مایوسی اور ہم


زندگی گلزار ہے ہم اکثر و بیشتر یہ جملہ خود سے کہتے رہتے ہیں۔ حسب سابق ہم اس جملے کی تکرار آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر ابھی کر ہی رہے تھے کہ ہماری چار سالہ بھانجی نے ہم سے کہا کہ بیا آنی خاموش ہو جائیں مجھے ڈپریشن ہو رہا ہے۔ پہلے تو ہم نے انہیں بغور دیکھا اور پھر لفظ ڈپریشن پر غور کیا۔ اس عمر میں ہمیں سردرد کا بھی علم نہ ہوتا تھا کجا اس کے کہ لفظ ڈپریشن سے مانوس ہوتے۔ ڈپریشن ہے کیا؟ اس بارے میں ماہرین نفسیات کی مختلف رائے پائی جاتی ہیں۔

ڈپریشن درحقیقت ایک بہت برے احساس کا نام ہے جس سے گزرنا اذیت سے کم نہیں۔ اسی طرح anxiety اور ڈپریشن بہت نزدیکی تعلق رکھتے ہیں مگر ان میں بہت بڑا فرق ہے جیسا کہ ڈپریشن یہ ہے کہ آپ نا امید ہوجائیں، اپنے نزدیک خود کی وقعت کھودیں اور کوشش کرنا وقت کا ضیاع سمجھیں۔ جبکہ anxiety یہ ہے کہ آپ حد درجہ پریشان ہیں، بہت زیادہ سوچنا شروع کر دیں اور لوگوں سے کترانے لگیں جبکہ خودکشی کی سوچ دونوں میں آنے لگتی ہے۔ ایک وقت میں کہا جاتا تھا کہ ڈپریشن امیر لوگوں کی بیماری ہے مگر ہمارا ذاتی خیال ہے کہ ہر دس میں سے آٹھ لوگ اس مرض کا شکار ہیں۔ یہاں کون ہے جو اپنی زندگی سے خوش ہے؟

یاد رہے کہ روٹین لائف ڈپریشن سے نکلنے کی طرف پہلا قدم ہے۔ ہر چھوٹی پریشانی ڈپریشن ہرگز نہیں ہوتی لیکن ہم اسے ڈپریشن سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اسے ڈپریشن مت سمجھیں لیکن پریشانی میں بھی اپنی روٹین لائف کو فالو کریں یہ ایک سادہ سا کلیہ ہے جسے تمام سائیکالوجسٹ پریشانیوں میں گھرے انسان کو بتاتے ہیں۔ ہم یہاں آپ کو نفسیات کی مشکل مشکل اصطلاحات کے بارے میں نہیں بتائیں گے مگر زندگی کے کچھ ذاتی تجربات ہیں جنہیں پڑھ کر آپ لطف اندوز ضرور ہوں گے۔ چائے کا مگ اٹھائیے اور پریشانیوں سے کیسے لڑنا ہے اس کے چند سادہ اصول پڑھیے۔

اس طرح جینا شروع کیجیے جیسے آپ پہلے ہی سے اپنی ساری کامیابیاں سمیٹ چکے ہیں۔ جیسے کامیابی سے وابستہ سارے خواب پہلے ہی پورے ہوچکے ہیں۔ اپنے لیے جس رول ماڈل کا انتخاب کیا تھا اس کی طرح رہنا شروع کیجیے۔ اگر آپ اسی انداز میں سوچنے، محسوس کرنے اور ایکٹ کرنے کا فیصلہ کر لیں جو کہ آپ بننا چاہتے ہیں تو ایک دن آپ حقیقت میں وہی شخص بن جائیں گے۔ اس وقت چاہے آپ ایک چوراہے پر کھڑے ہوں یا دوراہے پر ماضی کو بھول جائیے۔ اس بات پر نہ سوچیے کہ آپ کون تھے بلکہ یہ سوچیے کہ آپ نے کیا بننے کا فیصلہ کیا ہے۔

ہم خدا نہیں ہے پھر خدا کی طرح لوگوں کو جج کیوں کرتے ہیں؟ فرشتے نہیں ہیں تو پھر فرشتوں کی طرح لوگوں کے گناہ اور خامیوں کا حساب کتاب کیوں رکھتے ہیں؟ ہمیں ججمنٹل نہیں بننا۔ جو جیسا ہے اسے ویسے قبول کریں۔ اس مختصر سی زندگی کو اس کی تمام رنجشوں سمیت قبول کریں۔ اپنی مشکلات کو، ناکامیوں کو اون کرنا سیکھیں! اپنی محرومیوں کا الزام دوسروں کو مت دیں۔ جیسے اپنی کامیابیوں کو اون کرتے ہیں ویسے ہی ناکامیوں کو بھی بھرپور انداز میں ویلکم کیجیے۔

اگر چہرے پڑھنے کا ہنر آ جائے تو سمجھ لیں کہ قدرت نے بہت سے راز آپ پہ کھول کر آپ کے ظرف میں وسعت کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کئی کہانیاں آپ کی بصارت کے حصار میں رہنے لگی ہیں اور اگر آپ کتابوں سے عشق کرتے ہیں تو آپ میلوں کی مسافت صفحات میں طے کرتے، کئی زندگیاں ایک ہی زندگی میں جی سکتے ہیں۔ کتاب سے بہتر کوئی دوست نہیں۔ کتابیں جوانی میں رہنما، بڑھاپے میں تفریح اور تنہائی میں بہترین رفیق ثابت ہوتی ہیں۔ خود سے سوال پوچھیں زندگی کی مشکلات سے تھک کر آخری دفعہ کب کسی اچھی معیاری کتاب کا مطالعہ کیا تھا؟ زندگی کو آخری دفعہ کب محسوس کیا تھا؟ کب آخری دفعہ اپنے معاملات اس رب ذوالجلال کے سپرد کیے تھے جو ستر ماوٴں سے زیادہ شفیق اور مہربان ہے۔ آخری بار کب زندگی سے بھرپور قہقہہ مارا تھا؟ کیا آپ کو یاد ہے؟

ہر وہ صبح جس کا آغاز امید پر ہو ایسی ہر صبح روشن ہوتی ہے۔ جب آپ صبح آنکھ کھولتے ہی یہ محسوس کرنے لگیں کہ آج سب کچھ اچھا ہو گا اور بہترین ہو گا اس دن آپ کے رکے ہوئے کام بن جائیں گے۔ آپ کی کئی الجھنیں سلجھ جائیں گی کیونکہ ہماری سوچ کا ہمارے کام پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ یہ سوچ طے کرتی ہے کہ آپ کا آج کا دن کیسا ثابت ہو گا؟ مایوسی اور امید کا تعلق بیرونی ماحول سے نہیں اندرونی کیفیت سے ہے۔ برداشت کے ساتھ حالات ضرور بدل جائیں گے بس ذرا اندر ہی اندر مسکرانے کی ضرورت ہے یہ ایک راز ہے جو اسکول یونیورسٹیوں اور دیگر اداروں میں نہیں سکھایا جاتا۔

زندگی بہت قیمتی متاع ہے۔ اس کو وقتی غموں پر سوگ مناتے نہ گزاریں اپنی زندگی کو تعمیری کاموں پر لگائیں۔ یونیورسٹی، کالج، کتابیں سب یہ سکھاتے ہیں کہ کامیاب کیسے ہونا ہے؟ کوئی یہ کیوں نہیں سکھاتا کہ جاب چلی جائے تو کیا کریں گے؟ ناکام ہوجائیں، دل ٹوٹ جائے، مستقبل تاریک نظر آئے تو آگے کیسے بڑھیں گے؟ یہ سبق ہمارے عصری تعلیمی اداروں میں سکھایا جانا چاہیے۔ کامیابی کے ساتھ ناکامیوں سے لڑنا بھی ایک فن ہے جو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔

پیچھے رہ جاوٴ گے تکمیل ہنر میں ورنہ
کم سے کم ایک صدی ذہن کو آگے رکھو

زندگی میں کسی اور کا انتظار مت کیجیے کہ کوئی آئے گا آپ کو خاص محسوس کروائے گا۔ اپنی فکر خود کیجیے۔ ہمیں کبھی کبھار خود کو بھی وی آئی پی پروٹوکول دینا چاہیے۔ کبھی اپنے لیے ایک بھرا مگ چائے کا بنائیں اور گھر کے سب سے پرسکون کونے میں بیٹھ کر انجوائے کیجیے۔ یقین جانیے بہت اچھا لگے گا۔ خود کو وقت دیجیے۔ وہ چھوٹی چھوٹی جائز معصوم خواہشات جو زندگی کی الجھنوں میں کہی گم ہو گئی ہیں ان کو پورا کرنے کے لیے وقت نکالیں کیونکہ آپ سے بڑھ کر آپ کا اور کوئی نہیں!

یقین جانیے اپنی ذات کو سنوارنے پر وقت، پیسہ اور طاقت لگانا ہی زندگی کی بہترین سرمایہ کاری ہے۔ جو شخص اپنے ذہن کی طاقت کو صحیح معنوں میں سمجھتا ہے صرف وہی بہدف زندگی گزار سکتا ہے۔ بلاوجہ اپنے ذہن کو من گھڑت مسائل میں مت الجھائیے۔ اپنے آپ کو اوپر اٹھا لیجیے، خود کو بلند کر لیجیے۔ دوسروں میں محبت بانٹنے سے پہلے اپنی ذات سے محبت کرنا ضروری ہے۔ خود کو اہمیت دیں، پھر دیکھیے گا کہ آپ کیسے مشکلات کا رخ موڑنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ خود سے سوال پوچھیے کہ آپ اپنے پیچھے کامیابی کی کون سی لازوال داستان چھوڑ کے جائیں گے؟ ہر لمحے کو غنیمت جانیے۔ کچھ کر گزریے۔ محبتیں بانٹیں اور بھرپور انداز سے زندگی کے ہر لمحے کو جیئں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments