بڑی طاقتوں کے ٹکراؤ میں پاکستان کی حیثیت


پاکستانی ماہرین اس وقت یہ سنجیدہ اور گمبھیر بحث کررہے ہیں کہ پاکستان کس طرح خود کو امریکہ اور چین کے درمیان بننے والے بلاک کی سیاست سے دور رکھ سکتا ہے۔ کس حکمت عملی سےوہ امریکہ اور چین کے ساتھ بیک وقت تعلقات استوار کرتے ہوئے اپنے آپ کو کسی ایک بلاک کے ساتھ وابستہ کرنے سے گریز کرے۔

وزیر اعظم عمران خان نے تو اس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے گزشتہ دنوں ایک خطاب میں امریکہ اور سوویٹ یونین کے درمیان سابقہ سرد جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پاکستان امریکہ اور چین کے درمیان پل بنے گا۔ عمران خان کا خیال تھا کہ پاکستان نے اس سے پہلےسعودی عرب اور ایران کے درمیان تنازعہ روکنے میں کردار ادا کیا تھا، اس طرح وہ دونوں ملکوں کو براہ راست تصادم سے باز رکھنے میں کامیاب رہا تھا۔ اس تجربہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان اب امریکہ اور چین کو بھی کسی نئے تنازعہ میں الجھنے اور براہ راست تصادم سے روک سکتا ہے۔

امریکہ چین تنازعہ میں پاکستانی کردار کی بات حال ہی میں امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز اور انٹیلی جنس کمیٹی کے چار ارکان کے دورہ پاکستان کے بعد مزید دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ بعض پاکستانی تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ پاکستان اپنے دیرینہ تعلقات و روابط اور اسٹریٹیجک اہمیت کی وجہ سے واشنگٹن اور بیجنگ کے لئے بے حد اہمیت رکھتا ہے، اس لئے وہ ایک نئے عالمی تنازعہ کو روکنے میں کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس کے برعکس دیگر تجزیہ نگار یہ مانتے ہیں کہ امریکہ اس وقت چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کررہا ہے اور پاکستان کو بھی اس میں فریق بنانا چاہتا ہے۔ اس صورت حال پاکستانی قیادت کے لئے اہم ہوگا کہ وہ کسی بھی فریق کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنے کی بجائے پاکستان کی خود مختارانہ پالیسی برقرار رکھیں اور دونوں دھڑوں سے مساوی بنیادوں پر تعلقات استوار کرنے کی کوشش جاری رکھی جائے۔

چار امریکی سینیٹرز کے مختصر دورہ پاکستان کے بعد پاکستان میں یہ امید بھی پیدا ہوئی ہے کہ امریکہ بدستور پاکستان کی اہمیت کو سمجھتا ہے اور اسے مکمل طور سے نظر انداز نہیں کرنا چاہتا۔ یہ تاثر امریکی صدر جو بائیڈن کے اس رویہ کے تناظر میں خوشگوار محسوس کیا جارہا ہے کہ انہوں نے امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کا ایک سال گزرنے کے باوجود ابھی تک پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو فون نہیں کیا ہے۔ اس بات پر شاید بہت زیادہ توجہ مبذول نہ ہوتی لیکن وزیر اعظم کے معاون خصوصی معید یوسف نے دورہ امریکہ کے دوران ایک انٹرویو میں اس معاملہ کو اٹھایا اور صدر جو بائیڈن کے طرز عمل سے امریکی پالیسی کے نقص کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی کہ نئے امریکی صدر نے پاکستان جیسے اہم اور قدیمی حلیف کے ساتھ رابطہ نہیں کیا حالانکہ پاکستان نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا میں اہم کردار کیا ہے اور اب بھی وہی اس خطہ میں انتہا پسندی اور انتشار کے خلاف سب سے مضبوط دیوار ہے۔ معید یوسف کی کسی حد تک غیر سفارتی طرز گفتگو کا بھی وہائٹ ہاؤس نے معمول کی سرد مہری سے یہی جواب دیا کہ صدر کے پاس جب بھی وقت ہوگا وہ پاکستانی وزیر اعظم سے بات کریں گے۔ معید یوسف کی طرف سے یہ معاملہ اٹھانے اور امریکی خاموشی سے بعد میں وزیر اعظم عمران خان اور دیگر سرکاری ترجمان بھی اس معاملہ پر یہی کہنے پر مجبور ہوئے کہ امریکی صدر مصروف آدمی ہیں ، ان کے پاس وقت ہوگا تو وہ ضرور پاکستانی وزیر اعظم سے بھی بات کرلیں گے۔

پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات کی نوعیت اور اختلافات اور عمران خان کی حکومت کے بارے میں تحفظات سے قطع نظر صدر جو بائیڈن کی طرف سے بدستور پاکستانی وزیر اعظم کو ٹیلی فون نہ کرنے کا رویہ سفارتی زبان میں بھی درشت اور افسوسناک سمجھا جائے گا۔ خاص طور سے اس کی شدت میں یوں اضافہ بھی ہؤا ہے کہ اس پر متعدد پبلک پلیٹ فارمز پر بات بھی کی جاچکی ہے۔ اس صورت میں جو بائیڈن کو ضرور عمران خان سے فون پر بات کرکے ان عناصر کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے تھی جو پاکستان اور امریکہ کے درمیان کسی معمولی دراڑ کو بھی بڑے شگاف میں تبدیل کرنے کے خواہاں رہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں بھارتی لابی کی کوششوں اور خواہشوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جو بائیڈن نے ایک فون کال کے حوالے سے جو بچگانہ رویہ اختیار کیا ہے ، وہ نہ تو ایک سپر پاور کے صدر کے عہدے کے شایان شان ہے اور نہ ہی اس سے وسیع تر امریکی مفادات کا تحفظ ممکن ہوگا۔ یہ تاثر بھی امریکی خارجہ پالیسی کے حوالے سے مناسب نہیں ہے کہ واشنگٹن کی حکمت عملی نئی دہلی کی خواہشوں و ضرورتوں کی اسیر ہو چکی ہے۔

اس پس منظر میں امریکی سینیٹ کی ایک اہم کمیٹی کے چار ارکان کا دورہ پاکستان اور وزیر اعظم کے علاوہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات اس رائے کو تقویت دے گی کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات پر پڑی برف پگھلنا شروع ہوئی ہے اور واشنگٹن کے طاقت ور حلقے بدستور پاکستانی قیادت کی رائے جاننے اور اسے ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ تاہم اس دورہ کا تجزیہ ایک دوسرےطریقے سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ وہ یہ کہ امریکہ اپنے اہم سینیٹرز کے ذریعے یہ دیکھنے کی کوشش کررہا ہے کہ پاکستان کو چین کے ساتھ شروع ہونے والے نئے تصادم میں کس حد تک امریکی مقصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس سے پہلے جمہوریت پر ایک ورچوئیل سربراہی کانفرنس میں پاکستان کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ اس کانفرنس میں چین کو نظرانداز کرکے تائیوان کو بلا کر امریکہ نے واضح کردیا تھا کہ یہ اجلاس جمہوریت سے زیادہ امریکہ کی اسٹریٹیجک مفادات کے تحفظ کے لئے منعقد کیا گیا تھا۔

پاکستان نے اس اجلاس میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان جمہوریت کے سوال پر امریکہ کے ساتھ مناسب فورمز پر مواصلت کرتا رہے گا۔ چین کے ساتھ پاکستان کے کثیر الجہتی اقتصادی اور سیاسی و سفارتی مفادات کی روشنی میں اسلام آباد کے لئے ایک ایسی کانفرنس میں شرکت ممکن نہیں تھا جس میں تائیوان کو مدعو کرکے چین کو براہ راست نیچا دکھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ چین تائیوان کو اپنے ملک کا حصہ سمجھتا ہے اور امریکہ کی طرف سے اس کی سرپرستی کو مسلسل مسترد کرتا ہے۔ یوں بھی اگر امریکہ جیسی سپر پاور اگر واقعی جمہوریت کے فروغ کے لئے کوئی ڈائیلاگ شروع کرنا چاہتی ہے تو ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ انسانوں کے کسی ملک کو مکالمہ میں شامل نہ کرنا اور روس و ترکی جیسے اہم ملکوں کو نظر انداز کرنے سے صرف یہی واضح ہوتا ہے کہ امریکہ جمہوریت کے نام پر اپنے گروہی مفادات کی تکمیل کے لیے نیا اتحاد بنانے کی کوشش کررہا ہے۔

امریکہ چین تعلقات اور پاکستان کے کردار پر غور کرتے ہوئے البتہ چھوٹے چھوٹے واقعات اور اشاروں پر پوری تصویر بنانے اور تصورات کا محل کھڑا کرنے کی بجائے یہ سمجھنا اہم ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں طویل عرصہ سے فاصلے پیدا ہونا شروع ہوچکے تھے۔ ان فاصلوں کو اسلام آباد کا ایک بیان، سینیٹرز کا ایک دورہ یا خیرسگالی کا کوئی اظہار ختم نہیں کرسکتا۔ ایسے میں پاکستانی قیادت کو چند اہم پہلوؤں پر خود بھی اپنے ذہن صاف کرلینے چاہئیں اور ملکی حکمت عملی کو بھی واضح اہداف پر استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے:

1)پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے تاریخی تناظر میں یہ تسلیم کرنے میں حرج نہیں ہونا چاہئے کہ ملکی اسٹبلشمنٹ کا ایک بہت بڑا حصہ بدستور امریکہ کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے۔ اس طرز عمل میں دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کے باوجود کوئی تبدیلی نوٹ نہیں کی گئی۔ ملکی فیصلوں میں کردار ادا کرنے والا یہ طبقہ کبھی بھارت کو امریکی پالیسیوں پر مکمل طور سے حاوی ہونے سے روکنے کے عذر پر اور کبھی عالمی اداروں سے جڑے پاکستانی مفادات کے نام پر اصرار کرتا ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرسکتا۔ کوئی بھی پالیسی بناتے ہوئے اس گروہ کی رائے کو متاثر کئے بغیر کوئی بڑی تبدیلی ممکن نہیں ہوگی۔

2)امریکہ نے گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کئے ہیں۔ یہ تعلقات واضح مفادات کی حفاظت کے لئے مشترک حکمت عملی کی بنیاد پر قائم ہیں۔ یعنی بھارت چین کو اپنا سب سے بڑا تجارتی حریف اور عسکری خطرہ سمجھتا ہے اور امریکہ بھی چین کی وسیع ہوتی معیشت اور سفارتی و اسٹریٹیجک اثر و رسوخ کو دنیا پر اپنے تسلط کے لئے خطرہ تصور کرتا ہے۔ بھارت نے ایک بڑا ملک اور وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود امریکی شرائط پر سفارتی و سیاسی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ پاکستان نہ تو یہ قیمت ادا کرنے پر تیار تھا اور نہ ہی اب وہ اس پوزیشن میں ہے کہ اپنی تمام صلاحیتیں امریکہ اور بھارت میں فاصلہ پیدا کرنے کی کوششوں پر صرف کردے۔ اسلام آباد کو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ کوششیں بارآور نہیں ہوں گی۔ اس لئے سیاسی بیانات میں گلوں شکووں کے طومار باندھ کر کوئی مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

3) سی پیک کی وجہ سے پاکستان کے چین کے ساتھ وسیع تر اقتصادی مفادات وابستہ ہوچکے ہیں۔ موجودہ حکومت کے دور میں اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان ضرور غلط فہمیاں اور فاصلے پیدا ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں میں سے کوئی بھی اس منصوبہ سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ چین کے لئے سی پیک اور گوادر منصوبے ون روڈ ، ون بیلٹ کی کامیابی کا اہم جزو ہیں اور پاکستان کی معیشت کے لئے سی پیک کے ذریعے آنے والی سرمایہ کاری لائف لائن کی حیثیت رکھتی ہے۔ امریکہ پہلے دن سے پاکستان کو سی پیک سے باز رہنے اور کسی بھی طرح اس منصوبہ میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ یہ امریکی خواہش وقت کے ساتھ شدید ہوگی۔ اسے معید یوسف کے لفظوں میں یہ کہہ کر کم نہیں کیا جاسکتا کہ امریکہ بھی چین کی طرح گوادر میں سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔ کسی بھی ملک کی سرمایہ کاری،اس کے علاقائی اسٹریٹیجک مفادات سے جڑی ہوتی ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان یہ تعلق اب اتنا کمزور ہوچکا ہے کہ اسے بحال کرنے کی کوشش میں نئے تعلقات کی قربانی دینا پڑے گی پھر بھی شاید کوئی قابل عمل مقصد حاصل نہ ہوسکے۔

4)پاکستان کو خارجہ پالیسی کے حوالے سے بطور ملک اپنی اہمیت و صلاحیت کا از سر نو جائزہ لے کر سیاسی وسفارتی توقعات کی از سر نو تشکیل کرنا ہوگی۔ غیر حقیقی تصورات پر استوار سیاسی رویہ عملی نتائج فراہم نہیں کرسکتا۔ مثال کے طور پر امریکہ اور چین کے درمیان پل بننے کا منصوبہ بیان کی شدت سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اسی طرح دو عالمی بلاکس میں توازن قائم کروانا شاید پاکستان کی دسترس میں نہیں ہوگا۔ اسلام آباد کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اپنے قومی مفادات، ضرورتوں اور اہداف کا تعین کرے اور ان کے حصول کے لئے خارجہ اور قومی سلامتی کی پالیسی کو نئے سرے سے تشکیل دینے کی کوشش کرے۔

نہ تو پاکستانی قیادت کو ماضی قریب کی غلطیوں میں ذمہ داری کا تعین کرنے کے تعاقب میں لمحہ موجود کی ضرورتوں کو نظر انداز کرنا چاہئے، جیسا کہ وزیر اعظم عمران خان اکثر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور نہ ہی ملکی ماہرین اور میڈیا کو پاکستان کی کوئی ایسی خوشنما تصویر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے جس سے عوام یہ سمجھنے لگیں کہ امریکہ اور چین کا اصل جھگڑا اس بات پر ہے کہ پاکستان کس کا دوست بنتا ہے۔ اس غیر حقیقی تصور سے نجات پا کر ہی پاکستانی قیادت کوئی ایسا راستہ کھوجنے کی کوشش کرسکتی ہے کہ جس پر چل کر اسےقومی مفادات کے تحفظ کی کوئی بڑی قیمت نہ ادا کرنا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments