سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کا باہمی تعلق


سیاسی استحکام معاشی ترقی کے واسطے بنیادی ضرورت ہوتا ہے اور معاشی ترقی قوموں کو ممتاز کرتی ہے، دوسری اقوام کے لیے دلچسپی کا باعث بنتی ہے۔ روسی صدر پیوٹن کا دورہ بھارت اسی نظریے کی تصدیق کرتا ہے بھارت امریکا سے اپنے آپ کو قریب کرنے کی غرض سے ہر ممکن اقدام اٹھا رہا ہے مگر اس کے باوجود دوسری طاقتوں کی بھی اس میں دلچسپی، دوستانہ تعلقات کی خواہش سب کے سامنے ہیں۔ روسی صدر پیوٹن کا دورہ، دورے کے دوران ان کے بیانات اس امر کے غماز ہیں کہ بھارت ہر جگہ اپنے قدم مضبوطی سے جمانے میں مصروف ہے اور اپنے معاشی جثے کے سبب سے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ جس طرح امریکہ پاکستان کو ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے اس طرح وہ بھارت کے ساتھ رویہ نہیں اپنا سکتا ہے۔

اگر بھارت کو اس بات کا شائبہ بھی ہوتا کہ اس کے وہ مفادات جو امریکہ سے وابستہ ہے ان کو روس سے تعلقات بڑھانے کی وجہ سے نقصان ہو سکتا ہے تو وہ کبھی بھی اس جانب نہ بڑھتا۔ بھارت روس سے ایس فور ہنڈرڈ میزائل ڈیفنس سسٹم لے رہا ہے۔ اس پر کام جاری و ساری ہے اور وہ یہ سب کچھ ببانگ دہل کر رہا ہے حالانکہ اس کو علم ہے کہ امریکہ نے 2017 سے روس سے فوجی خریداری کے حوالے سے کچھ پابندیاں عائد کر رکھی ہے کہ جس کی بنا پر بھارت امریکی پابندیوں کی زد میں آ سکتا ہے لیکن بھارت اچھی طرح سے جانتا ہے کہ امریکہ کو اس کی ضرورت ہے اور جب ضرورت ہے تو پھر قانون کو موم کی ناک کی مانند کسی طرف بھی موڑا جا سکتا ہے اور ابھی تک کی صورتحال یہی ہے کہ بھارت ایس فور ہنڈریڈ کے معاملے میں اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹا رہا ہے اور اس طرح وہ روس سے اپنے دیگر معاملات بالخصوص فوجی معاملات میں شراکت داری کو اپنے مفاد میں حاصل کر رہا ہے۔

بھارت صرف فوجی معاملات میں ہی شراکت داری کر کے روس سے مفادات حاصل نہیں کر رہا ہے بلکہ وہ روس کے ذریعے خطے میں جہاں اس کے خیال میں توازن اس کے حق میں نہیں ہے وہاں پر وہ اپنے حق میں کرنے کے لیے کوشاں بھی ہے۔ کابل میں افغان طالبان کے صاحب اقتدار ہونے کے سبب سے بھارت کو افغانستان میں ہزیمت اٹھانا پڑی ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ افغانستان میں اس کو اپنے پتے نئے سرے سے ترتیب دینے چاہیے اور وہ اس ترتیب میں روس کو استعمال کر رہا ہے کہ روس کے ذریعے افغان طالبان سے روابط کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

نا صرف کوشش کر رہا ہے بلکہ افغان طالبان کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کر رہا ہے اور وہ پہلا ملک ہو سکتا ہے کہ جو افغان طالبان کو تسلیم کر لے۔ اس طرح وہ کابل میں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان خطے میں افغان طالبان کا سب سے بڑا دوست ہونے کے باوجود کمزور ہے اور کمزور سے دوستی فائدہ نہیں پہنچاتی ہے۔ بھارت کے ان اقدامات کے نتیجے میں پاکستان میں بھی ایک پریشانی کا عنصر موجود ہے کہیں بھارت کوئی چال چل کر افغان طالبان کو پاکستان سے بد ظن نہ کردے اس لیے پاکستان میں بھی افغان طالبان کو تسلیم کرنے کے حوالے سے بھارت کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچ و بچار جاری ہے۔

ایک خیال یہ بھی ہے کہ بھارت افغان طالبان کو تسلیم کرنے کے حوالے سے روس کے ذریعے معاملات آگے بڑھا رہا ہے کہ پاکستان کو دباؤ میں لا کر اس سے وقت سے پہلے افغان طالبان کو تسلیم کروا دے اور پاکستان کو عالمی سطح پر مزید مسائل کا شکار کردے اس لئے پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ بھارت کو ذہن میں رکھتے ہوئے تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ مت کریں بلکہ اس کی اپنی ترجیحات برقرار رہنی چاہیے۔ اسی طرح افغانستان کے حوالے سے ہیں جو اسلامی ممالک کے وزرا خارجہ کی کانفرنس کا انعقاد پاکستان کر رہا ہے اس کے حوالے سے بھی خبر یہی ہے کہ یہ پاکستان کے دماغ کی کاوش نہیں ہے بلکہ اس کی ڈوریں عرب دنیا سے ہلائی جا رہی ہے اور عرب دنیا سے اگر ڈوریں ہلائی جا رہی ہے تو لا محالہ سب سے پہلے اپنے مفادات کا تعین کر کے اقدامات کریں گے اور اس میں پاکستانی مفادات ثانوی ہو جائیں گے اور پاکستان اس حوالے سے بالکل کٹھ پتلی بن کر رہ جائے گا۔

اور پھر اگر اس کے حوالے سے، اس کے ذریعے کوئی اور کسی اور سے پراکسی وار کی بھی تیاری کرے گا تو پاکستان کو اس کا بھی شدید نقصان ہو گا۔ اس لئے اس کانفرنس کے انعقاد پر پاکستان کو اپنے مفادات اور داخلی حالات کے حوالے سے مکمل طور پر واضح ہونا چاہیے کیوں کہ ہمارے ارد گرد صورت حال میں ایک تیزی ہے مثال کے طور پر امریکہ چین میں سرمائی اولمپکس کا بائیکاٹ کر رہا ہے اور دنیا کو بھی ماسکو اولمپکس 1980 جیسی صورت حال پیدا کرنے کی جانب راغب کر رہا ہے۔

چین کو بھی چاہیے کہ کم از کم سنکیانگ کو تو مزید کھول دے کیوں کہ مسلم دنیا میں اس کا ہی استعمال چین کے خلاف ہوتا ہے۔ یہاں حزب اختلاف کو صرف برا بھلا کہنے پر گزارا کیا جا رہا ہے مگر اور صورت حال اس حد تک ابہام کا شکار ہے کہ عمران خان کہہ رہے ہے کہ ہم کسی بلاک کے ساتھ نہیں ہیں مگر ان کے مشیر معید یوسف نے انکشاف کیا ہے کہ ہم چین کے ساتھ جا چکے ہیں۔ جس حکومت کے اراکین کے آپس میں بیانات نہ ملتے ہو ان کی پالیسی آپس میں کیا ملتی ہوں گی۔ اپنے سامنے بٹھا کر اپنی تعریف میں گانے گوائے جا سکتے ہے سابقہ حکومت کے شروع کیے ہوئے منصوبوں پر اپنی تختی لگا سکتے ہیں جیسے گرین لائن پر لگا آئے اب اس صورت حال سے، اتنے بڑے چیلنجوں سے یہ کیسے نبرد آزما ہوں گے یہ ہی لمحہ فکریہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments