پرینتھا کمار اور پرامن مذہب کے ٹھیکیدار


پرینتھا کمار کی موت خبر سے پاکستان سمیت پوری دنیا کی عوام بہت اچھے سے باخبر ہے۔ اس واقعہ کے بعد وزیر اعظم پاکستان سمیت تمام پاکستانی عوام نے اس خوفناک واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے ہمیشہ کی طرح یقین دلایا کہ ہمارا مذہب ایک پر امن اور انسانیت کا مذہب ہے اور ہم تو ایک پر امن قوم بھی ہیں۔ پاکستان میں مذہب کے نام پر بے گناہ انسان کا قتل ہونے والا ایسا واقعہ پہلا نہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے واقعات کس طرح ختم ہوں گے؟

سینیئر صحافی محمد مالک کے مطابق سری لنکن شہری پرینتھا کمارا خون لپٹا ہوا اپنی آخری سانسیں لیتا ہوا ہاتھ جوڑ کر پر امن مذہب کے ماننے والے عاشقوں سے درخواست کر رہا تھا کہ میں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجاتا ہوں بس مجھے زندہ رہنے کا حق دے دو مگر پر امن مذہب کے ماننے والوں نے اس کی درخواست پر غور نہیں کیا اور اپنی جنت میں پکی جگہ بنانے کے لیے اس کو آخری سانس تک تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔ مگر پر امن مذہب کے ماننے والوں نے پرینتھا کو آخری سانس ختم ہونے کے بعد بھی نہیں چھوڑا بلکہ اپنی جنت میں اعلی مقام حاصل کرنے کے لیے اس کی لاش کو پیٹرول چھڑک کر جلا ڈالا۔ جس وقت اس کی لاش جل رہی تھی اس وقت تمام مذہبی عاشق اپنے پرامن مذہب کی حمایت میں نعرے بازی کر رہے تھے اور پر امن مذہب کے کارندے اس عمل پر بہت باعث فخر محسوس کر رہے تھے۔

اس واقعہ کے بعد پر امن مذہب کے ٹھیکیدار مولویوں نے سری لنکا کے سفیر کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس کی جس میں کہا گیا کہ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم ایک پر امن مذہب ماننے والے لوگ ہیں اور ہمارے مذہب میں یہ اقدام مناسب نہیں۔ جبکہ سچ تو یہ ہے کہ پرینتھا کمارا پر تشدد کرنے والے سو سے زائد پر امن مذہب کے ماننے والوں کے استاد یہی مولوی تھے جو انہیں ستر سالوں سے دن رات مرنے اور مارنے کی نصیحت کرتے تھے۔ اپنے مریدوں کو ایسے واقعات سنایا کرتے ہیں کہ اگر کوئی سبزی کدو کو کھانے سے بھی انکار کردے تو اس کا سر تن سے جدا کر دینا چاہیے۔

یہ وہی مذہب کے ٹھیکیدار تھے جن کی وجہ سے اسلامی اسکالر جاوید احمد غامدی کا اپنے ہی ملک میں رہنا مشکل ہو چکا تھا کیونکہ وہ صحیح معنوں میں اسلام کو ایک پرامن مذہب کا چہرہ دکھاتے تھے۔ یہ انہی مولویوں کا ٹولہ تھا جن کے چیلوں نے حال ہی میں اسلام کے نام کئی پولیس اہلکاروں کو تشدد کر کے قتل کیا تھا جس کے بعد حکومت وقت نے ان پر امن مذہب کے ماننے والوں کے آگے گٹنے ٹیک دیے تھے اور پھر حکومت وقت کے نمائندے بھی ان مذہبی ٹھیکیدار مولویوں کے گھر جاکر پھولوں کا ہار پہناتے ہوئے مبارکباد دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments