عورت پہ تشدّد اور اُسے ننگا دیکھنے کی خواہش


کیا مذہب انسان کو متشدّد بناتا ہے؟ کیا لبرل ازم مرد کے اندر عورت کو سرِ عام ننگا دیکھنے کی خواہش پیدا کرتا ہے؟ کیا نودولتیا کلچر نو دولتیوں میں یہ سوچ پیدا کرتا ہے کہ وہ پولیس، عدالت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنی دولت کے ذریعے خرید سکتے ہیں اور یہ کہ اس طرح وہ معصوم اور بے بس انسانوں پہ تشدد کرنے اور انھیں سرِ عام ننگا کرنے کا اختیار رکھتے ہیں؟

چند دہائیاں پرانی بات ہے۔ ضلع وہاڑی کے علاقہ میلسی میں ایک جاگیردار رہتا تھا۔ علاقہ کے تمام افسران کو باقاعدگی سے گندم اور فروٹس بجھواتا۔ دودھ دینے والے مویشی بطور تحفہ انھیں دیتا۔ اس کی ذاتی گاڑیاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کئی افسران کے خاندانوں کے ذاتی استعمال میں رہتیں جن کی پوسٹنگ ضلع وہاڑی میں ہوتی۔ اس زمیندار کا عجیب”مشغلہ” تھا۔ وہ مسلح افراد کے ہمرا ہ اردگرد کے دیہاتوں میں گھومتا۔ کھیتوں میں کام کرنے والی اور پانی کی کھال پہ کپڑے دھونے والی جس لڑکی پہ اس کا دل آ جاتا،اُسی وقت اُسے زبردستی جیپ میں بٹھا کے لے جاتا۔ چند دن وہ خود اس لڑکی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا تا پھر اپنے حواریوں کے حوالے کر دیتا۔ دوسری طرف اس نے غیرت کا عجیب قانون بنایا ہوا تھا۔ اس کے علاقے میں کوئی لڑکا لڑکی پسند کی شادی کر لیتے، چہ جائیکہ بعد میں لڑکی کے والدین بھی اس شادی پہ راضی ہو جاتے لیکن وہ جاگیردار اُس لڑکی کو اُٹھوا کے اپنے ڈیرہ پہ لاتا۔ سارے گاؤں اور علاقہ کے لوگوں کو اکٹھا کرتا اور سب کے سامنے اس لڑکی کے مکمل کپڑے اُتار کے اس پہ لکڑی کے ڈنڈے سے اس قدر تشدد کرتا کہ لکڑی ٹوٹ جاتی۔پھر ایک برتن میں اسے سب کے سامنے پیشاب کرنے کا کہتا اور اسے وہ پیشاب پینے پہ مجبور کرتا۔ اس کی ان حرکتوں کے بارے میں صرف وہاڑی ہی نہیں اردگر د کے اضلاع کے لوگ بھی واقف تھے لیکن اس کے “لمبے ہاتھوں” کی وجہ سے کوئی بھی اس کا کچھ بگاڑ نہ سکتا تھا۔

بہاول پور ضلع میں بھی ایک عجیب و غریب جاگیردار رہتا تھا۔ وہ عورتوں کو اغوا کرتا۔ اپنے ڈیرہ پہ ایک کمرہ میں انھیں بے لباس کر کے بٹھا دیتا اور پھر اپنے نوکروں کو کہتا اس کے ننگے جسم پہ ہاتھ پھیرو۔

حال ہی میں فیصل آباد میں کچرہ چننے والی عورتوں پہ دکاندار اور اس کے ملازموں کا تشدد، انھیں برہنہ کر کے مارنا پیٹنا اور ان کی ویڈیو بنانے کا عمل اور سارے بازار کے تاجروں، دکانداروں اور راہ گیروں کا خاموش تماشائی بن کے یہ ظلم دیکھنا ایک سوال اُٹھاتا ہے کہ کیا معاشرہ میں پائے جانے والے درندہ صفت افراد اس لیے اتنا خوفناک ظلم کر رہے ہوتے ہیں کہ انھیں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالت سے سزا ملنے کا کوئی خوف نہیں ہوتا یا ان کے اندر یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ وہ جس کو چاہیں اپنی دولت اور اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے خرید لیں؟

مغرب میں اس طرح کے واقعات کیوں نہیں ہوتے؟ شاید اس لیے کہ وہاں پھٹے پرانے لباس اور ٹوٹے ہوئے جوتوں والا اور ڈیڑھ کروڑ کی گاڑی میں گھومنے والا سوٹڈ بوٹد شخص قانون کی نظر میں برابر ہوتے ہیں یا یہ کہ وہاں ظالم کے لیے سزا سے بچنے کا کسی طرح سے کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔سوال یہ ہے کہ پاکستان اور جنوبی ایشیا میں قانون و انصاف کے معاملہ میں مغربی ممالک جیسی ایمانداری اور بلا تفریق قانون کے نفاذ کی سوچ کیوں نہیں لائی جا سکتی؟

 5دسمبر 2020 کی بات ہے, شام 6 بجے کا ٹی وی چینل کانیوز بلیٹن دیکھا جس میں ایک دردناک منظر دکھایا گیا کہ فیصل آباد میں ایک نو دولتیا خاندان ایک بارہ سال کی بچّی کو بڑی رحمی سے سڑک پہ سر عام تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کے میں انتہائی ذہنی اذیت سے گزرا۔ کچھ عرصہ قبل بھی فیصل آباد کی ہی ایک ویڈیو ٹی وی چینلز پہ آئی تھی جس میں کچھ مرد عورتوں کو جوتوں سے مار رہے تھے۔ مقدمہ درج ہو گا۔ گرفتاری بھی ہو گی۔ بعد میں عدالت ملزمان کی ضمانت لے لی گی یا نہیں؟

سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ہاں تشدد پہلی دفعہ ہو رہا ہے؟۔ جنوبی ایشیا میں تو تشدد کی بہت پرانی تاریخ ہے۔ موبائل فونز کے آنے سے اب وہ رپورٹ ہو رہا ہے ورنہ کیا گھروں میں لوگ اپنی بیویوں کو لکڑی کے ڈنڈوں اور جوتوں سے خوفناک قسم کے جسمانی تشدد کا نشانہ نہیں بناتے؟ اسلام آباد میں ایک جج اور اس کی بیوی ایک بچی پہ خوفناک تشدد کر کے اسے زخمی کر چکے ہیں۔ کونسی ایسی سرعام سزا ملی جس سے لوگوں نے بچوں، عورتوں اور معاشرے کے کمزور طبقوں پہ تشدد کر نا چھوڑ دیا؟۔

 میں ایک ٹریول چینل پہ ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں دنیا کے آٹھ سب سے زیادہ محفوظ ترین ممالک دکھائے جا رہے تھے۔ اس میں بتایا گیا کہ جاپان میں قتل اور ڈکیتی کے واقعات نہیں ہوتے یہاں تک کہ لوگ اپنے گھروں اور گاڑیوں کو لاک بھی نہیں کرتے۔ آسٹریا کے بارے میں بتایا جا رہا تھا کہ پورے یورپ میں lowest crime rate ہے۔

اکبر شیخ اکبر کا موقف ہے کہ جو شخص انتہائی غریب اور بے روزگار ہے وہ خود بھی اپنے معصوم بچوں پہ ہونے والے تشدد کا ذمہ دار ہے۔ ہو تا یہ ہے کہ روزگار ہو نہ ہو لوگ مولوی صاحب کے حکم کے مطابق اپنے بیٹوں کو گناہ سے بچانے کے لیے ان کی شادیاں کر دیتے ہیں۔ مزدوری کبھی لگی نہ لگی لیکن بچے ہر سال باقاعدگی سے پیدا کیے جاتے ہیں پھر وہ بچے کرایہ پہ لوگوں کے گھروں میں کام کر نے کے لیے دے دیے جاتے ہیں۔ اگر بچوں خصوصاً گھروں میں کام کرنے والے بچوں کو نودولتیوں کے تشدد سے بچانا ہے تو پھر حکومت کو یا تو ان بے روزگاروں اور مزدور پیشہ لوگوں کو مالی امداد دینا ہو گی جن کے ہاں بچے بہت پیدا ہوتے ہیں یا پھر انھیں شعور دینا ہو گا۔

دوسرا جو جنوبی ایشیا میں نو دولتیا کلچر کچھ دہائیوں سے وجود میں آیا ہے اُس نے بھی لوگوں میں تشدد کا رجحان پیدا کیا ہے۔ آپ ایک پرانے خاندانی دولتمند اور ایک نو دولتیے کے کار اور جیپ یہاں تک کہ موٹر سائیکل ڈرائیو کرنے کے انداز میں بھی فرق دیکھیں گے۔ ہمارا ہمسایہ ملک جو آبادی کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر پہ آتا ہے وہاں بھی تشدد بہت رپورٹ ہو رہا ہے۔

فیصل آباد ایک پیارا شہر ہے وہاں کے لوگ بھی بہت اچھے ہیں۔ تشدد صرف فیصل آباد ہی نہیں ملک کے تمام شہروں اور دیہاتوں میں ہو رہا ہے بس وہ واقعہ سامنے آتا ہے جو کسی موبائل فون کیمرہ کی زد میں آ جاتا ہے۔ میرے اپنے شہر بہاول پور میں لوگ کم سن گھریلو ملازموں کو تشدد کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔ نودولتیا کلچر پورے ملک میں “بدمعاش” تیار کر رہا ہے۔ اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں میں تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خاتمہ کے لیے ماہرین نفسیات کی آراء کی رہنمائی میں مناسب اقدامات کرے۔ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا بچوں پہ ہونے والے تشدد کے خلاف جس طرح آواز بلند کر رہے ہیں، اُس کے لیے انھیں شاباش۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments