ارتقا کے سفر میں مسلمان الٹے پاؤں


دنیا بھر میں پیروی کیے جانے والا ہر مذہب دوسرے مذہب سے مختلف ہے، سب کی معتبر اور معترض شخصیات بھی مختلف ہیں۔ ہر مذہب کا پیروکار کہتا ہے کہ میرا خدا دوسرے مذہب سے جدا ہے اور ہر دوسرا مذہب اپنے خدا کے علاوہ دوسرے تمام خداؤں کو جھوٹا مانتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس دنیا میں تقریباً 4200 ادیان ہیں تو یعنی کہ کم و پیش 4200 خدا۔ اب ذرا بات کرلیتے ہیں ان مذاہب کی جن کا شمار آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چند بڑے مذاہب میں ہوتا ہے۔

اس فہرست میں سب سے پہلا نام عیسائیت ہے۔ یہ مذہب ایک خدا پر تو یقین رکھتا ہے مگر ان کے مطابق اس خدا کا ایک بیٹا بھی ہے جس کا نام عیسیٰ ہے۔ اب اس نظریے کہ مطابق اس مذہب کے پیروکار مذہب اسلام کے پیروکاروں کے سامنے کافر و مشرک ہے۔

اس کے بعد بات کرتے ہیں ہندو ازم کی کہ جس میں کسی ایک خدا کا تصور نہیں پایا جاتا ساتھ ہی یہ مذہب بہت سی کتابوں کو آسمانی بھی تصور کرتا ہے، ہندو مت کے ماننے والوں کے نزدیک گائے ماں کا درجہ رکھتی ہے اب اگر ہم اسے مسلمانوں کے نظریے سے دیکھیں تو گائے کو ذبح کر کے اس کا گوشت کھانا حلال سمجھا جاتا ہے۔

اب باری آتی ہے یہودیت کی۔ یہودیت کا نظریہ توحید بھی توحید کے اعتبار سے عیسائیت کے جیسا ہے جس میں خدا کی وحدانیت پر ایمان ہے۔

یہ تمام باتیں نئی نہیں، بلکہ زیادہ تر لوگ ان باتوں کا علم رکھتے ہیں پھر آخر کیا وجہ تھی کہ اس جانب روشنی ڈالی جا رہی ہے؟ وہ کیا نقطہ ہے جو ہم نظر انداز کر رہے ہیں؟ بیان کردہ ہر مذہب میں دوسرے مذہب کی رد چھپی ہے، ہر مذہب میں عقیدہ خدا جدا جدا ہے۔ مسلمان ہونے کے اعتبار سے سب ہی مشرک سب ہی کافر۔ اب پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں جہاں آئے روز کسی پر توہین مذہب کا الزام لگا کر قتل کر دیا جاتا ہے۔

ذرا دنیا میں موجود 4200 مذاہب کی جانب نگاہ کریں اگر یہ پالیسی ہر مذہب اپنا لے اور ایک دوسرے کے قتل کے درپے ہو جائیں تو کون باقی رہے گا؟ ہر مذہب دوسرے مذہب پر حملہ آور ہو سکتا ہے کہ ہم جسے اپنا خدا جانتے ہیں تم اس کو وہ رتبہ نہ دے کر اس کی توہین کر رہے ہو؟ کسی ایک مذہب کے نزدیک کوئی عمل اگر توہین کے زمرے میں آتا ہے تو ضروری نہیں کہ دوسرے مذہب کے نزدیک بھی وہ توہین ہو۔ اگر ایک مذہب کے نزدیک کوئی گراں قدر ہستی ہے تو یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ دوسرے مذاہب کے نزدیک اس شخصیت کی وہ اہمیت نہ ہو۔

رہی بات توہین رسالت کی تو اس بات کا فیصلہ مسلمان نہیں بلکہ ان کا تھا جن کی شریعت پر مسلمان عمل پیرا ہیں اور وہ ایک ہی ذات ہے جسے رحمت اللعالمین بنا کر دنیا میں بھیجا گیا، جو اصل منبع اسلام ہے۔ جس کے کردار کے روشن چراغ سے متاثر ہو کر آج بھی لوگ مذہب اسلام میں داخل ہوتے اور اس سے استفادہ حاصل کرتے ہیں۔ وہ ذات محمد مصطفٰی اپنی زندگی میں ہی قانون بنا گئے کہ جب ایک عورت معمول کے مطابق ان پر کچرا پھینکا کرتی بھلا اس سے بڑھ کر کیا توہین ہو سکتی تھی؟

فیصلہ لکھ دیا گیا ہمیشہ ہمیشہ کہ لیے۔ قانون بن چکا۔ اسے رد کر کے کوئی نیا قانون یا فیصلہ سنائے گا تو اسے ذاتی سمجھا جائے گا اور ذاتی قانون سازی کا مذہب یا شریعت محمدی ص سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ دور حاضر کے مسلمانوں کی یہ حالت کی وجہ فقط ایک ہی ہے کہ ان میں سے اصل اسلام نکال کر مولوی کا اسلام داخل کر دیا گیا ہے جس سے آج سارے عالم میں اسلام انسانیت کے مدمقابل دکھائی دے رہا ہے۔

یہ اکیسویں صدی ہے میرے دوستوں یہاں حق بات منوانے کے لیے علم و دلائل کا سہارا لینے والے کی ہی جیت ہوتی ہے نہ ہی کسی کمسن غیر مسلم لڑکی سے جبری طور پر شادی کر کے مسلمان کرنے سے تمہارے مذہب کی حقانیت ثابت ہوگی اور نہ ہی ناموس نبی ص کے نام پر کسی انسان کو زندہ جلا کر نبی کی عظمت و بزرگی۔

اس دنیا میں مختلف رنگ نسل مذہب سے وابستہ لوگوں کی مثال ایک گلستان کی سی ہے جہاں مختلف درخت مختلف پھول اور پھل دیتے ہیں، سب کی خوشبو اور ذائقہ بھی مختلف ہوتا ہے اور یہ سب مل کر ہی ایک گلستان کو مکمل بناتے ہیں۔ اختلافات اگر دستک نہ دیں تو علم کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے اور ان دروازوں کے پیچھے رہ جانے والا انسان ایک بنجر اور مفلوج ذہن کے ساتھ زندگی گزارے گا۔ جہاں علم ہو گا وہاں حلم بھی ہو گا، بنائے علم بربادی و گمراہی کے سوا کچھ نہیں باقی رہتا۔

ہم رشتہ انسانی کے تحت آپس میں جڑے ہوئے ہیں، اس رشتے کو علم، اختلاف رائے کے احترام اور گفتگو کے ذریعے آگے بڑھانے میں ہی سب کی بھلائی ہے، ورنہ شہر اور جنگلوں میں صرف درختوں، سڑکوں اور گھروں کا فرق باقی رہ جائے گا بسنے والے جانور ہی کہلائیں گے۔ کیا اچھی بات کوئی بزرگ فرما گئے کہ ہر انسان دوسرے انسان کے بنائے گئے ذہنی سانچے میں ڈھل ہی نہیں سکتا، طبیعتوں کا اختلاف فطری امر ہے البتہ برداشت اور احترام انسانی اختیار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments