سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کا وحشیانہ قتل


 4دسمبر کو سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں پروڈکشن مینجر کے طور پر کام کرنے والے سری لنکن شہری پریانتھا معمول کے مطابق کام پر آئے لیکن انہیں کیا علم تھا کہ اپنے وطن سے دور یہ ان کی زندگی کا آخری دن ہو گا۔ اسی فیکٹری میں کام کرنے والے پروڈکشن سپر وائزر نے ان پر توہین رسالت کا جان لیوا الزام لگا دیا اور ہجوم کو اکٹھا کرنے لگا۔ مذہب کے نام پر وحشیانہ حد تک جذباتی ہونے والی قوم کے نوجوان حیوانوں کی طرح پریانتھا کی جان کے درپے ہوئے۔ انہوں نے جان بچانے کے لیے فیکٹری کی چھت کا رخ کیا لیکن حیوانوں کا ہجوم ان کے پیچھے رہا۔ پریانتھا کو تشدد کرتے ہوئے چھت سے اتارا۔ ان کے اردگرد درجنوں وحشیوں کا ہجوم تھا جو انہیں گالیاں بک رہا تھا، ٹھڈے، تھپڑ اور جو ہاتھ میں آئے مار رہا تھا۔ پریانتھا نے کچھ ہی دیر بعد بھانپ لیا ہو گا کہ اب ان کا بچنا مشکل ہے لیکن شاید وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہے ہوں گے کہ آخر انہوں نے ایسا کون سا گناہ کر دیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق پریانتھا ڈسپلن پر سختی کرتے تھے اور فیکٹری میں غیر ملکی وفود کی آمد متوقع تھی۔ صفائی کے پیش نظر انہوں نے فیکٹری مزدوروں سے مشینوں اور دیواروں سے تحریک لبیک کے سٹیکر اتارنے کا کہا۔ اور یہی وہ غلطی تھی جو ان کی موت کا سبب بن گئی۔

پریانتھا کو کیا معلوم تھا کہ تحریک لبیک پاکستانی سیاست کی نئی مقدس گائے ہے۔ اسے پیدا کرنے اور پالنے والوں نے اس جماعت کو کھل کھیلنے کا موقع دیا کہ وہ ایک غیرمعروف اور ضعیف حدیث کے بل پر کسی کو بھی توہین مذہب کا مجرم قرار دے کر قتل کر سکتے ہیں۔ جلسے جلوسوں میں لاؤڈ سپیکر کے زور پر سر تن سے جدا، سر تن سے جدا کے نعرے لگا سکتے ہیں اور پھر مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کر سکتے ہیں۔

تحریک لبیک کا عروج پاکستانی سیاست میں مقتدرہ اور مولویوں کے پرانے گٹھ جوڑ کا نیا اظہار ہے۔ توہین رسالت کے نام پر غازی علم الدین کے ہاتھوں راجپال کا قتل غالباَ برصغیر میں اس نوعیت کا پہلا قتل تھا۔ اور پھر ہمارے سکولوں کے نصاب میں علم الدین کو بطور ہیرو پڑھایا جانے لگا اور ہمارے ذہنوں میں بٹھایا گیا کہ توہین رسالت کی سزا شاید صرف موت ہی ہے اور وہ بھی اندھی موت۔ جس کے بعد قاتل شرمندہ نہیں ہوتا، فخر کرتا ہے۔

اس جلتی پر تیل کا کام تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295C. نے کیا جس میں توہین رسالت ثابت ہونے پر موت کی سزا قرار دی گئی۔ گو کہ اب حالات ایسے ہیں کہ ثابت کرنے کا موقع نہیں آتا اور ملزم کو موقع پر ہی مجرم سمجھ کر چند گھنٹوں میں ہی اس کا کام تمام کر دیا جاتا ہے۔

پریانتھا سے پہلے اور بھی کئی معصوم لوگ اس ظلم کا نشانہ بن چکے ہیں۔ سابق گورنر سلمان تاثیر ہوں یا سابق وفاقی وزیر شہباز بھٹی، مشال خان ہو یا بھٹہ مزدور مسیحی جوڑا یا گوجرانوالہ کا حافظ قرآن۔ توہین رسالت پاکستان میں ایسا خطرناک ہتھیار بن چکا ہے جس کے ذریعے اب نہ صرف ذاتی دشمنیاں نپٹائی جاتی ہیں بلکہ خود کو عوام کی نظروں میں ہیرو بھی بنا لیا جاتا ہے۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے مذہبی طبقے کے قریب رہی ہے۔ پہلی افغان جنگ کے دوران یہ قربت خطرناک حد تک چلی گئی اور پاکستانی فوج نے مذہبی طبقے کو اندرون ملک اپنا سٹرٹیجک اثاثہ تصور کر لیا۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف جماعت اسلامی کی سپورٹ ہو یا بھارت میں دہشت گردی کے لیے لشکر طیبہ اور ایسی مذہبی سیاسی تنظیموں کو ہلہ شیری دینا۔

اس سلسلے کا تازہ شاہکار تحریک لبیک ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کی دشمنی میں بنائی گئی یہ جماعت ختم ہو سکتی تھی اگر نومبر 2020 میں جماعت کے بانی خادم حسین رضوی کی موت کے بعد پارٹی کو دھرنوں اور ان کے بیٹے سعد رضوی کی گرفتاری کی شکل میں آکسیجن نہ دی جاتی۔

تحریک لبیک کا بنیادی نعرہ ہی ’گستاخ کی سزا سر تن سے جدا‘ ہے اور اسے جماعت کے ہر جلسے میں پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے۔ نہ صرف یہ، دیہات کے سکولوں کے اساتذہ، پولیس اہلکار اور دیگر سرکاری اہلکار جماعت کے ہمدرد پائے گئے ہیں۔ پریانتھا کے قتل کے اگلے روز کسی گاؤں کے ایک ٹیچر کی ویڈیو سامنے آئی جس میں وہ اپنی جماعت میں بیٹھے پندرہ سے بیس بچوں کو ترغیت دیتے دکھائی اور سنائی دئیے کہ بچوں کو چاہیے کہ کرکٹ، ہاکی اور دوسری گیمز سے دور رہیں کیونکہ یہ مسلمانوں کے خلاف کافر کی سازش ہے۔ اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ گستاخ رسول کو موقع پر قتل کرے۔ اکتوبر میں تحریک لبیک کے دھرنے میں بھی دس سال سے کم عمر بچے کی ویڈیو سامنے آئی جو فخریہ انداز میں سرتن سے جدا کے نعرے بلند کرتا دکھائی اور سنائی دیا۔

اس سے پہلے خادم حسین رضوی خود غیر مصدقہ حدیث کو اپنے جلسوں میں حاضرین کو یاد کراتے دیکھے گئے ہیں۔ اس حدیث کے الفاظ ہیں: “جس کسی نے نبی کو گالی دی، اسے قتل کیا جائے”۔ تاہم دلچسپ بات یہ کہ یہ حدیث احادیث کی کسی بھی معروف کتاب میں نہیں ملتی۔ جبکہ ابن تیمیہ نے بھی اس کی صحت پر شک ظاہر کیا ہے۔ لیکن خود کو عالم کہنے والے خادم رضوی ڈنکے کی چوٹ پر یہ جملہ اپنے چھوٹے بڑے ماننے والوں کو یاد کرواتے رہے۔

اگرچہ پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے، بہت سے معصوم پاکستانی اس وحشیانہ سوچ کا نشانہ بن چکے ہیں لیکن اب بھی مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی تبدیل کر کے ملک میں امن اور بھائی چارے کی فضا لائی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments