ہوسٹلائزرز کی وزیراعلی، گورنر پنجاب سے التجا


گزشتہ دنوں وٹس ایپ گروپ میں سال دو ہزار بائیس کا نظرثانی شدہ کرایہ نامہ موصول ہوا۔ یہ کرایہ نامہ جس ہاسٹل میں قیام پذیر ہوں وہاں کی انتظامیہ کی جانب سے بھیجا گیا تھا۔ اس حکم نامہ نما نوٹس کے مطابق اب ایک گیارہ بائی 14 فٹ کے کمرے کا کرایہ جو کہ پہلے 12500 تھا سے بڑھا کر 15 ہزار کر دیا گیا۔ 10 بائی 10 فٹ کے کمرے کا کرایہ بڑھا کر 11 ہزار 5 سو روپے کر دیا گیا ہے ۔

یہ کرایہ نامہ فوری طور پر نافذ العمل قرار دیتے ہوئے ناقابل رد و بدل بھی قرار دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ جس ہاسٹل کا میں ذکر کر رہا، وہاں سہولیات کے طور پر وائی فائی (جو اپنی مرضی سے چلتا ہے ) ، صاف پانی (فلٹر پتہ نہیں کب تبدیل ہوتا ہے ) ڈسپنسر بھی میرے لاہور سے روانگی ہوتے تک تو خراب تھا۔

اس کے علاوہ واش رومز کی صفائی (جو کہ ایل ڈبلیو ایم سی کے خاکروب) کا ذمہ انتظامیہ کے پاس ہے۔ باقی میٹرس یا بیڈ حاصل کرنے کے الگ سے چارجز وصول کیے جاتے ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ پانی کی ٹینکی کبھی فل بھری نہیں ہوتی اور اکثر رات گئے یا دن میں پانی ایسے نایاب ہوتا ہے جیسے ہماری سیاست میں ایمانداری نایاب ہے۔

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ نافذالعمل کرایہ نامہ ایسے ہی ہے جیسے کسی سزائے موت کے قاتل کو قتل کی سزا سنا کر پین کی نب توڑ دی جاتی ہے۔ یہ وہ فیصلہ کہ جس کی اپیل کے لئے آپ کسی ہائی کورٹ، سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کر سکتے۔ بس کورا سا جواب دے کر کمرہ خالی کرنے کا حکم صادر کر دیا جاتا ہے۔

اب جو طالب علم یا نوکری پیشہ شخص محفوظ یا پرسکون چھت کے نیچے زندگی گزار رہا ہوتا ہے، اسے سب چھوڑ چھاڑ کر نئے سرے سے کسی نئی چھت کی تلاش میں ذلیل ہونا پڑتا ہے۔ پاکستان بھی نرالا ملک ہے جہاں جو لوٹتا ہے تو تجوریاں بھر بھر کر لوٹتا ہے جو لٹتا ہے تو گھر کے برتن بکنے تک لٹتا رہتا ہے۔

یہاں غریب کی ریڑھی کو تجاوزات کے نام پر تو اٹھا لیا جاتا ہے مگر کسی سیٹھ، کسی بزنس مین کی جانب سے ہڑپ کیے جانے والے مرلوں پر بننے والے شاپنگ پلازوں کا افتتاح بھی وزراء، ڈی سی او صاحبان کر رہے ہوتے ہیں۔ میں اکثر تحریروں میں اپنے قصے اپنی آپ بیتیاں بیان کر جاتا ہوں۔ جس پر شاید مدیر صاحبان کو بھی برا لگتا ہو، مگر یہ کسی ایک ہاسٹل ایک فرد کا قصہ نہیں ہوتا۔

لاہور ہو یا راولپنڈی، اسلام آباد، ملتان ہو یا ڈیرہ غازیخان، ہر جگہ ہی پسنے والا ہے تو نوکری پیشہ یا طالب علم۔ آخر کیسے ایک طالب علم یا نوکری پیشہ پانچ ہزار روپے فی سیٹ کیسے برداشت کرے گا؟ اس مہنگائی کے دور میں جہاں دوسرے اخراجات پورے کرنے ہی ناقابل برداشت ہیں وہاں یہ افتاد کیسے برداشت کے قابل ہوگی؟ 2011 میں جس کمرے، جس ہاسٹل کی فی سیٹ کا کرایہ 1500 سے 3 ہزار تک تھا اب وہ 3500 سے 5 ہزار تک پہنچ چکا ہے۔

میں جس ہاسٹل میں رہتا تھا اس کا 2015 میں کرایہ بڑھ کر 5 ہزار ہوا۔ پھر 7500 سے بڑھ کر 2020 میں 9 ہزار ہوا۔ 2021 میں 12500 ہوا اور اب 15 ہزار روپے کا حکم نامہ صادر ہو چکا ہے۔ اب سوال تو یہ ہے کہ جو جو افراد رہائشی بلڈنگز ٹھیکے پر لے کر انہیں ہاسٹلز میں منتقل کرتے ہیں۔ ان پر کیا کسی قانون، کسی ٹیکس کا اطلاق ہوتا ہے؟ میرے نزدیک یا میرے علم میں تو آج تک ایسی کوئی بات نہیں آئی ہے۔

آخر کرائے کے نام پر لوٹی جانے والی یہ رقم قومی خزانے کا حصہ کیوں نہیں بن رہی ہے؟ کیوں ریاست کے اندر ہر کسی نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی ریاستیں بنائی ہوئی ہیں؟ جہاں نہ ہی کوئی سوال کر سکتا نہ ہی آواز بلند کر سکتا ورنہ اس جرم میں دیس نکالے کی سزا ملتی ہے۔ ان کا ایسا ایک اتحاد ہے کہ آپ کو ڈھونڈنے سے بھی بڑے شہروں میں ان کے طے کردہ نرخ سے کم کمرہ یا مکان نہیں ملتا ہے۔

میری وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار، گورنر پنجاب چودھری سرور، فوکل پرسن وزیر اعلی اظہر مشوانی اور دیگر حکام سے درخواست ہے کہ خدارا ان کو کسی ٹیکس نیٹ کسی قانون کے تحت لائیں۔ خدارا میرے جیسے اور ہزاروں لوگوں کا سہارا بنیں۔ ہماری التجا پر یا تو قانون سازی کریں یا پھر ریگولیٹر اتھارٹی بنا کر یہ بے بہا بے حساب کرائے اور اجارہ داری کا خاتمہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments