سب کو دین یاد آ گیا


کراچی کے ایک نوجوان ظہیر الحسن نے بے روزگاری کی وجہ سے خود کشی کر لی۔ قصور وار کون؟ کس کو الزام دیں؟ خود کشی کرنے والا بظاہر اپنا قاتل خود ہوتا ہے مگر حقیقت میں خود کشی کرنے والے کا بھی کوئی نہ کوئی قاتل ضرور ہوتا ہے۔

پاکستان میں یہ عام بات ہے کہ نوجوان اعلٰی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی بے روزگاری کا شکار ہیں۔ بیشتر انٹرویوز میں آپ کے تجربے کو اہمیت دی جاتی ہے کیریئر کی شروعات میں اگر آپ نا تجربہ کار ہیں تو کم تنخواہ میں ہی گزارا کرنا ہو گا۔

نوجوان گریجویٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد خواب سجا لیتا ہے کہ جلد ہی اپنے اہل خانہ کے تمام تر اخراجات کی ذمہ داری اٹھا لے گا۔ مگر مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس گھرانوں کے لیے یہ بات اتنی آسان نہیں ہوتی ایک طرف مہنگائی میں روز بروز اضافہ دوسری جانب سفید پوشی کو برقرار رکھنا لازم ہوتا ہے۔

غریب طبقہ بلاشبہ بدحالی کا شکار ہے مگر بظاہر مطمئن نظر آتا ہے کیونکہ ان کی خواہشات دوسرے طبقات کے مقابلے میں کم ہیں دو وقت کی روٹی اور بنیادی ضروریات پوری ہو جائیں تو یہ دن بھر محنت مزدوری کر کے سکون کی نیند سو جاتے ہیں۔

مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس محنت مزدوری کرنے میں شرم محسوس کرتی ہیں ایک گریجویٹ کو اگر کہیں نوکری نہیں مل رہی تو وہ مزدور کی طرح دیہاڑی یا پھل سبزی کی ریڑھی تو نہیں لگائے گا کیونکہ اس سے اس کی شان میں فرق آ جائے گا اور معاشرہ کیا کہے گا رشتہ دار دوست تو طعنے دے کر ہی مار ڈالیں گے۔

دوسری جانب اب آ جاتے ہیں خود کشی کے رجحان کی جانب، بلاشبہ یہ ایک نفسیاتی مرض کی علامت ہے۔ اس کے علاج کے ساتھ ساتھ مریض کے اہل خانہ اور دوستوں کی ذمہ داری ہے کہ اسے خوشگوار ماحول دیں تا کہ وہ ذہنی طور پر جلد صحت یاب ہو سکے۔ مگر ہمارے ہاں ذہنی مریض کسی اچھوت مریض سے بھی زیادہ باعث کراہت سمجھا جاتا ہے۔ لوگ اس کے پاس بیٹھنا برا سمجھتے ہیں کہ کہیں یہ مایوسی اور نا امیدی کی بیماری ہمیں نہ لگا دے۔ گھر والے ایک وقت تک ہمدردی کرتے ہیں پھر وہ بھی تنگ آ جاتے روز روز کے ڈاکٹروں کے اور دوا کے اخراجات سے۔ کچھ مریض بھی ڈاکٹر کی ہدایت پہ عمل نہ کرتے ہوئے دوا اور علاج کو خود ہی روک دیتے ہیں جس سے ذہنی مرض میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔

سائکیٹرسٹ دوا کے ساتھ تھراپی کرتے ہیں جس میں مریض کو توجہ سے سنا جاتا ہے سمجھایا جاتا ہے۔ اگر یہی کام مریض کے گھر والے یا دوست کر لیں تو شاید ڈاکٹر تک آنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ مگر ہم اپنی اولاد کو پڑھاتے ہی ایسے ہیں کہ وہ تمام عمر ڈرے سہمے رہتے ہیں۔ دیکھو تمہیں اچھے گریڈ لینے ہیں، افسر بننا ہے، اچھی نوکری کرنا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ کیا ہو گا اگر آپ کا بچہ اچھا گریڈ نہ لے سکا تو کیا کوئی ریس چل رہی ہے جہاں آپ نے گھوڑا دوڑانا ہے۔ آپ کو اس کے ہارنے کی فکر اس لیے ہے کہ آپ کا سرمایہ جو اس بچے پہ لگا ہے کہیں ضائع نہ ہو جائے۔ اپنے بچے کے شوق اور اس کے ایپٹی ٹیوڈ کو دیکھیں اس میں کیا ٹیلنٹ ہے وہ کیا کرنا چاہتا ہے اسی فیلڈ سے اس کو منسلک کریں تا کہ وہ اچھی پرفارمنس دے سکے۔

محنت میں کوئی عیب نہیں اگر آپ انجینئر ہیں اور بے روزگار ہیں کہیں نوکری نہیں مل رہی تو یقین جانیں روڈ پر بریانی بیچ کر بھی آپ پیسہ کما سکتے ہیں۔ کیونکہ آپ بھی اس مزدور جیسے انسان ہی ہیں جو اس عمارت میں اینٹیں رکھتا ہے جس کا نقشہ آپ بناتے ہیں۔

ہم زندگی کو خود مشکل بناتے ہیں اپنی خواہشات کو بڑھا کر دنیا کے طعنوں کی پرواہ کر کے۔ ہماری حکومت تو نا اہل ہے ہی مہنگائی اور بے روزگاری کے باوجود وزیر اعظم کہتے ہیں آپ نے گھبرانا نہیں مگر آپ دو چار دن ایک غریب جیسی زندگی گزار کر دکھائیں پھر ہم آپ سے پوچھیں کے وزیر اعظم صاحب کیا اب تھوڑا سا گھبرا لیں؟

حکومت سے شکوہ بے کار ہے ایک جائے گی دوسری آ جائے گی اس کے اپنے مسائل ہوں گے۔ مگر آپ نے اپنا مسیحا خود بننا ہے۔ انسان تب ہی ہارتا ہے جب وہ مان لیتا ہے کہ میں ہار گیا۔ خود کشی کرنے والے کی مظلومیت یہ ہوتی ہے کہ زندگی میں وہ اپنی جنگ اکیلے لڑتا رہتا ہے اور خود کشی کے بعد سب کو دین یاد آ جاتا ہے کہ خود کشی حرام ہے۔ مگر خود کشی کرنے والے کی زندگی میں کسی کو یاد نہیں آتا کہ کسی کی راہ سے پتھر ہٹانا بھی عبادت ہے۔ ظہیر الحسن تم اکیلے سب مشکلات کا مقابلہ کر گئے مگر اب سب کو دین یاد آ گیا ہے۔ کیا تمہیں معلوم نہ تھا کہ خود کشی حرام ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments