بس اتنی ہے تمنا دل بدل دے


گانا ہو یا ملی نغمہ، نعت ہو یا منقبت، کلام اقبال ہو یا مسدس حالی، جنید جمشید نے ہر صنف میں اپنی آواز سے لوگوں کو مسحور کیا۔ زندگی کے ہر کردار کو خوبصورتی سے نبھانے والے جنید جمشید نے 3 ستمبر 1964 کو کراچی میں آنکھ کھولی۔ مایہ ناز گلوکار سے پر سوز نعت خواں تک جنید جمشید نے اپنی فنی زندگی میں دو بہاریں دیکھیں۔ موسیقی سے اپنے کیریر کا آغاز کرنے والے جنید جمشید نے شہرت کی بلندیوں پہ گلوکاری کو خیر آباد کہہ کر نعت خوانی کو اپنایا تو وہاں بھی ویسی ہی مقبولیت حاصل کی۔

زمانے کی آنکھ نے ایسے فنکار کم ہی دیکھے ہیں جنہوں نے گلو کاری چھوڑ کے اپنے راستہ دین کی طرف موڑا ہو اور ویسی شہرت دوبارہ حاصل کی ہو۔ یہ اعزاز جنید جمشید کو ہی حاصل ہے کہ ”دل دل پاکستان“ سے لے کر ”میرا دل بدل دے“ تک کے اس سفر میں ان کی شہرت میں بہت اضافہ ہوا۔ جنید نے خود کو جس کردار میں ڈھالا لوگوں کو وہ کردار بھا گیا۔

جنید جمشید جتنے ہمہ گیر فنکار تھے، اتنے ہی ماہر تاجر بھی۔ گلوکاری سے مذہب کی طرف آنے کے قصے کی طرح جنید جمشید کا اپنا برانڈ بنانے کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ پڑوسی ملک بھارت میں پرفارمنس کی دوران ایک ساتھی میزبان گلوکار نے طعنہ دیا کہ پاکستانی فنکاروں کے پاس اپنا ایسا الگ لباس ہی نہیں جسے پہن کر اپنے فن کا مظاہرہ کر سکیں۔ واپس آئے تو عہد کیا، اپنے روایتی لباس کو فروغ دینا ہے۔ اپنا برانڈ بنایا جس کا ایک ہی مقصد تھا، قومی لباس کی ترویج۔

مذہب سے جڑنے کے بعد ناقدین کی شدید تنقید زد میں رہے۔ ناقدری زمانہ کا شکار ہوئے۔ بے جا کی تنقید بھی برداشت کی لیکن ثابت قدم رہے۔ اخلاص نیت کا اندازہ لگانا ہو تو اس امر کو سامنے رکھا جائے کہ جس دور میں جنید نے گلوکاری کو خیر آباد کہا، وہ دور دنیا میں پاپ سنگرز کے عروج کا دور تھا، کیرئیر کی اس بلندی پہ موسیقی سے اپنا دامن جھاڑا تو ناقدین کا خیال تھا کہ تھوڑے عرصے میں واپس لوٹ آئیں گے۔ راستہ مشکل تھا لیکن فیصلہ اٹل تھا۔

سکون کی تلاش بارے جنید جمشید کا کہنا تھا کہ جس سکون کو وہ فائیو سٹار ہوٹل میں ڈھونڈتے تھے، وہ سکون انہیں کسی دور دراز گاؤں کی ایک مسجد کی پھٹی ہوئی چٹائی پہ ملا۔ اسی سکون کی تلاش میں اپنے آخری سفر پہ چترال گئے اور دعوت تبلیغ کا کام کرنے کے بعد واپسی پہ حویلیاں کے مقام پہ جہاز کے حادثہ میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ چاہنے والوں نے ان کی وفات پہ کہا کہ یوں محسوس ہوتا ہے آج گھر کا کوئی فرد کھو دیا ہو۔ کوئی بھی قومی دن ہو تو ”دل دل پاکستان“ سنتے ہوئے، یا رمضان ٹرانسمیشن کے دوران انہیں موجود نہ پا کر شاعر کہتا ہے

محفل مصطفی سجی ہے عرش پہ
ثناء خواں بلایا گیا ہے زمیں سے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments