پڑھے لکھے خصوصی افراد کہاں جائیں؟


رابعہ کا تعلق لاہور سے ہے۔ پولیو اور حادثے کی وجہ سے ویل چیئر پر ہیں۔ ایم۔ بی۔ اے، ایم۔ ایڈ اور بی۔ ایڈ تک تعلیم حاصل کی ہے۔ انشورنس کمپنی میں ملازمت کر رہی ہیں۔ شام کے وقت بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ہیں۔ کیلی گرافی اور پینٹنگ کا جنون کی حد تک شوق ہے۔ آرٹ کی نمائشوں اور مقابلوں میں حصہ لیتی رہتی ہیں۔

والد صاحب شعبہ تعلیم سے وابستہ تھے۔ تین ماہ قبل خالق حقیقی سے جا ملے۔ والدہ صاحبہ خاتون خانہ ہیں۔ خاندان دو بھائی اور چار بہنوں پر مشتمل ہے۔ ایک بھائی ریسکیو 1122 میں ملازم جبکہ دوسرے کا اپنا کاروبار ہے۔ رابعہ کے سوا سب شادی شدہ ہیں۔

سات آٹھ ماہ کی عمر میں بڑی بہن رابعہ کو گود میں لے کر باہر گئیں۔ کھیل کود کے دوران رابعہ ان کے ہاتھ سے گر گئیں۔ بہن رابعہ کو اٹھانے کی کوشش کر رہی تھیں کہ ایک سائیکل بھی ان کی کمر پر آ گری۔ رابعہ کو فوری طور پر میو ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹرز نے والد صاحب سے ریڑھ کی ہڈی سے پانی کا سیمپل لینے کی اجازت طلب کی جسے والد صاحب نے فوری طور پر رد کر دیا۔ والد صاحب ڈیوٹی پر چلے گئے۔ والدین کی اجازت کے بغیر میو ہاسپٹل کے عملے نے ریڑھ کی ہڈی سے سیمپل لے لیا۔

نا اہل ڈاکٹر نے سیمپل زیادہ مقدار میں لے لیا جس کی وجہ سے رابعہ کی ٹانگوں نے حرکت کرنا چھوڑ دیا۔ والد صاحب نے احتجاج کیا تو کہا گیا کہ بچی کو پولیو ہے۔ والد صاحب نے رابعہ کے علاج میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ہسپتال، مالشیں اور دم ہر قسم کا علاج کروایا لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا۔ پانچ سال کی عمر میں آپریشن بھی ہوا۔ جس کے نتیجے میں ٹانگوں میں راڈ بھی ڈالی گئی لیکن بے سود رہا۔

وقت گزرتا رہا پھر کسی نے آئی۔ بی۔ ایچ سکول کا بتایا۔ خاندان کے بہت سے لوگ اصرار کر رہے تھے کہ رابعہ نے پڑھ کر کیا کرنا ہے۔ والد صاحب نے معلومات حاصل کر کے رابعہ کا داخلہ کروا دیا۔ پانچویں جماعت تک اسی سکول میں پڑھا۔ وہ کہتی ہیں کہ خصوصی تعلیمی ادارے وقت سے بہت پیچھے ہیں۔ ان اداروں سے پڑھنے والے بچوں کے لئے زندگی میں کوئی مقام بنانا بہت مشکل ہے۔

ادارے کے تعلیمی معیار کو دیکھتے ہوئے والد صاحب نے رابعہ کا داخلہ گھر کے نزدیک پرائیویٹ سکول میں کروا دیا۔ داخلہ جس سکول میں ہوا وہ پہلی منزل پر واقع تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ویل چیئر نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ گھر کے ساتھ ایک نالہ تھا جس سے گزر کر سکول جانا پڑتا تھا۔ نالے پر پل نہیں تھا لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت راستہ بنایا ہوا تھا۔ رابعہ کو سائیکل پر بٹھا کر نالہ پار کروایا جاتا تھا۔ خوف کے مارے سارے راستے دعائیں پڑھتی رہتیں۔ واپس بڑے بھائی کے ساتھ آتیں جو اکثر کالج سے لیٹ ہو جایا کرتے تھے۔

سکول دوسری منزل پر تھا جس کی وجہ سے مشکلات مزید بڑھ گئیں۔ بیشتر تعلیم گھرمیں حاصل کی کبھی جاتیں تو کبھی چھٹی کر لیتیں۔ آٹھویں جماعت میں رابعہ نے سکول میں دوسری پوزیشن حاصل کر کے سب کو حیران کر دیا۔ نویں جماعت میں سکول نہیں گئیں۔ دسویں میں امتحانات سے پانچ ماہ قبل والد صاحب نے ٹیوشن کا بندوبست کیا۔ رابعہ کو فیل ہونے کا ڈر تھا۔ اس لیے پڑھنے سے انکار کر دیا۔ خیر امتحانات میں خوب محنت کی اور 86 ٪ نمبرز لے کر سب کو حیران کر دیا۔

رابعہ والد صاحب پر بوجھ نہیں بننا چاہتی تھیں اس لیے مزید پڑھنے سے انکار کر دیا۔ ایک دن والد صاحب نے رابعہ کو کتابیں لے کر دیں اور کہا کہ پڑھنا شروع کر دو۔ پھر گلبرگ کے گورنمنٹ کالج لے گئے۔ کالج جا کہ رابعہ کو پتہ چلا کہ والد صاحب نے ان کا داخلہ کروا دیا ہے۔ کالج آنے جانے، باتھ روم قابل رسائی نہ ہونے کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ باتھ روم کے استعمال کے لئے گھر جانے کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ رابعہ کو وین میں شفٹ ہونے میں مسئلہ درپیش تھا۔ اکثر اترتے چڑھتے گر جایا کرتی تھیں۔ کچھ لڑکیاں رابعہ کو گرتا دیکھ کر منہ چڑایا کرتیں۔

ایف۔ اے کے بعد والد صاحب نے گھر کے نزدیک پرائیویٹ کالج میں بی۔ کام میں داخل کروا دیا۔ بی۔ کام کے دور کو رابعہ بہترین قرار دیتی ہیں۔ کالج انتظامیہ اور دوست سب بہت مدد گار ثابت ہوئے۔ سازگار ماحول سے رابعہ نے خوب فائدہ اٹھایا اور کالج میں دوسری پوزیشن حاصل کر کے ایک بار پھر والد صاحب کا سر فخر سے بلند کر دیا۔

وسائل کی کمی کے باوجود والد صاحب نے رابعہ کے تعلیمی سلسلے کو رکنے نہ دیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں ایم۔ بی۔ اے فنانس میں داخلہ دلوا دیا۔ رابعہ کہتی ہیں پنجاب یونیورسٹی میں بھی رسائی کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔ داخلے کے لئے ریمپ بنوا دی کلاسز بھی کسی نہ کسی طرح مینج کر لیتی تھیں لیکن باتھ روم تک رسائی ایک بڑا مسئلہ تھا جس کا حل نہیں نکالا گیا۔ والد صاحب کی سپورٹ اور اپنی محنت سے رابعہ ایم۔ بی۔ اے کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔

رابعہ اپنے گھر اور خاندان کی پہلی لڑکی تھیں جنھوں نے ایم۔ بی۔ اے تک تعلیم حاصل کی۔ سب سوچ رہے تھے کہ اب رابعہ کو فوری طور پر کوئی اچھی سی نوکری مل جائے گی اور یہ کسی بڑے عہدے پر فائض ہو جائیں گیں۔ رابعہ کا بھی یہی خیال تھا شاید انھوں نے معذوری کو شکست دے دی۔ لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ ایم۔ بی۔ اے بعد نئے امتحانات شروع ہو گئے۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری کی تلاش شروع کر دی۔ جہاں اپلائی کرتیں ایک ہی طرح کا جواب ملتا۔ آپ آفس کیسے آئیں گی، پوزیشن خصوصی افراد کے لئے نہیں ہے، کام چلنے پھرنے کا ہے آپ کیسے کریں گیں، ہمارے آفس میں رسائی کا بندوبست نہیں ہے وغیرہ۔

پھر ایک دوست نے دوائیوں کی بڑی کمپنی کی نوکری کے بارے میں بتایا۔ رابعہ مایوسی کے عالم میں انٹرویو دینے گئیں۔ باس نے کہا کہ جب آپ انٹرویو کے لئے آ سکتیں ہیں تو جاب بھی کر سکتیں ہیں۔ رابعہ نے اعتماد سے انٹرویو دیا اور جاب حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ چپڑاسی کی ڈیوٹی لگا دی کہ جب رابعہ تشریف لائیں تو ان کی ویل چیئر کو اندر تک لانے میں مدد فراہم کریں۔ آفس کا باتھ روم قابل رسائی نہیں تھا۔ رابعہ مصیبت سے ملی پہلی نوکری کی وجہ سے چند روز تک خاموش رہیں پھر ایک سینئر لڑکی سے بات کی۔ باس کو پتہ چلا تو انھوں نے کہا کہ آپ کو پہلے بتانا چاہیے تھا۔ اگلے ہی روز کچھ توڑ پھوڑ کے بعد باتھ روم قابل رسائی بنا دیا گیا۔

اس وقت دفتر میں رابعہ اور ایک جرنل مینجر صاحب آئی۔ بی۔ اے سے ایم۔ بی۔ اے تھے۔ باس نے جی۔ ایم صاحب سے کہا اب آپ کے مقابلے میں ایک اور امیدوار آ گیا ہے۔ انھیں کام دیں اور ہر میٹنگ میں انھیں اپنے ساتھ لے کر جایا کریں۔ جی۔ ایم صاحب نے رابعہ کا کام اور قابلیت دیکھتے ہوئے ان سے ضد کرنا شروع کر دی۔ کمپنی نے تمام ملازمین کو ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کر رکھی تھی۔ رابعہ نے مطالبہ کیا تو انھیں منع کر دیا گیا۔ کام زیادہ دینا شروع کر دیا۔ رابعہ کی غلطیوں کا خوب ڈھنڈورا پیٹا جاتا۔ رابعہ کو مدد کے لئے کم تعلیم یافتہ اسسٹنٹ دیا گیا۔ لیکن کچھ عرصے میں اس کی بھی تنخواہ رابعہ سے زیادہ کر دی گئی۔

باس نے ٹرانسپورٹ اور دیگر معاملات میں رابعہ کا بھر پور ساتھ دیا۔ لیکن ضرورت سے زیادہ کام اور جی۔ ایم صاحب کی ضد نے رابعہ کو نوکری چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ پانچ سال بعد رابعہ نے نوکری چھوڑی تو باس نے پھر سوچنے کا مشورہ دیا۔ رابعہ نے والد صاحب سے مشورہ کیا تو انھوں نے کہا کہ آپ دوبارہ چلی بھی گئیں تو جی۔ ایم صاحب آپ کو ٹکنے نہیں دیں گے۔

دفتر کا ماحول دیکھ کر والد صاحب نے بھانپ لیا کہ رابعہ یہاں زیادہ عرصہ کام نہیں کر سکیں گیں اس لیے بی۔ ایڈ کرنے کا مشورہ دیا۔ بی۔ ایڈ مکمل ہوا تو رابعہ نے ایم۔ ایڈ بھی کر لیا۔

رابعہ نے پھر سے نوکری کی تلاش شروع کر دی۔ جہاں سی۔ وی دیتیں کہا جاتا کہ آپ کی تعلیم زیادہ ہے تو کہیں کہا جاتا کہ آفس کیسے آٰئیں گیں۔ یہ سلسلہ کافی عرصہ چلتا رہا۔ ایک سکول میں رابعہ جب انٹرویو کے لئے پہنچیں۔ پرنسپل صاحب ملنے کی زحمت تک گوارا نہ کی اور گیٹ سے ہی رابعہ کو رخصت کر دیا۔

ہر جگہ سے ناکامی کا سامنا کرنے کے بعد رابعہ نے ہمت ہارنا شروع کر دی اور آہستہ آہستہ ڈپریشن میں چلی گئیں۔ ڈپریشن کے ساتھ دیگر مسائل بھی لاحق ہونا شروع ہو گئے۔ کبھی بلڈ پریشر بڑھ جاتا تو کبھی دل کی تکلیف ہونے لگتی۔

کچھ عرصہ قبل ایک دوست نے انشورنس کمپنی کی خصوصی برانچ کے بارے میں بتایا جسے خصوصی افراد کے لئے ہی بنایا گیا تھا۔ رابعہ آج کل اسی کمپنی میں جاب کر رہی ہیں۔ شام کے وقت بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھاتی ہیں۔

اپنے آپ کو سنبھالنے کے بعد رابعہ نے سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا۔ اپنے بچپن کی دوست مشہور سماجی کارکن ثناء ایوب کے ساتھ مل کر امپاور ویلفیئر کے نام سے ایک این۔ جی۔ او بنائی جس کا کام خصوصی افراد میں مدد گار آلات کی فراہمی، والدین اور معاشرے میں آگہی اور روزگار میں معاونت فراہم کرنا ہے۔

اکتوبر کے مہینے میں ثناء کی ویل چیئر کو آگ لگ لگی جس کی وجہ سے ثناء اور ان کے بھائی خالق حقیقی سے جا ملے۔ رابعہ نے ثناء کے مشن کو رکنے نہیں دیا۔ بڑی دلجمعی سے ان کے مشن کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ رسائی کے حوالے سے رابعہ بہت سی لوکل اور انٹرنیشنل این۔ جی۔ اوز کے ساتھ پراجیکٹس کرچکی ہیں۔

پینٹنگ، آرٹ اور فیشن ڈیزائننگ سے بے حد لگاؤ ہے۔ کرونا لاک ڈاؤن کے دنوں میں آرٹ پر بھر توجہ دی۔ رابعہ کہتی ہیں کہ لوگ خصوصی افراد کے آرٹ کو معقول معاوضہ نہیں دیتے اس لیے یہ اپنے آرٹ کو فروخت کرنا پسند نہیں کرتیں۔

رابعہ کہتی ہیں کہ انھوں نے زندگی میں خصوصی تعلیمی اداروں کے تعلیمی معیار کو انتہائی ناقص اور سرکاری تعلیمی اداروں کو رسائی کے حوالے سے زیادہ ناقابل رسائی پایا ہے۔

رابعہ کی وزیر اعظم پاکستان سے اپیل ہے کہ پڑھے لکھے خصوصی افراد کے روزگار کے حوالے سے کوئی بڑا قدم اٹھائیں۔ تاکہ خصوصی افراد میں پائی جانے والی مایوسی کا خاتمہ ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments