صحرا میں بہار (2)


ہمارا یہ سفر خاصا طویل تھا۔ لق دق ویرانے میں جہاں کہیں کہیں سبزہ اور کھیت بھی نظر آ جاتے لیکن زیادہ تر تو زمین سیم اور تھور جیسے موذی امراض میں مبتلا نظر آئی جسے دیکھ کے میرا دل دکھ سے بھر جاتا تھا۔ سہ پہر کو ہم جس علاقے میں پہنچے وہ ایک چھوٹی سی آبادی تھی۔ یہ اسلام کوٹ کا علاقہ تھا۔ گاڑی یہاں روکی گئی تاکہ کچھ کھا پی لیا جائے۔ ہم لوگوں کے لیے یہ ماحول مختلف ہونے کے سبب دل چسپ تھا۔ ہماری گاڑی جہاں جا کے رکی وہ ایک بڑا سا آشرم تھا۔

اس کے احاطے میں کئی مندر بنے ہوئے تھے۔ یہ آشرم سنت نینو رام کے نام سے موسوم تھا۔ ان کے مہتممین کو جب علم ہوا کہ ہم کراچی سے آئے ہیں اور باہمی اخوت و رواداری جیسے قیمتی تحفے تھر کے لوگوں کے لیے لے جا رہے ہیں۔ وہ بہت متاثر ہوئے۔ انھوں نے اپنے مہمان خانے میں جو خاص مہمانوں کی آمد پر ہی کھولا جاتا ہے ، ہمیں لے جا کے بٹھایا۔ یہ ایک کشادہ کمرہ تھا۔ جس کا فرش مکمل طور پر قالین سے ڈھکا ہوا تھا۔ مندر کے خادمین نے ہم لوگوں کے آرام کے لیے تکیے بھی لا دیے کچھ لوگ جو زیادہ تھک گئے تھے وہ دراز ہو گئے ہم لوگ تھوڑی دیر وہاں بیٹھے پھر ہمیں کھانے کے لیے اسی احاطے میں آشرم لے جایا گیا ہم ایک صحن پار کر کے آشرم پہنچے۔

ہمیں اسی روایتی انداز سے کھانا کھلایا گیا جیسا کہ ہندو مذہب کا قدیم دستور ہے کہ کھانا رسوئی سے باہر نہیں کھلایا جاتا اور یہ کہ ہر شخص کی تھالی میں کھانا کھلانے والا کھانا پروستا ہے۔ مجھ سمیت سب نے پہلی مرتبہ اس طرح کھانا کھایا۔ کھانے میں دال، مکس سبزی، چاول، اچار اور حلوہ تھا۔ یہ وہاں کے خدمت گار گوپی چند نے پکایا تھا۔ سب کچھ مزے دار تھا۔

ہم نے مندر کے مہتممین سے پوچھا کہ کیا ہم کسی مندر کے اندر جا سکتے ہیں؟ انھوں نے کہا بالکل جا سکتے ہیں۔ تب ہم لوگ وہاں کے احاطے میں بنے ہوئے مندروں کے اندر گئے۔ ایک مندر جو ناگ دیوتا کا تھا اور پیتل کے بنے ہوئے بڑے سے ناگ دیوتا ایک چبوترے پہ براجمان تھے۔ مندر کے پجاری اور خدام نے ہمیں بتایا کہ یہاں سانپ آتے ہیں یہ سن کے میں نے اپنے ساتھیوں سے مذاق میں کہا کہ اگر یہاں سانپ آتے ہیں تو پھر یہاں سے نکلتے ہیں۔

پجاری جی نے میری یہ بات سن کے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ وہ سانپ کسی کو کچھ نہیں کہتے۔ میرا خیال ہے کہ شاید ناگ پنچمی کے تہوار کے موقع پر سانپ مندر میں آتے ہوں۔ میں نے ناگ دیوتا کے مندر کے دروازے پہ لگی ہوئی ایک بہت بڑی سی گھنٹی بھی بجائی۔ پیتل کی بنی ہوئی یہ گھنٹی خاصی بلندی پہ نصب تھی اور بہت وزنی بھی تھی۔ میرے ساتھیوں نے میری اس کوشش پہ نعرہ6 تحسین بلند کیا۔ ویسے گھنٹی بجانے کا کارنامہ ہمارے مشاعرے کی صدر محترمہ پروین حیدر اور ہمارے گروپ کی شاعرہ محترمہ لبنیٰ عکس نے بھی انجام دیا۔

ایک اور مندر وہاں شیو مہاراج کا تھا۔ وہاں ایک مندر بابا گرو نانک دیو کا بھی تھا جو سکھ مذہب کی بہت اہم شخصیت ہیں۔ یہ باتیں ہماری مذہبی رواداری کی علامت ہیں کہ یہاں آباد اقلیتوں کو اپنے مذہب کے مطابق رہنے بسنے اور عبادت کرنے کی آزادی ہے اور کیوں نہ ہو ہمارے پرچم کے سفید حصے کا مطلب ہی یہ ہے کہ یہاں ہر مذہب کے ماننے والے کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ ہر مذہب اپنے ماننے والوں کو رواداری اور دوسرے مذاہب کا احترام کرنا سکھاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اکثر لوگ مذہب کی تعلیمات پہ عمل نہیں کرتے۔

بابا گرو نانک کے نام سے منسوب مندر دیکھ کر ہندو مذہب کی رواداری کا بھی اندازہ ہوا کہ ہندو برادری نے اپنے آشرم کے احاطے میں جہاں اپنے دیوتاوٴں کے مندر بنا رکھے ہیں وہاں انھوں نے سکھ مذہب کی ایک اہم شخصیت کو بھی اس قدر احترام دیا کہ اپنے دیوتاوٴں کے مندروں کے قریب ہی ان کا مندر بنا دیا۔ ہندو مت میں انھیں گرو کہا جاتا ہے اور یہ ہندو مت میں بہت قابل احترام ہیں کیوں کہ ان کی پیدائش ہندو گھرانے میں ہوئی تھی۔

ہم لوگوں نے ہر جگہ گھوم پھر کے تصویریں، ویڈیوز اور سیلفیاں بنائیں۔ بہت الگ سا ماحول تھا۔ ہمارے لیے وہاں کی ہر چیز میں ندرت تھی۔ یہ سب کچھ وہ تھا جو اس سے پہلے ہم میں سے اکثر لوگوں نے صرف تصویروں میں ہی دیکھا تھا۔ وہاں لوگوں کی خاصی تعداد تھی۔ مردوں کا لباس تو تقریباً ہر جگہ ہی ایک جیسا ہوتا ہے لیکن خواتین تھر کے روایتی لباس میں تھیں جنھیں دیکھ کے بہت اچھا لگا۔ وہاں کچھ شادی شدہ جوڑے بھی مندر کو پرنام کرنے آئے تھے۔

خواتین تھر کے روایتی لباس اور زیورات میں سجی سنوری ہوئی اپنے انداز سے بہت منفرد نظر آ رہی تھیں۔ ہمارے کچھ ساتھیوں نے ان کے ساتھ تصویریں لیں اور ان سے بات چیت کی۔ جہاں ہمیں ان کا روایتی لباس اور پہناوا متاثر کر رہا تھا۔ وہیں وہ لوگ بھی ہمیں بہت غور سے دیکھ رہے تھے۔ تھر کی ان سیدھی سادی خواتین کی آنکھوں میں حیرت اور تجسس بھی تھا شوق اور پسندیدگی بھی۔ ہم لوگ اپنے لباس اور چال ڈھال کے اعتبار سے انھیں بہت مختلف اور انوکھے لگ رہے ہوں گے شاید اسی لیے وہ ہمیں اتنی حیرانی سے دیکھ رہی تھیں۔

پھر ہم لوگوں کو چائے کے لیے بلایا گیا۔ چائے گوپی چند کے معاون گوپال نے بنائی تھی۔ بہت زبردست چائے تھی۔ کھانے کے بعد اچھی سی چائے مل جائے تو صحیح معنوں میں کھانے کا مزہ آتا ہے۔ چائے پی کے سب لوگ فریش ہوئے اور گاڑی میں آ بیٹھے۔ ہمارا سفر پھر شروع ہو گیا۔ اب ہم اپنی منزل سے قریب تھے۔ سات آٹھ گھنٹے کا سفر ہم لوگ کرچکے تھے اور اب بھی سفر باقی تھا۔ ہمارے میزبان کے مطابق ہمارا سفر اب کچھ ہی دیر کا تھا اور ہم منتظر تھے کہ کب منزل پہ پہنچیں۔

(جاری)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments