قیمتی سوئس جوتا اور سابق افغان صدر کی گمنام لاش (2)


ایک یہ جہاں، ایک وہ جہاں
ان دو جہاں کے درمیان
بس فاصلہ ہے ایک سانس کا
جو چل رہی تو یہ جہاں
جو رک گئی تو وہ جہاں

قارئین آج میں آپ کو گزشتہ کالم کے آخری حصہ کی طرف لے چلتا ہوں، ظالم جب ظلم پر کمر کستا ہے تو اس کا جواز گھڑنے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو مثل آئینہ پیش کیا جا سکے، مگر خالق کائنات کا ایک اپنا مرتب کیا ہواء نظام ہے، جس سے مفر ممکن نہیں، کوئی چیز جب اپنی انتہاء کو چھو لے یا حد سے بڑھ جائے تو اس کی لگام کھینچ لی جاتی ہے، رب العالمین کا جزاء و سزا کا اپنا نظام ہے، کوئی بہت سرکشی اختیار کر لے تو بے آواز لاٹھی حرکت میں آتی ہے، اور تب جا کر اس پر حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ وہ جو اپنے آپ کو مختار کل سمجھا ہواء تھا، وہ تو اس فضائے بسیط اور کائنات رنگ و بو میں ایک زرے کی حیثیت کا حامل ہے، وہ جس کی جنبش ابرو سے کئی سروں کا بوجھ کندھوں سے ہٹا دیا جاتا تھا، وہ تو خود اتنا بے بس ہے کہ اپنے جنازے کی نماز اور مدفن کے لئے بھی دوسروں کا محتاج ہے، اپنے عروج کی کیف و مستی میں وہ یہ بھی فراموش کر دیتا ہے کہ اس سے پہلے کئی سکندر ہو گزرے ہیں، جن کی ہیبت اور حکومت سے ایک جہاں تھراتا تھا، مگر آج ان کی قبر کا نشان بھی نہیں ملتا، وقت دکھوں کا مداوا تو کر دیتا ہے، مگر ظلم کی معافی دینا کارکنان قضاء و قدر کی فطرت میں شامل نہیں۔

ہمارا موضوع افغانستان کے حکمران سردار محمد داؤد کے حالات زندگی کا صرف احاطہ کرنا ہی نہیں بلکہ وقت کے ہر یزید کو یہ بتانا مقصود ہے کہ بقائے دوام حسینیت کو ہے، یزیدیت کی قسمت میں لعنت اخروی ہی مرتسم ہے۔ ایک طرف سردار داؤد کے مظالم جاری تھے جبکہ دوسری طرف وہ عالمی میڈیا کے سامنے اپنے آپ کو ایک روشن خیال اور جمہوریت پسند لیڈر کے طور پر پیش کر رہا تھا، استعماری طاقتیں نہ صرف روس بلکہ دیگر مغربی مفکرین بھی اس کی پالیسیوں کے نہ صرف مداح تھے، بلکہ اس کی دوستی کا دم بھرتے تھے، 27 فروری 1977 ء کو اس نے ملک کو نیا آئین دیا، ملک میں صدارتی طرز حکومت قائم کر دیا گیا، جس میں یک جماعتی نظام قائم کر دیا، اس نے نئی کابینہ تشکیل دی، اب آسمانوں کو چھوتے ہوئے اعتماد کا یہ عالم کہ تمام کلیدی عہدے اپنے خاندان اور قریبی دوستوں میں تقسیم کر دیے، اس وقت تک وقت کی طنابیں اس کے ہاتھ سے پھسلنا شروع ہو گئی تھیں، کئی سال کے جبر نے مظلوموں کو آہ و فغاں کی سکت عطا کر دی تھی، اس کے ظلم کے خلاف لاوہ پک چکا تھا اور پھٹ پڑنے کو تیار تھا۔

ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں خلق اور پرچم پارٹی اس کے خلاف سراپا احتجاج ہو گئیں، وہ فطرتا ایک بھیڑیا صفت انسان تھا، اس نے اپنی عادت کے مطابق کشت و خون کا بازار گرم کر دیا، مخالفین دھڑا دھڑ سانسوں کی آمدورفت سے محروم ہونے لگے، اس نے 17 اپریل 1978 ء کو اپنے سب سے بڑے مخالف کمیونسٹ لیڈر میر اکبر خان کو بہیمانہ انداز میں قتل کروا دیا، یہ قتل نقطہ آغاز ثابت ہواء اس انقلابی تحریک کا جس نے جبر کی آندھی کے آگے تمام منتشر قوتوں کو سینہ سپر اور یکجان کر دیا، میر اکبر خان کے قتل کے ٹھیک 10 دن بعد اس کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی جس کو عوامی تائید اور پشت پناہی حاصل تھی، فوج نے اس کے بھائیوں، بیویوں، بیٹیوں، پوتے اور پوتیوں کو اس کے سمیت گولی مار دی، تقریباً اس کے خاندان کے 30 لوگ لقمہ اجل بنے، داؤد کی نعش کو جیپ کے ہڈ کے ساتھ باندھا گیا اور پورے کابل میں گھسیٹ کر اپنی نفرت کا اظہار کیا گیا، اس کی نعش جس جگہ سے گزرتی تھی، لوگ اس کو ٹھڈے مارتے تھے، اس پر تھوکتے تھے، شام کو جب لاش کا سفر تمام ہواء تو اس کو خاندان کے جملہ افراد کے ساتھ گھسیٹے ہوئے اجتماعی قبروں میں بے کفن اور بغیر جنازہ کے دفن کر دیا گیا، یوں اپنے وقت کا ایک ایسا شخص جس کی گردن سریے کی وجہ سے اکڑی ہوئی تھی، قصہ پارینۂ بنا۔

30 برس بیت گئے، مگر رکیں کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ 26 جون 2008 ء کو ایک کھدائی جاری تھی اچانک کدالیں کسی چیز سے ٹکرائیں۔ ارے یہ کیا اتنے زیادہ انسانی جسم بغیر کفن کے اور وہ بھی دو بڑی بڑی قبریں، جب باریک بینی سے جانچا گیا تو تقریباً دونوں قبروں میں سولہ سولہ لاشیں دریافت ہوئیں، ایک نعش کے پاؤں میں مگر مچھ کی کھال سے مڑھا جوتا تھا، جوں ہی جوتے کی گرد جھاڑی گئی، تو اس کی پالش چمکنے لگی، اور یوں جوتے کی اعلی ٰ کوالٹی نے بتا دیا کہ سفر زیست تمام کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ سردار داؤد اور اس کا جملہ خاندان تھا، اللہ تبارک و تعالی ٰ جب کسی ظالم کو نشان عبرت بناتے ہیں تو اس کو قبر میں بھی چین نہیں ملتا، اللہ تبارک و تعالیٰ سے رحم طلب کرنا چاہیے، نہ ہماری بساط میں ہے کہ اللہ کی زمین کی حدوں سے نکل سکیں اور نہ ہم سرکشی اختیار کر کے اللہ کے آسمان کے کناروں سے باہر جا سکتے ہیں، اللہ پاک جب کسی کا کاسۂ غرور چور کرتے ہیں تو ایک جوتے کو اس کی پہچان اور قبر کا نشان بنا دیتے ہیں، وہ مرنے کے بعد بھی اس بات کی عملی تفسیر بن جاتا ہے،


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments