے خوراک کے ذرائع کا اندازہ لگاتے ہوئے نتیجہ نکالا کہ اگر وہ اس کی خوراک کی فراہمی کے راستے بند کر دے تو برطانیہ زیادہ عسکری وسائل استعمال کیے بغیر بھی یہ جنگ لڑ سکتا ہے۔ اور دوسری طرف جرمنی نے اتحادی فوجوں کی طرف سے خوراک کی فراہمی کی ناکہ بندی سے نمٹنے کے لیے فرانس پر زوردار حملے کا فیصلہ کیا، تاکہ اس کے خوراک کے ذخائر ختم ہونے سے پہلے ہی جنگ ختم ہو جائے۔‘

لیکن جنگ طویل ہو گئی، دونوں فریقوں کے پاس کھیتوں میں کام کرنے والا کوئی نہیں تھا اور پورے یورپ میں بھوک پھیل گئی۔

امریکی ماہر ارضیات پروفیسر کیتھرین زبنسکی نے گندم کی کہانی پر مبنی اپنی کتاب ’ایمبر ویوز‘ میں لکھا ہے کہ جرمنی کی خوراک کی ناکہ بندی سنہ 1918 کے جنگ بندی کے معاہدے کے بعد بھی جاری رہی۔ ’اسی طرح مہینے گزر گئے اور اتحادیوں نے فاقوں کی دھمکی کے ذریعے جرمنی کو ورسائے کے معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کیا۔‘

یہ پہلی بار تھا نہ آخری بار کہ جب انسان نے انسان کو زیر کرنے کے لیے خوراک کے ذرائع پر کنٹرول حاصل کیا۔

ورسائے کے اس معاہدے تک جرمن عوام بھوک کا ذمہ دار اپنی حکومت کو ٹھہرا سکتی تھی لیکن جنگ بندی کے معاہدے کی مشکل شرائط اور خوراک کی ناکہ بندی ختم کرنے میں دیر کے بعد ’اب بھوک کا الزام اتحادیوں پر تھا۔‘ اور جرمن عوام کے اسی غصے کا ’فائدہ اٹھاتے ہوئے ہٹلر اور نازی پارٹی اقتدار میں آ گئے۔‘

جرمنی کی نئی حکومت کے ایجنڈے پر خوراک میں خود مختاری کا حصول شامل ہونا حیرانی کی بات نہیں تھی۔ زبنسکی لکھتی ہیں کہ ’ہٹلر چاہتے تھے کہ جرمنی کے پاس بھی کاشت کے لیے اسی طرح کے بڑے میدان ہونے چاہیں جیسے یورپی آبادکاروں کو شمالی امریکہ میں حاصل ہوئے تھے۔‘

اور اسی سوچ کے تحت ان کی نظر یوکرین پر پڑی جو اپنی زرخیزی کی وجہ سے مشہور تھا اور ایک منصوبہ بنا جس کا مقصد اتنی خوراک پیدا کرنا تھا کہ جرمن عوام اور فوج کی ضرورت پوری ہو سکے۔

اسی ماحول میں دوسری عالمی جنگ ہوئی۔ لیکن یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔

چار سال جاری رہنے والی دوسری عالمی جنگ کے بعد ’جرمن فوجی خوراک کی کمی کا شکار تھے اور عورتیں اور بچے بھوکے تھے۔‘

’عالمی جنگ کے مظالم بیان کیے جا چکے ہیں، تاریخ کے لیے محفوظ کیے جا چکے ہیں اور یاد کیے جا چکے ہیں تاکہ آئندہ قومیت، مذہب یا رنگ کی بنیاد پر انسانوں میں غیر انسانی جذبات بھڑکانے والی تحریکوں کا منھ موڑا جا سکے۔‘

گندم اور دیگر فصلوں کا مقصد تو انسان کو صبح شام کی خوراک کی تلاش اور شکار کی جدوجہد سے آزاد کرنا تھا تاکہ وہ مستقل رہائش کی بستیاں بنا سکے، تہذیبوں کو جنم دے سکے لیکن یہ تو خود انسان کو بھوکا رکھنے کا ایک ہتھیار بن چکی تھیں۔

زبنسکی لکھتی ہیں کہ ’گندم کی وہ انسانی کہانی بد رنگ ہو چکی تھی جس کے آغاز میں انسان نے پہلی بار معجزانہ طور پر معلوم کیا کہ گھاس نما پودوں پر جھولتے دانے خوراک کا کام بھی دے سکتے ہیں، پھر یہ بھی کہ اس گھاس کی کاشت کیسے کرنی ہے اور یہ کہ مختلف موسموں اور مختلف قسم کی زمین پر اس کے بڑے بڑے کھیت کیسے اُگانے ہیں۔‘

انھوں نے لکھا ہے کہ گندم کی انسان کی زندگی میں آنے کی یہ کہانی آج سے ہزاروں برس پہلے ترکی میں شروع ہوئی تھی۔ ’بلوط کے درختوں کے سائے میں لہلہاتی گھاس کسی دوسری گھاس سے مختلف تھی۔ گھاس کی اس قسم نے انسانی تاریخ بدل کر رکھ دی۔ ترکی کی خاموش پہاڑیوں پر پھیلی ہوئی گھاس آج دنیا کے مختلف حصوں میں کاشت ہونے والی گندم کی آباؤ اجداد ہے۔‘

انسان نے جب پہلی بار گندم اُگائی

انسان نے زراعت کب شروع کی اور کیا اُگایا، مختلف اندازوں کے مطابق دنیا میں ایسے مقامات کی تعداد دس سے بیس کے درمیان ہے جہاں انسانوں نے مقامی طور پر کھیتی باڑی شروع کی اور اپنی ضرورت کے لیے فصلیں پیدا کیں اور سب کا طریقہ فرق تھا۔

لیکن جہاں تک گندم کی بات ہے، زبنسکی نے اپنی کتاب میں گندم کی کہانی کے آغاز کی بہت خوبصورت منظر کشی کی ہے۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جس کو دیکھنے کے لیے ہمیں ہزاروں برس پیچھے ترکی اور شام میں پھیلے پہاڑی سلسلے زاگروس میں دریائے فرات کے کنارے جانا پڑے گا۔

ہماری منزل حلب سے تین دن کے فاصلے پر واقع وہ مقام ہے جو تاریخ میں آگے چل کر ابوھریرہ کہلایا۔ یہ دنیا کے ان مقامات میں سے ایک ہے جہاں شواہد کے مطابق سب سے پہلے انسان نے اپنی ضرورت کے لیے اناج اُگایا تھا۔

اس مقام سے ’آپ شمال مغرب میں 30 کلومیٹر تک دریائے فرات کے مناظر دیکھ سکتے ہیں اور مشرق میں دس کلومیٹر تک۔ دریا کا پاٹ چوڑا ہے اور بہاؤ تیز، خاص طور پر موسم بہار میں جب زاگروس کے پہاڑوں پر برف پگھلتی ہے اور سرخ اور خاکی مٹی بہہ کر آتی ہے۔

’دریا کے کنارے شوخ سبز سرکنڈوں اور نم گیاہ یا جھمکے دار پھولوں سے ڈھکے ہوئے ہیں اور پانی میں بگلے اور دیگر پرندے دیکھے جا سکتے ہیں۔ بید کے درختوں کے جھنڈ پانی کے بہاؤ کو سست کر رہے ہیں۔ دریا سے ہٹیں تو چنار اور آھ درختوں کا جنگل پھیلا ہوا ہے جو موسم سرما میں پناہ فراہم کرتا ہے۔ دریا کی سطح سے بلندی پر تا حد نگاہ درخت، جھاڑیاں اور گھاس کا میدان ہے۔‘

’یہ علاقہ دریا سے اونچا ہونے کی وجہ سے سیلاب سے محفوظ تھا اور ساتھ ہی ایک زرخیز دریائی میدان کے قریب بھی تھا۔‘

ماہرین کا اندازہ ہے کہ علاقے کی زرخیزی کی وجہ سے ابو ھریرہ کے ابتدائی باسیوں کو کچھ کاشت کرنے کی ضرورت نہیں تھی اور ان کا گزارا شکار اور پھل چننے سے ہو جاتا تھا کیونکہ وہاں ممکنہ طور پر ’پودوں کی 120 اقسام پیدا ہوتی تھیں۔‘

پہلی بار انسان کو گندم کے بارے میں کیسے پتا چلا ہو گا؟ اس بات کا حتمی طور پر تو اندازہ لگانا مشکل ہے۔ لیکن زبنسکی اس میں ہماری مدد کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ تصور کریں آپ تیرہ ہزار سال پہلے بھوک کی حالت میں خوراک تلاش کر رہے ہیں اور آپ کی نظر ایسی گھاس پر پڑتی ہے جو اپنے دانوں کے بوجھ سے جھکا جا رہا ہے۔

آپ کے ہلانے پر بیج گر جاتے ہیں۔ لیکن جب آپ ان کو کھانے کی کوشش کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ آپ کا دانت ٹوٹ جائے گا۔ آپ اس وقت اسے ایک بڑے سے پتھر سے توڑتے ہیں۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ ان بیجوں کو پانی میں ڈبونے یا آگ پر پکانے کے بعد توڑنا آسان ہو جاتا ہے۔

تاہم یاد رہے کہ انسان ابھی گندم کی کاشت سے دور تھا۔ ’ابو ھریرہ میں گندم کا جو بیج قدرتی طور پر ملتا تھا اور جسے ہمارے آباؤ اجداد نے بعد میں کاشت کیا اس کی دو قسمیں تھیں، آئن کارن اور ایمر۔‘

کئی ہزار سال تک کاشت کیے جانے اور کھائے جانے کے بعد ’آئن کارن‘ غیر مقبول ہو گیا۔ یہ کم زرخیز زمین پر بھی پیدا ہو جاتا ہے لیکن اس کے دانے کی سختی کی وجہ سے اسے جانوروں کی خوراک کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ ’آج کل دنیا بھر میں اب اپنے قدیم آباؤ اجداد کی خوراکوں میں ایک بار پھر ہماری دلچسپی پیدا ہونے کے بعد آئن کارن کو خاص طور پر کاشت کیا جا رہا ہے اور اس سے بسکٹ اور کریکر بنائے جاتے ہیں۔‘

گندم کی انسان کی زندگی میں آنے کی ابتدا کے بارے میں یہ سب پڑھ کر 13 ہزار سال بعد آج اگر کوئی اس منظر سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے تو یہ ممکن نہیں، کیونکہ ابو ھریرہ اب گہرے پانیوں کے نیچے کھو چکا ہے۔

زبنسکی بتاتی ہیں کہ سنہ 1973 میں شام میں طبقہ ڈیم کے لیے جھیل بنائی گئی تھی اور یہ مقام ملک کی اس سب سے بڑی جھیل کی تہہ میں ہے۔ اسد نامی اس جھیل کے اردگرد کا علاقہ بھی آج وہ منظر پیش نہیں کرتا جو وہاں 13 ہزار سال پہلے دیکھا جا سکتا تھا۔

انھوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابو ھریرہ کے بارے میں ہمیں جو معلوم ہے وہ سنہ 1971 میں شروع ہونے والی کھدائی سے پتا چلا تھا جو سنہ 1973 میں ڈیم کی تکمیل پر اچانک روک دی گئی تھی۔ ماہرین آثار قدیمہ نے کھدائی کے دوران یہاں سے نامیاتی مادہ اکٹھا کر کے پانی بڑے بڑے ٹبوں میں ڈالا۔ مٹی پانی کی تہہ میں بیٹھ گئی جبکہ بیج اور پودوں کی باقیات اس کی سطح پر تیرنے لگیں۔

’ماہرین نے کئی دہائیوں تک ان کا تجزیہ کیا اور نئی سے نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے ان اجزا کی قسم اور تاریخ کا پتہ لگایا۔ کھدائی سے معلوم ہوا کہ یہ مقام 13 ہزار برس پہلے انسانوں کا گھر تھا اور پندرہ سو سال مزید رہا۔ اس کے بعد تقریباً دس ہزار پانچ سو سال پہلے ۔۔۔۔۔ یہاں پھر سے انسان آباد ہوا اور مزید 2500 سال تک ایسا ہی رہا۔‘

یہ بھی پڑھیے

دنیا کی ’سب سے قدیم روٹی‘ کے نسخے کی تلاش

سان فرانسسکو کی لذیذ ’خمیری روٹی‘ جس کے چرچے پوری دنیا میں ہیں

ہزاروں برس قبل سالن کیسے پکایا جاتا تھا؟

مصالحوں کے چٹخاروں نے قدیم دنیا کو کیسے بدلا؟

تو ابو ھریرہ میں پہلی بار کاشتکاری کیسے شروع ہوئی؟

زبنسکی لکھتی ہیں کہ ابو ھریرہ میں پہلی آبادی کے قیام کو سینکڑوں برس بیت چکے تھے جب دنیا بھر میں موسم تیزی سے تبدیل ہوا اور سرد و خشک ہو گیا۔ اور اس نے لوگوں کی زندگیوں میں بڑی تبدیلی پیدا کی۔

اس تبدیلی کی وجہ سے ’ابو ھریرہ کی انگیٹھیوں سے ملنے والی پودوں کی باقیات سے لوگوں کی خوراک میں تبدیلی کا پتا چلتا ہے۔ جنگل کے پودوں اور درختوں کے آثار ان جگہوں سے غائب ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہ ایسے بیج اور پودے لے لیتے ہیں جو خشک سالی کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔۔۔ موسم سرد ہونے کے کچھ ہی صدیوں کے اندر ان چولہوں کے گرد گندم کے دانے کم ہو جاتے ہیں۔‘

زبنسکی بتاتی ہیں کہ اسی دور میں غالباً یہاں زراعت کے پہلے شواہد ملتے ہیں۔ اس کی ایک وضاحت یہ ہے کہ قدرتی طور پر ملنے والی گندم اور دیگر پودوں میں کمی کے ساتھ لوگوں نے اپنے لیے دلیہ کاشت کرنا شروع کر دیا۔

وہ لکھتی ہیں کہ ابو ھریرہ میں انسانی بستیوں کے پہلے دور میں زراعت کے بارے میں ماہرین میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے لیکن یہاں انسانی بستیوں کے دوسرے دور کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ وہاں اس دور میں زراعت ہوتی تھی۔

’ابو ھریرہ کے دوسرے دور میں ابتدائی طور پر لوگ جنگلی پودے جمع کرتے تھے اور ہرن کا شکار کرتے تھے۔ رائی کے علاوہ جوار، دالوں، مٹر اور چنوں کے ساتھ وہ تین طرح کی گندم کاشت کرتے تھے۔‘

ابو ھریرہ میں زندگی کیسی تھی، وہاں کے لوگ کھاتے کیا تھے؟ یہ سب ہمیں ان لوگوں کی جھونپڑیوں کے باہر چولہوں کے گرد ملنے والے اوزاروں اور جانوروں اور پودوں کی باقیات سے معلوم ہوا ہے۔

زبنسکی لکھتی ہیں کہ ابو ھریرہ تقریباً آٹھ ہزار سال پہلے دریائے فرات کی وادی میں موسم خشک ہونے کی وجہ سے خالی ہو گیا۔ ’ہمیں نہیں معلوم کہ ابو ھریرہ کے لوگ کہاں گئے اور انھوں نے کیا کیا؟‘

ان کے مطابق ابو ھریرہ کی کہانی کا بہترین اختتام جس کا ہم تصور کر سکتے ہیں یہ ہے کہ دریائے فرات کے کنارے اس چھوٹے سے گاؤں میں زندگی کے رُک جانے کے باوجود اس کے باسیوں کا طرز زندگی نئے مقامات پر ان کے ساتھ گیا۔ تاہم وہ گندم کے بیج کی نقل مکانی کا شکار نہیں ہوئے۔ وہ لوگ اس کہانی کو لے کر مشرق وسطیٰ، بلقان اور دریائے ڈینیوب پہنچے۔

زبنسکی اپنی سنہ 2020 میں شائع ہونے والی کتاب میں لکھتی ہیں کہ آثار قدیمہ کی ہر نئی دریافت ہماری سمجھ بوجھ میں اضافہ کرتی ہیں اور عین ممکن ہے کہ اگلے دس برسوں میں ہماری رائے آج سے بالکل مختلف ہو۔

کہانی جاری رکھتے ہوئے زبنسکی لکھتی ہیں خوراک کی داستان میں ایک اہم سنگ میل مٹی کے برتنوں کی ایجاد تھی۔

برتنوں کی آمد کے بعد بیجوں کو اس وقت تک بھگویا جاتا تھا کہ وہ نرم ہو جائیں۔ ابو ھریرہ میں مٹی کے برتنوں کا ثبوت آٹھ ہزار سال پہلے ملتا ہے۔ اس دور کے بعد ملنے والی انسانی باقیات میں دانت پہلے سے بہتر حالت میں ملتے ہیں۔

لیکن ’ایمر‘ اور ’آئن کارن‘ کو گندم کی جس قسم نے بالکل پیچھے چھوڑ دیا وہ تھی ’بریڈ ویٹ‘۔ پہلے پہلے کسان اس بیج کو کاشت نہیں کر سکتے تھے کیونکہ یہ اس وقت موجود ہی نہیں تھا۔ بریڈ ویٹ کے بارے میں خیال ہے کہ یہ ’آٹھ ہزار سال پہلے ایمر کے کھیت میں پیدا ہوا ہو گا۔ بظاہر ایمر کے پھول کے ایک اور قسم سے ملاپ کے نتیجے میں۔ یہ انسان کی مداخلت کے بغیر ہوا۔‘

’آج دنیا میں سالانہ تقریباً ستر کروڑ ٹن گندم پیدا ہوتی ہے جس میں 95 فیصد ویٹ بریڈ ہوتی ہے۔‘

’ایمر‘ کی قسمت ’آئن کارن‘ سے بہتر تھی اور یہ قدیم مصریوں میں بھی کافی مقبول تھا اور فرعونوں کی تدفین کے وقت موت کے بعد زندگی کے لیے یہ بیج بھی ان کے مقبروں میں رکھا جاتا تھا۔

گندم کی فصل کا مستقبل اب انسانوں کے ہاتھ میں تھا

ترکی کے ان پہاڑوں میں ایک بار انسانوں کی نظر میں آنے کے بعد اس ’گھاس‘ کے ارتقائی عمل کی چابی انسانی ہاتھوں میں تھی۔

میدانوں میں بیج چنتے انسان کو یہ بات سمجھ آگئی کہ اس بیج کو پیس کر اس سے حاصل ہونے والے سفید پاؤڈر کو گوندھ کر اس سے توانائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم آج چکی سے آٹا حاصل کر لیتے ہیں اور اس سے روٹی بنا لیتے ہیں۔

ایک بار اس ’گھاس‘ کی طاقت جب انسان کو سمجھ آ گئی تو وہ جہاں گیا اسے ساتھ لے کر گیا۔ ترکی کے پہاڑی سلسلوں سے یہ بیج انسانوں کے ساتھ سفر کرتا دنیا کے کونے کونے میں پھیل گیا۔

گندم کے لیے زراعت نے سب کچھ بدل دیا۔ اس کی فصل کا اب دھیان رکھا جا رہا تھا۔ اس کے بیج احتیاط سے بوئے جا رہے تھے۔ زمین میں اس کے مقابلے میں پیدا ہونے والے پودے اور جڑی بوٹیاں صاف کی جانے لگی تھیں۔ ضرورت پڑنے پر پانی بھی دیا جاتا تھا اور ایک فصل کے بعد اگلے سال کے لیے اس کے بیج بھی محفوظ کیے جا رہے تھے۔

یہ احساس کہ گندم بھی تجارت کی ایک جنس ہو سکتی ہے، زراعت میں بہت سی تبدیلیوں کی وجہ بنی۔ انسان کی اپنی زندگی بھی بدل گئی۔ پہلے جہاں ایک وقت سے دوسرے وقت کی خوراک لانے کی جدوجہد تھی اب وہ زیادہ خوراک پیدا کر کے جمع کرنے کی پوزیشن میں تھا۔ جو انسان صرف اپنے یا اپنے خاندان کے لیے خوراک کا بندوبست کرتا تھا اب پورے گروہ کے لیے خوراک پیدا کرنے کے قابل ہو گیا تھا۔

لیکن اس سب کے لیے زیادہ ہاتھ ضروری تھے اور زبنسکی لکھتی ہیں کہ عین ممکن ہے کہ مزدوری کے کئی درجے بھی زراعت کی شروعات کے ساتھ ہی پیدا ہو گئے ہوں۔

’مغربی ایشیا میں سنہ 9500 سے 7500 قبل مسیح کے درمیان کھیتی باڑی اور جانور پالنے کے پہلے دو ہزار برسوں میں زمین پر انسانی آبادی میں دس گنا اضافہ ہوا۔ اب انسانوں کے لیے مناسب مقدار میں کاربو ہائیڈریٹ تک رسائی ممکن ہو گئی تھی اور ہر وقت چھوٹے بچوں سمیت خاندان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جانے کی ضرورت ختم ہو گئی تھی۔ دیہاتوں اور آبادیوں کے بڑھنے کے ساتھ لوگ دجلہ و فرات کے کنارے سے نقل مکانی کر کے اناطولیہ میں جا بسے جو آج کل ترکی کا علاقہ ہے۔‘

زبنسکی لکھتی ہیں کہ ’یہ محض اتفاق نہیں کہ ہماری پہلی تہذیبوں اور شہروں کی بنیاد ’گھاس‘ کے کسی ایک بیج (گندم، بارلے، رائی، چاول اور بعد میں مکئی) کی بنیاد پر رکھی گئی تھی۔‘

گندم، دولت، شہر اور سلطنتیں

انسانوں نے شہر کیوں بنائے اس کے بارے میں بہت سی آرا ہیں۔

زبنسکی بتاتی ہیں کہ تحقیق کی بنیاد پر ایک خیال یہ ہے کہ موسم میں تبدیلی کے ساتھ علاقے میں پانی کی کمی واقع ہوئی اور اس کے نتیجے میں خوراک کی کمی۔

’خوراک کی کمی میں لوگ کسی سیاسی اتھارٹی اور منظم ریاست کو قبول کرنے کے لیے زیادہ تیار ہوتے ہیں جو انھیں خوراک کی پیداوار اور فراہمی کا نظام بنا کر دیتی ہے۔ اور منظم فوج ایسی ریاست کے باسیوں کو تحفظ بھی فراہم کرتی ہے اور کنٹرول بھی۔‘

’گندم اور اس کو پیدا کرنے کی ہماری صلاحیت نے اتنی مقدار میں خوراک کی پیداوار ممکن بنائی جس سے ریاستوں اور طاقتور حکومتوں کا وجود ممکن ہوا۔‘

زبنسکی لکھتی ہیں کہ فرات کے کنارے پہلا بڑا آبی نظام جس کے واضح شواہد موجود ہیں پانچ ہزار برس قبل مسیح میں بنا تھا۔ اس کے لیے ہزاروں گھنٹوں کی لیبر درکار تھی۔ اس آبی نظام کا نتیجہ اضافی خوراک تھی اور اس کے دو نتائج تھے: آبادی اور تجارت میں اضافہ۔

’لبنان سے لکڑی اور آج ترکی میں شامل علاقوں سے تانبا وہاں آنے لگا اور خانہ بدوشوں سے جانوروں اور کھالوں کا تبادلہ ہونے لگا۔ تجارت کا نتیجہ یہ بھی تھا کہ لوگوں نے خوراک کے ساتھ تبادلے کے لیے چیزیں بنانا بھی شروع کر دیں۔‘

انھوں نے کچھ ماہرین کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ریاست زرعی ضروریات کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔ لیکن زراعت کے لیے ضروری ڈھانچے پہلے سے وجود میں تھے جب لوگ اپنی ضرورت کے مطابق چھوٹے پیمانے پر نہریں کھودتے تھے۔ ریاست کی سرپرستی میں کسانوں کے لیے ضروری تھا کہ اب وہ سب کے لیے اناج پیدا کریں۔ ’زرعی زمین کی ملکیت سمیر والوں، یونانیوں اور رومیوں کے لیے بھی اتنا ہی بڑا سوال تھا جتنا آج کے لوگوں کے لیے۔‘

زبنسکی لکھتی ہیں کہ سمیر کی تہذیب کے تین ہزار قبل مسیح کے لینڈ ریکارڈ بتاتے ہیں کہ کئی خاندانوں کو اتنی زرعی زمین الاٹ ہوتی تھیں جو وہ خود سے کاشت نہیں کر سکتے تھے۔ اس طرح کچھ خاندانوں کے لیے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دولت جمع کرنا ممکن تھا۔

زمانہ قدیم کے کسان تاریخ میں گم ہو گئے

لیکن زمانے قدیم کے پہلے کسانوں کی زراعت کا طریقہ کیا تھا اور وہ کیا کھاتے تھے، اس کا اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ کم سے کم اس دور تک جب لکھائی شروع نہیں ہوئی تھی اور جب لکھائی شروع بھی ہو گئی، زبنسکی کہتی ہیں، اس کے بعد کا ریکارڈ بڑی تہذیبوں کے بارے میں تھا جہاں بڑے پیمانے پر منظم کاشت کاری ہوتی تھی۔ انسانوں کی اکثریت جو پہلی شہری سلطنتوں، جمہوریتوں اور سلطنتوں کے دائرہ اختیار سے دور رہتی تھی، ان کی ان تحریروں میں نمائندگی کم ہی تھی۔

روز مرہ زندگی کا پہلا تحریری ریکارڈ تین ہزار سال قبل مسیح میں دجلہ و فرات کے کنارے سمیر کی تہذیب سے ملتا ہے۔ یہاں سے ملنے والی مٹی کی تختیوں پر کاشت کا طریقہ کار، خوراک کے اجزائے ترکیبی اور حساب تفصیل سے درج ہیں۔ ’وہ سب کچھ درج ہے جو آپ کاغذ کی پرچی پر نوٹ کرتے ہیں۔‘

’بڑی شہری آبادی کے لیے سالانہ بنیادوں پر خوراک کا بندوبست کرنے کے لیے منظم کاوش کی ضرورت تھی۔ اس کے ساتھ خراب فصل والے برسوں کے لیے خوراک ذخیرہ کرنے کا بندوبست بھی ضروری تھا۔‘

مٹی کی ان تختیوں پر یہ بھی درج تھا کہ ’فصل کی دو قطاروں میں کتنا فاصلہ ضروری ہے، ایک قطار میں بیجوں کی مناسب تعداد کیا ہے اور وہ کتنی گہرائی میں ڈالے جانے چاہئیں۔‘

سمیر کی کاشت کاری اپنے ڈیموں اور نہروں کی وجہ سے مشہور تھی۔ یہاں دریا کے اوپر کے ان علاقوں کے مقابلے میں کم بارش ہوتی تھی جہاں زراعت کی شروعات ہوئی تھی اس لیے یہاں لوگ موسم بہار میں پانی جمع کر لیتے تھے جسے پھر وہ بعد میں فصلوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔

خوراک کے بڑھتے ہوئے ذرائع کے ساتھ انسانوں کی آبادی بھی بڑھتی گئی اور زیر کاشت زمین میں اضافے کے ساتھ ساتھ بیج اور افرادی قوت کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔

’گھاس جو ہمارے بزرگ روٹی، دلیے اور نشہ آور مشروب کے لیے اُگاتے تھے ہماری زندگی کا اس طرح حصہ بن گئی کہ اس کی پیداوار میں اضافے کی خواہش نے نئی نئی ٹیکنالوجی اور کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے لیے استحصال کے نئے نئے طریقے اپنائے۔‘

سامراج کی کہانی میں گندم کا کردار

گندم سامراج کی کہانی کا بھی حصہ ہے کیونکہ، زبنسکی کے مطابق، حالیہ صدیوں میں یورپ والوں نے نئے علاقوں کا رُخ کیا تو اپنی پسند کی خوراک کے لیے اکثر اس کے بیج ان کے ساتھ گئے۔

’اس وقت بھی آج کی طرح معاشرے میں امیر اور بااختیار لوگوں کی تعداد بہت کم تھی۔ اور یورپی زرعی نظام میں خوراک کا پیداواری نظام بھی امیروں اور غریبوں میں تفریق کرتا تھا۔ غریب کسان کے پاس اپنی زمین کاشت کرنے کے وسائل نہ ہونے کی صورت میں انھیں اشرافیہ کی زمینوں پر کام کرنا پڑتا تھا اور وہ اناج پیدا ہوتا جس سے سفید آٹا ملتا تھا۔ اس سے ڈبل روٹی بنتی تھی جو امیر لوگوں کے شوربوں کے ذائقے جذب کر سکتی تھی۔ ان نوابوں کے لیے یہ معمول کی بات تھی لیکن ان کے کھیت مزدور اس نعمت سے محروم تھے۔‘

یورپ کے لیے نئی دنیا کھل رہی تھی جس نے اپنے وسائل اور بحری صلاحیتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے شاہی خاندانوں کے لیے نئے علاقے فتح کیے۔

امریکہ کا ذکر کرتے ہوئے زبنسکی لکھتی ہیں ’لیکن یورپی سامراجیوں کو ان نئے علاقوں کے طریقوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اپنے آلات اور جانور ساتھ لے کر آئے۔ لیکن زمین کی زرخیزی قائم رکھنے کے لیے یہاں بھی احتیاط سے زمین استعمال کرنے کی بجائے یہاں انھوں نے وسیع علاقے پر ہر سال ایک ہی فصل کاشت کی اور پھر اسے ترقی یافتہ دنیا میں برآمد کیا۔۔۔ زمین اس وقت تک استعمال کی گئی جب تک اس کی زرخیزی ختم نہیں ہوئی۔ سامراجیوں کو نئے علاقوں کی مقامی آبادی کا لحاظ نہیں رہا اور ایک جگہ پر زرخیزی ختم ہونے کی صورت میں نئے علاقے صاف کر لیے جاتے۔‘

گندم نے بحرِ اوقیانوس تو پار کر لیا لیکن یہاں کا موسم اس کے لیے ٹھیک نہیں تھا۔ یہ وہاں کچھ مقامات پر ہی کاشت ہو سکتی تھی۔

’شمالی نصف کرہ میں گندم سنہ 1660 میں یورپ سے پیوریٹن مسیحیوں کے ساتھ آئی۔ اس کے بیج برطانیہ کی سردی برداشت کر گئے لیکن نیو انگلینڈ کی شدید سردی نہیں برداشت کر سکے۔ سنہ 1665 میں زیادہ تر فصل تباہ ہو گئی۔ پہلے آبادکاروں نے بہت کم گندم کاشت کی لیکن ایسا نہیں کہ انھوں نے کوشش نہیں کی۔‘

ماہرین کہتے ہیں کہ گندم کی نئی دنیا میں غیر متاثرکن کارکردگی حیران کن نہیں تھی لیکن یہ ’متاثرکن‘ بات تھی کہ ایک بار اوقیانوس کے پار پہنچنے پر بالآخر یہ بر اعظم شمالی امریکہ میں پھیل گئی اور مشرقی ساحل سے مغربی ساحل تک اس کی کاشت ہوئی۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟

’یورپ سے سولہویں صدی میں پیوریٹن جو بیج ساتھ لے کر آئے تھے وہ بریڈ ویٹ تھا جو آٹھ ہزار سال پہلے گندم کی قسم ایمر ویٹ میں تبدیلی سے وجود میں آیا تھا۔ لیکن اب یہ بریڈ ویٹ خود مختلف قسموں میں بدل چکا تھا جن کی اپنی اپنی خصوصیات تھیں۔ یہ قسمیں سپرنگ ویٹ اور ونٹر ویٹ، سرخ گندم اور سفید گندم، سخت گندم اور نرم گندم تھیں۔‘

اس دوران یورپ اس زمانے سے جب نوے فیصد لوگ کھیتی باڑی سے وابسطہ تھے صنعتی انقلاب کے اس زمانے میں داخل ہو گیا جہاں طرز زندگی بالکل بدل چکا تھا۔ اب شہری آبادی کے لیے خوراک کی ضرورت تھی اور اناج صرف ضرورت کی نہیں بلکہ منافع کمانے کی چیز بھی بن چکا تھا۔

گندم امریکہ اور عالمی جنگ

زبنسکی کہتی ہیں کہ امریکہ سنہ 1941 میں جاپان کی پرل ہاربر پر بمباری اور جرمنی کے امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کے بعد دوسری عالمی جنگ میں شامل ہوا۔ ’شمالی امریکہ کے گندم کے کھیتوں کے لیے یورپ میں اس جنگ کا مطلب تھا کہ اب امریکہ اور کینیڈا کی گندم کو جتنی بھی پیداوار ہو ایک منڈی مل گئی تھی۔ گندم کے وہ کھیت صرف امریکی شہریوں کا ہی نہیں بلکہ امریکی فوج کے ساتھ برطانیہ، سوویت یونین اور چین کی بھی مدد کر رہے تھے۔‘

اس کا نتیجہ زبنسکی بتاتی ہیں یہ نکلا کہ امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی طرف سے یورپ کے جنگ زدہ ملکوں کو گندم کی فراہمی سے یہ شعبہ ’گریٹ ڈپریشن‘ سے باہر آ گیا۔ ’امریکہ میں عالمی جنگ کے دوران ایک فارم کی پیداوار میں 150 فیصد اضافہ ہوا۔

سنہ 1940 کی دہائی کے بعد خوراک کی پیداوار میں مسلسل اضافے سے امریکہ کی خوراک کی برآمدات عالمی فوڈ سکیورٹی کا اہم حصہ بن گئیں۔‘

زبنسکی لکھتی ہیں کہ امریکہ کو احساس تھا کہ کمیونزم کے مقابلے کے لیے فوجی طاقت کے ساتھ ساتھ غیر ترقی یافتہ ممالک کی اقتصادی ترقی بھی ضروری ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ دنیا میں امن کی کوششوں کے آغاز کے لیے گندم کے استعمال کی ایک مثال امریکہ کی میکسیکو میں کوشش سے ہوئی جن کا مقصد ’میکسیکو کو خوراک کی پیداوار میں خود کفیل کرنا تھا۔‘

مزید پڑھیے

پاکستان میں گندم کے بحران کی وجہ غلط اندازے ہیں؟

پاکستان میں گندم، چینی اور کپاس کی بیک وقت درآمد کی وجوہات کیا؟

پاکستان میں گندم بحران: جب 25 سے زیادہ افراد کو دعوت پر بلانا ممنوع قرار دیا گیا

اس کام کے لیے نارمن بورگ کو چنا گیا جن کا پہلا کام گندم کے ایسے بیج کی تیاری تھا جو میکسیکو میں اسے لگنے والی بیماری سے بچائے۔ وہ اس میں کامیاب رہے۔ انھیں سنہ 1970 میں امن کا نوبل انعام دیا گیا۔

لیکن ایک طرف اگر نارمن کی تیار کی گئی گندم کی قسم نے زیادہ پیداوار دی تو دوسری طرف ان کی وجہ سے گندم کی بڑے پیمانے پر کمرشل مقاصد کے لیے پیداوار کا رجحان قائم ہوا جس نے چھوٹے یا عام کسان کو بہت نقصان پہنچایا جو صرف اپنی ضرورت کے لیے گندم پیدا کرتا تھا۔

’بہت سے لوگوں کے لیے سبز انقلاب کی کہانی کامیابی کی کہانی نہیں بلکہ سرمائے کی طاقت پر بڑے پیمانے پر ہونے والی کاشتکاری ہے جس نے بہت سے لوگوں کا روایتی طرز زندگی ختم کر دیا۔ چھوٹے زمیندار ختم ہو گئے، میکسیکو سٹی جیسا شہر نئے آنے والوں سے بھر گیا اور اسی طرح بڑی تعداد میں لوگ امریکہ کا رخ کرنے پر مجبور ہو گئے۔‘

’فیملی فارم اور گاؤں کا خاتمہ بہت سے لوگوں کے لیے تکلیف دہ تھا۔ لیکن اس نے لوگوں کو آزاد بھی کیا کہ وہ کھیتوں سے دور کوئی زندگی تلاش کر سکیں۔ کچھ کے لیے شہروں میں بسنے اور پیسہ کمانے کے مواقعوں میں کشش تھی۔‘ لیکن وہ کہتی ہیں یہ امریکہ جیسی طاقتور معیشت کے لیے تو ٹھیک تھا لیکن دوسرے ممالک میں مہنگی کھاد اور پانی اور مشینی کاشتکاری کا مطلب تھا کہ بہت سے لوگوں کا روزگار ختم ہو گیا۔‘

جاپان کا گندم کا بیج جس نے کھاد سے پیدا ہونے والا مسئلہ حل کیا

عالمی جنگ کے بعد اسلحہ کی پیداوار کم ہوئی تو سوال پیدا ہوا کہ بچ جانے والے یا اب ضرورت سے زیادہ امونیم نائٹریٹ کا کیا جائے۔ زبنسکی لکھتی ہیں کہ اس سے اب کم خرچ کیمیائی کھاد بنائی گئی۔ لیکن اس میں بھی ایک مسئلہ تھا اور وہ یہ کہ گندم کے زیادہ دانوں کی صورت میں اس کی ٹہنی ان کے بوجھ سے جھک سکتی ہے اور اس صورت میں اسے چننا مشکل ہو جاتا ہے۔ ’اس کا مطلب تھا کہ کھاد کا زیادہ استعمال دراصل پیداوار کم کر سکتا ہے۔‘

اس مسئلے کا حل کہانی کا رخ جاپان کی طرف موڑ دیتا ہے۔ ’وہاں گندم چین سے کم سے کم دو سو قبل مسیح میں آئی تھی۔‘ زبنسکی لکھتی ہیں کہ جاپان میں کسان لمبے عرصے سے چاول اور گندم ایک ہی کھیت میں کاشت کر رہے تھے اور ان کے پاس گندم کا ایسا بیج تھا جس سے اس کی ٹہنی بہت اونچی نہیں ہوتی تھی اور اس لیے اس کا دانوں کے بوجھ سے جھکنے کا امکان بھی کم تھا۔ ’یہ بیج تھا نورین 10‘ جو سنہ 1946 میں جاپان سے امریکہ آیا۔

گندم پر انسانیت کا بوجھ

لیکن گندم کی کہانی میں زبنسکی کو امید کی کرن بھی نظر آتی ہے۔ ’پھر ایک دور آیا جب خوراک کی سیاست کو اپنی فوج کی مدد اور دشمن کو بھوک کا شکار کرنے کے لیے استعمال کرنے کی بجائے غور کیا جانے لگا کہ اس کو جنگ سے بچنے کے لیے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘

’دوسری عالمی جنگ کے بعد اس سوچ کو اقوام متحدہ کی طرف سے سنہ 1945 میں بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ خوراک اور بھوک کہیں پر بھی ہر ملک کی ذمہ داری ہیں۔‘

گندم پر تمام انسانیت اور جانوروں کے لیے بھی خوراک پیدا کرنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ سنہ 2019 میں زمین پر 538 ملین ایکڑ پر گندم کاشت کی گئی تھی۔ امریکہ میں ایک اوسط فارم کا سائز چار سو ایکڑ ہے اور یورپ میں یہ چالیس ایکڑ ہے۔ لیکن دنیا بھر میں کیلوری کی نصف سے زیادہ ضرورت بارہ ایکڑ یا اس سے کم سائز کے کھیت سے پوری ہوتی ہے۔

وہ لکھتی ہیں کہ ’سنہ 2050 میں ہماری آبادی نو ارب سے بڑھ جانے کا امکان ہے۔‘

انھیں ایک امید ٹیکنالوجی سے ہے۔ ’ہم نے انسانی جنین کی سکوئنسنگ سنہ 2003 میں مکمل کر لی تھی اور گندم کے بیج کی سکوئنسنگ سنہ 2018 میں زیادہ تر مکمل ہو گئی تھی۔ دونوں منصوبے ماہرین کی بڑی بڑی ٹیموں کی برسوں کی محنت اور فنڈنگ کا نتیجہ تھے۔‘

انسانی جینوم کو سمجھنے میں کامیابی کا انعام ورثے میں ملنے والی بیماریوں سے نجات کی امید تھی۔

زبنسکی بتاتی ہیں کہ ہر بیماری کا علاج تو ابھی نہیں ملا لیکن اس عمل میں اس طرح کے مختلف پراجیکٹوں پر کام کرنے کے لیے تکنیک کی سمجھ ضرور حاصل ہوئی۔ جہاں انسان نے خوراک کے لیے جنگیں لڑیں وہیں اب اس کی ضرورت پوری کرنے کے لیے مل کر بھی کام کر رہا ہے۔

وہ لکھتی ہیں کہ گندم کے جینوم کو سمجھنے میں کامیابی کے پیچھے 20 ممالک کی 73 ٹیموں کی کاوش شامل تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments