بتیس ہزار لاہوریوں کا نون لیگ کو جواب


این اے ایک سو تینتیس میں بتیس ہزار سے بھی زیادہ لاہوریوں نے ’ووٹ کو عزت‘ نہیں دی۔ مخالف امیدوار کو پڑنے والے یہ ووٹ نون لیگ کے بیانئے یا سیاسی حکمت علمی کی ناکامی نہیں تو پھر کیا ہے؟ کیا نون لیگ کی قیادت اور خصوصاً مریم نواز کے پاس اس ناکامی کا کوئی جواب ہے؟

عین ممکن ہے کچھ لوگ اسے مبینہ دھاندلی کے کھاتے ڈالیں یا کچھ ان میں سے دیگر جماعتوں کی جانب سے نون لیگ کے خلاف بھرپور معاونت کو نتیجے کا ذمہ دار بتائیں۔ وجہ جو بھی ہو، مگر حقیقت میں یہ سب بہانے ہیں۔ سچائی دیوار پر لکھی ہے اور اسے نا پڑھنے یا دیکھنے والا عقل اور آنکھوں دونوں کا اندھا ہے۔ لاہور جیسے شہر میں صرف ایک انتخابی حلقے میں، اتنی کم ٹرن اوور کے باوجود بتیس ہزار ووٹ کوئی معمولی واقعہ نہیں۔

دراصل دو ہزار تیرہ کے بعد سے نون لیگ کو مسلسل ایک ایسے چیلنج کا سامنا ہے جس کو حکمت عملی اور دانائی سے نیوٹرل کرنے میں یہ جماعت آج دن تک ناکام دکھائی دیتی ہے۔ لاہور شہر جہاں مشرف کے بدترین مارشل لاء میں بھی ن کو ہرانا ممکن نہیں تھا، اس وقت تین سیٹیں پی ٹی آئی کے پاس ہیں اور ان ضمنی انتخابات میں بھی بتیس ہزار لوگ نون لیگ کی مخالفت میں کھڑے ہیں۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اپنے تینوں ادوار میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام لاہور میں کروانے اور سے اپنی کارکردگی کے شو پیس کے طور پر پیش کرنے کے باوجود اسی شہر کے لوگ ان کے بیانئے سے متفق نہیں۔ کیوں؟

پیپلز پارٹی کا سابقہ دور حکومت ہو یا پھر انیس سو نوے کی دہائی ان کی برسراقتدار دونوں حکومتیں، کارکردگی کو معیار بنایا جائے اور خصوصاً لاہور میں کارکردگی کو تو پیپلز پارٹی کے پلے کچھ بھی نہیں۔ دو ہزار تیرہ پیپلز پارٹی کے لئے اس قدر ان لکی تھا کہ الیکشن ہارنے کے بعد لوگوں نے یہ طعنے دینا شروع کر دیے کہ جو کام جنرل ضیاء الحق اور مقتدر قوتیں تیس سال لگا کر نا کر سکیں وہ کام زرداری صاحب کی پانچ سالہ حکومتی کارکردگی نے کر دکھایا۔

ان ضمنی الیکشنز میں لاہور کے ووٹر نے واپس پیپلز پارٹی پر اعتماد کر کے بہت سے سنجیدہ سوال اٹھائے ہیں جن کا جواب نون لیگ کی قیادت کے لئے ڈھونڈنا نہایت ضروری ہے؟

کیا پیپلز پارٹی کا امیدوار اتنا تگڑا تھا کہ اس کی حمایت ناگزیر تھی۔ اگر ایسا تھا تو اس کا مطلب صاف ہے کہ لوگوں کے لئے ان کے چھوٹے چھوٹے گروہی مفادات اہم ہیں۔ لوگوں کے نزدیک کارکردگی، سیاسی جماعتوں کی معاشی پالیسیاں، اور گورننس اہم نہیں۔

اگر مسئلہ امیدوار کے تگڑا ہونے، اس کی برادری کی عصبیت اور انتخابی ہوشیاری چالاکیوں کا نہیں تو کیا ہم نون لیگ کے بیانیے کے اس پہلو کو ذمہ دار ٹھہرائیں جو ایک ہی وقت میں ایک سو اسی ڈگری پر کھڑا ہے۔ ایک طرف نون لیگ فوج کے سیاسی کردار اور ایجنسیوں کی پس پردہ ریشہ دوانیوں پر معترض ہے تو دوسری طرف شہباز شریف کے ذریعے اسی عطار کے لونڈے کے ترلے بھی لیتی ہے۔

ن لیگ کو یہ سوچنا ہو گا کہ ان کے پیغام کو بتیس ہزار لوگوں نے مسترد کیوں کیا۔ اس سوال کا جتنی جلدی جواب یہ ڈھونڈ سکیں اتنا ہی اس کے سیاسی مستقبل کے لئے بہتر ہو گا۔ اگر ملک عزیز میں فیصلہ ووٹ نے کرنا ہے تو ووٹر کی سیاسی بالیدگی اور اپروچ ہی مسئلے کا حل ہے۔ جس پر توجہ نہایت ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments