توشہ خانہ کیس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کیوں ہوا؟


آج کل مجھے جو بھی ملتا ہے پہلا سوال یہ کرتا ہے، بتاؤ تو سہی توشہ خانہ کیس کا اصل معاملہ کیا ہے، کیا عمران خان نے تحفے بیچ دیے؟ اب میں کیسے بتاؤں کہ توشہ خانہ کیس کا معاملہ اصل میں ہے کیا، حالانکہ میں خود پچھلے تیرہ ماہ سے اس معاملے کی مسلسل کھوج میں ہوں کہ ریاست مدینہ میں کوئی تو مجھے بتائے کہ وزیراعظم عمران خان کو غیرملکی سربراہان نے کتنے اور کیا کیا تحائف دیے، ان میں سے کون کون سے تحفے عمران خان صاحب نے (رولز کے مطابق) خود اپنے پاس رکھ لیے اور کون کون سے توشہ خانہ میں جمع کروائے، جو تحائف اپنے پاس رکھے ان کی کیا قیمت ادا کی اور کس بینک اکاؤنٹ سے ادا کی؟

توشہ خانہ کو ماضی میں مال خانہ (خزانہ بھی کہا جاتا تھا) ، یعنی ریاست مدینہ میں جسے چودہ سو سال پہلے بیت المال کے نام سے موسوم کیا تھا، یعنی ریاست کو کہیں سے کچھ بھی ملے تو بیت المال میں جمع کروایا جائے، اس کے برعکس آج کی ریاست مدینہ کا حاکم اب بھی پرانے پاکستان کے اسی ’کرپٹ ٹولے‘ کے بنائے گئے قواعد و ضوابط کا سہارا لے کر مال غنیمت بیت المال میں جمع کرانے کی بجائے معمولی دام کے بدلے اپنے پاس رکھنے اور بعد ازاں مہنگے داموں فروخت کر کے منفعت بخشی کو اپنا حق گردانتا ہے۔

جبکہ اس ساری کارروائی کو ’قومی مفاد‘ کا نام دے کر خفیہ بھی رکھنا چاہتا ہے، دوسری جانب اگر کوئی سادہ لوح شہری ریاست مدینہ کی یاد اپنے دل میں تازہ کر کے (خلیفہ وقت حضرت عمر کو نئی پوشاک میں دیکھ کر جب کسی نے پوچھا تھا کہ جناب اعلیٰ مال غنیمت میں سے تو سب کے حصے میں ایک ایک چادر آئی تھی، پھر یہ نیا کرتا کیسے بنوا لیا، آپ تو اس قدر دراز قامت ہیں اور ایک چادر سے آپ کا کرتا بننا ممکن نہیں تھا، اس پر خلیفہ وقت نے سوال پوچھنے والے شہری کو نہ تو ٹکٹکی پر چڑھایا اور نہ ہی اس کو ہاتھی کے پاؤں تلے کچلنے کا حکم صادر کیا بلکہ فرمایا کہ میرے بیٹے نے اپنے حصے کی چادر مجھے دیدی تھی تاکہ میں نیا کرتا بنوا سکوں ) ، کچھ پوچھنے کی جسارت کر بھی لے تو مغل اعظم کے چہرے پر بل پڑ جاتے ہیں اور نافرمان شہری کو سبق سکھانے کے لئے زار روس کی یاد تازہ کردی جاتی ہے جب لوگ اپنی بیگمات سے بھی سیاسی گفتگو کرنے سے ڈرتے تھے کہیں زار کو پتہ نہ چل جائے!

نئے پاکستان میں شفافیت کا یہ عالم ہے کہ بدھ کے روز (آٹھ دسمبر دو ہزار اکیس) کو اسلام آباد کی عدالت عالیہ کے کورٹ روم کا منظر کچھ اس طرح تھا کہ جج صاحب کے چہرے کے تاثرات ماسک سے باہر نکل کر کہہ رہے تھے کہ براہ مہربانی مجھے بخش دو میں بے گھر نہیں ہونا چاہتا۔ ہوا کچھ یوں کہ ’وزیراعظم عمران خان غیرملکی تحائف انفارمیشن کیس‘ کی 13 اکتوبر 2021 کو ہونے والی سماعت کے موقع پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم سمیت تمام عہدیداروں کو غیر ملکی سربراہان سے ملنے والے سب کے سب تحائف واپس لے کر قومی عجائب گھر قائم کیا جائے اور سارے تحائف عجائب گھر میں سجا نے چاہئیں، دوسری طرف نئے پاکستان میں انصاف کی حکومت نے جج صاحب کے مشورے پر عمل درآمد کے لئے ذرا بھی دیر نہ کی بلکہ 21 اکتوبر کو ہی خیبرپختونخوا کے ڈائریکٹوریٹ برائے آثار قدیمہ و عجائب گھر نے ڈپٹی کمشنر سوات کو حکمنامہ جاری کیا کہ سیکشن فور لگا کر جج صاحب کے سید و شریف والے آبائی گھر (والی سوات کی رہائشگاہ) کو ایکوائر (acquire) کر کے عجائب گھر میں تبدیل کیا جائے۔

اسے کہتے ہیں بات پوری ہونے سے پہلے حکم بجا لانا۔ کیونکہ جج صاحب نے خود ہی کہا تھا کہ تمام غیرملکی تحائف عجائب گھر میں رکھے جائیں، اب تحفے رکھنے کے لئے عجائب گھر تو بنانا پڑے گا، کیوں نہ جج صاحب کے گھر کو ہی عجائب گھر بنا دیا جائے، مشورہ بھی تو انہوں نے ہی دیا تھا۔ حالانکہ وزیراعظم ہاؤس ابھی تک خالی پڑا ہے، یونیورسٹی تو بن نہیں سکی عجائب گھر ہی بنا ڈالتے لیکن نظر آیا تو جج صاحب کا گھر اور وہ بھی اسی جج کا جن کی عدالت میں ’وزیراعظم عمران خان کے غیرملکی تحائف کی انفارمیشن کا کیس‘ زیرسماعت ہے، دراصل اس کو کہتے ہیں نہلے پہ دہلا۔ یہ تو بھلا ہو خیبرپختونخوا حکومت کا کہ اسے رحم آ گیا اور نوٹیفکیشن واپس کر کے جج صاحب کو اتنے گستاخانہ ریمارکس جاری کرنے کی سزا دینے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ مگر ارادہ منسوخ نہیں ہوا بلکہ صرف ملتوی کیا گیا ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ اتنا زیادہ سچ کسی مستند اخبار یا ویب سائٹ میں شائع بھی ہو سکے گا کہ نہیں! کیونکہ پی ایف یو جے کے سابق صدر اور دھرنا ایکشن کمیٹی کے چیئرمین افضل بٹ صاحب کہتے ہیں آج کل صرف دس فیصد سچ اخبارات و ٹی وی چینلوں میں شائع و نشر ہو سکتا ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب جو کہ ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور (سابق) والی سوات کے پوتے ہیں، انہوں نے میرے وکیل رانا عابد نذیر خاں کے سوالوں کے جواب میں گیند پاکستان انفارمیشن کمیشن کے کورٹ میں پھینک دی، جج صاحب کا کہنا تھا آپ کو فیصلے کی کیا جلدی ہے رٹ پٹیشن تو حکومت کی جانب سے آئی ہے اور جلدی بھی حکومت کو ہونی چاہیے جبکہ ساتھ ہی انہوں نے مقدمے کی سماعت ’غیر معینہ مدت‘ کے لئے ملتوی کردی، رانا عابد نذیر خاں ایڈووکیٹ نے عرض کی کہ جناب اعلیٰ، سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا میرے موکل کو وزیراعظم عمران خان کے غیرملکی تحائف کی انفارمیشن نہیں مل رہی حالانکہ معلومات تک رسائی کا ایکٹ 2017 کہتا ہے کہ سرکاری محکمے دس روز کے اندر انفارمیشن فراہم کرنے کے پابند ہیں، ادھر پاکستان انفارمیشن کمیشن میں جاتے ہیں تو کمشنر صاحب فرماتے ہیں جب تک ہائی کورٹ کا فیصلہ نہیں آتا ہم اپنے ہی فیصلے پر عمل درآمد کروانے سے معذور ہیں، اس پر جج صاحب نے یہ کہہ کر معاملہ ختم کر دیا کہ ہائیکورٹ نے اس مقدمے میں کوئی حکم امتناعی جاری نہیں کیا گیا، پاکستان انفارمیشن کمیشن اس حوالے سے اپنے فیصلے پر عمل درآمد کروانے اور آرڈر نہ ماننے والے افسر (انچارج توشہ خانہ) کے خلاف توہین عدالت کے تحت کارروائی کرنے میں مکمل طور پر با اختیار ہے اور آپ انفارمیشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔

دیکھا جائے تو جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے ریمارکس واضح اور کسی ابہام کے بغیر ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ جج صاحب یہ ریمارکس یا آبزرویشن تحریری طور پر دینے کے لیے تیار نہیں۔ دوسری طرف کمشنر (پاکستان انفارمیشن) بھی یہ لکھ کر دینے تیار نہیں کہ ”جب تک ہائیکورٹ ’وزیراعظم عمران خان غیرملکی تحائف انفارمیشن کیس‘ کا فیصلہ نہیں سناتی تب تک وزیراعظم عمران خان کے غیرملکی تحائف کی انفارمیشن فراہم نہ کرنے والے افسر (انچارج توشہ خانہ) کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتے“ ۔

وہ بھی تو بے بس ہیں، بیچارے بیوی بچوں والے جو ہوئے! کافی دلچسپ سچویشن ہو گئی ہے، ایک جانب جہاں ہائی کورٹ کے معزز جج صاحب تحریری حکم یا آبزرویشن دینے سے گریزپا ہیں اور دوسری جانب کمشنر صاحب (پاکستان انفارمیشن) کی بھی یہی پوزیشن ہے۔ اس پر میرا دونوں اتھارٹیز سے نہایت عاجزانہ سوال ہے ”ہنڑ نانہہ ای سمجھوں سئیں“ ؟ (سائیں اب نا ہی سمجھوں؟)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments