ٹرپل ون بریگیڈ کے کمانڈر کا کھرا سچ


دانا اور سمجھدار لوگوں نے جب یہ محاورہ تحریر کیا کہ جب کوئی شخص ”بوڑھے وارے عشق اور بوڑھے وارے سچ“ بولتا ہے تو وہ اپنی مشکلات کے حل اور مردہ ضمیر کو جگانے کی کوشش میں کرتا اور بولتا ہے۔ اسی لیے بہت سے لوگ اپنی عمر کے آخری حصے میں یا تو عشق کا شکار ہو جاتے ہیں یا اپنے اندر چھپے ہوئے رازوں سے پردہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ان کو آگے اپنا انجام نظر آ رہا ہوتا ہے۔ جن لوگوں نے دوران ملازمت آئین کی پاسداری کی ہو، حلف کی پاسداری کی ہو، پاکستانی قوم کی دل و جاں سے خدمت کی ہو تو لوگ اس کو اپنی ”Good Book“ میں ضرور شامل کر لیتے ہیں اور اس شخص کو اپنی ملازمت کے قصے اور کہانیاں نہیں سنانی پڑتی اور نہ ہی اس کا ضمیر اسے ملامت کرتا ہے بلکہ لوگ اس کے کردار سے پہلے ہی واقف ہوتے ہیں۔

اس کے برعکس جب کوئی شخص آئین کی پاسداری نہ کرے، حلف کی پاسداری نہ کرے، اپنی قوم کے ساتھ مخلص نہ ہو تو وہ شخص چاہے کتنے بھی بڑے عہدے پر فائز ہو لیکن قوم اس کو اپنی ”Bad Book“ میں شامل کر لیتی ہے اور وہ شخص جب اپنی عمر کے آخری حصے میں پہنچتا ہے تو اس کو سمجھ آ جاتی ہے کہ اب آگے میرا ٹھکانہ قبر ہی ہے اور موت سے اللہ کی ذات کے علاوہ کوئی نہیں بچا سکتا اس لیے وہ سچ بول کر اپنے آپ کو ”گڈ بک“ میں شامل کروانے کی کوشش کرتا ہے لیکن تب تک قوم حقائق سے واقف ہو جاتی ہے اور وہ شخص اپنے سچ اگلنے میں دیر کر دیتا ہے۔

حال ہی میں ٹرپل ون بریگیڈ کے سابق کمانڈر جنرل صلاح الدین ستی نے 12 اکتوبر 1999 ء کو نواز شریف کی ختم ہونے والی حکومت کے بارے میں چند اہم حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے اقرار کیا کہ جب اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹایا جا رہا تھا تو اس وقت وہ تمام آپریشن کی نگرانی کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے 12 اکتوبر 1999 کو اپنی سالگرہ پر انہوں نے گھر میں عصر کے بعد ختم قرآن رکھا تھا۔

ابھی میں نے آدھا سپارہ پڑھا ہو گا کہ بچے نے آ کر بتایا کہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹا کر ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف بنا دیا گیا ہے، یہ سن کر میں نے فوراً سپارے کو بند کیا اور کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد کو فون کیا مگر وہ ٹینس کھیلنے گئے ہوئے تھے۔ بعد ازاں میں نے ان کی اہلیہ سے کہا کہ فوراً ان تک پیغام پہنچائیں کہ ایسا ہوا ہے تو ہمارا رد عمل کیا ہو گا؟ اس کے پانچ سے دس منٹ بعد جنرل محمود کی کال آ گئی اور انہوں نے کہا کہ آرمی کے جوان پی ٹی وی بھیج دیں تاکہ آرمی چیف کی تبدیلی کی خبر رکوا دی جائے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کچھ جوانوں اور افسران نے پی ٹی وی جا کر نشریات رکوا دیں جس کے بعد وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر جاوید ملک وہاں ہتھیار لے کر پہنچے اور وہاں کے افسر کو پستول دکھا کر کہا آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ بریگیڈیئر صلاح الدین ستی نے کہا کہ 12 اکتوبر کو وہ خود بطور کمانڈر وزیراعظم ہاؤس تو کیا اسلام آباد بھی نہیں گئے بلکہ موبائل پر آپریشن کنٹرول کیا اور وہیں سے ساری ہدایات دیتے اور اطلاعات لیتے رہے۔

انہوں نے اس بات کا بھی اقرار کیا کہ مجھے تو نواز شریف ایک دھیمے مزاج کے بہت ہی میچور وزیراعظم لگے تھے کیونکہ ایک بریگیڈئیر کے لیے وزیراعظم کا عہدہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ فوج میں تو آرمی چیف بھی وزارت دفاع کے ماتحت ہوتا ہے لیکن میں میاں نواز شریف کی دل سے عزت کرتا تھا۔ جب میزبان نے ان کی بات کو ٹوکتے ہوئے جلدی سے یہ سوال کیا کہ کیا 12 اکتوبر کے واقعے کے بعد نواز شریف صاحب نے آپ کے خلاف کوئی کارروائی کی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نواز شریف نے ان کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی لیکن میں اس دن کو بہت ہی افسوس ناک دن سمجھتا ہوں کیونکہ اس دن مارشل لاء نہیں لگنا چاہیے تھا۔

اس سے قبل جنرل پرویز مشرف کی کمان کے نیچے بہت سے میجرز، کرنل، بریگیڈیئرز اور جنرلوں نے اپنی سروس کو جاری رکھا لیکن جب پرویز مشرف کا سورج غروب ہوا تو باری باری سب نے قوم کے سامنے مشرف کی پالیسیوں کے بارے میں روشنی ڈالنا شروع کی جس کو پرویز مشرف جھٹلانے سے قاصر رہے اور شاید اسی وجہ سے دبئی میں قدرت کی طرف سے خطرناک بیماری میں مبتلا ہیں۔ جنرل صلاح الدین ستی سے قبل سابق چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز نے بھی کارگل پر لڑی جانے والی پاک، بھارت جنگ کے خفیہ رازوں سے پردہ اٹھایا اور کہا کہ جب کارگل کی جنگ لڑی جا رہی تھی تو اس وقت وہ آئی ایس آئی کے اینالسز ونگ کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔

انہوں نے کہا کہ کارگل ایڈونچر صرف چار افراد کا فیصلہ تھا، باقی آرمی کو اس سے لاعلم رکھا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ کارگل آپریشن کا علم ابتدائی طور پر صرف آرمی چیف جنرل پرویز مشرف، چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل محمد عزیز، فورس کمانڈ ناردرن ایریا کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل جاوید حسن اور دسویں کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد کو علم تھا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف اپنے دور میں پورا سچ صرف اسے بتاتے تھے جس سے وہ کام لینا ہو، باقی سب سے راز رکھا جاتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ کارگل میں پاکستان کی انڈیا کے خلاف کی گئی کارروائی بہت کامیاب تھی لیکن انڈیا نے عالمی برادری کی حمایت کر کے پاکستان کو قبضہ شدہ علاقے خالی کروانے پر مجبور کیا۔ ان سے جب اس جیتی ہوئی جنگ کی ناکامی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ شکست کی بنیادی چار وجہ تھی: منصوبہ بندی غلط تھی، تیاری نامکمل تھی، جائزہ غلط تھا کہ دشمن کا جواب کیا ہو گا، باہر سے کیا دباؤ آئے گا، جنگ کے بعد ایگزٹ (Exit) اسٹریٹجی نہیں تھی۔

مختصراً جب اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے جب کارگل کی جنگ کے متعلق سوال کیا جاتا ہے تو وہ یہی کہتے ہیں کہ ایک آزاد کمیشن بنا دیں اور اس کے سامنے میں اور پرویز مشرف پیش ہو جاتے ہیں جو جھوٹا ہو گا اس کو سرعام پھانسی دے دی جائے لیکن جنرل پرویز مشرف میاں نواز شریف کے اس بیان سے کتراتے ہیں۔ اس کے علاوہ جنرل شاہد عزیز نے اپنی کتاب ”یہ خاموشی کہاں تک؟“ میں لکھا ہے کہ جب وہ فورٹ بیننگ (FORT BENNING) گئے تو امریکی فوج کے ایک افسر نے انہیں پیشکش کی کہ تم اسی رینک اور سروس کے ساتھ امریکی فوج جوائن کر سکتے ہو لیکن شاہد عزیز نے انکار کر دیا۔

کچھ عرصے کے بعد ایک اور کورس کے لیے پھر امریکا گئے تو اس مرتبہ ان کے ساتھ میجر اشفاق پرویز کیانی بھی تھے۔ ایک دفعہ پھر شاہد عزیز کو امریکی فوج میں بھرتی کی پیشکش ہوئی جو انہوں نے ٹھکرا دی۔ پھر کہا گیا کہ پاکستانی فوج میں رہ کر ہمارے لیے کام کرو۔ شاہد عزیز نے انکار کر دیا۔ یہ سب بیان کرنے کے بعد مصنف نے لکھا ہے۔ ”یہ صرف مجھ پر ہی تو عنایت نہیں کر رہے تھے، سب کو ہی دانہ ڈالتے ہوں گے، کامیابی بھی پاتے ہوں گے تب ہی تو سلسلہ جاری تھا۔“ بعد ازاں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز ریٹائرڈ ہو گئے اور ان کو چیئرمین نیب تعینات کر دیا گیا لیکن جب پرویز مشرف کا زوال قریب ہوا تو استعفیٰ دے دیا۔ جنرل شاہد عزیز نے اپنی کتاب میں بہت ہی اہم چیزوں کا تذکرہ کیا ہے جس کا مطالعہ ہر پاکستانی کو ضرور کرنا چاہیے تاکہ قوم بھی سچ کو جان سکے۔

آج بدقسمتی سے اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ سیاستدانوں اور ریاستی اداروں نے اپنے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ آج ملک کے اندر ایک دفعہ پھر گہما گہمی چھائی ہوئی ہے اور رعایا کی آواز کو دبانے کے لیے کوششیں جاری ہیں لیکن انہیں اس بات کا اندازہ نہیں کہ جس چیز کا آپ حلف اٹھاتے ہو، اسی حلف کے بارے میں قیامت والے دن ان سے حساب کتاب ضرور ہو گا۔ اگر آپ نے حلف کی پاسداری کی ہوگی تو اللہ تعالٰی آپ کو دنیا میں بھی عزت عطاء فرمائے گا اور آخرت میں بھی آپ کو بلند مقام پر فائز کرے گا اس کے برعکس اگر آپ اپنے حلف کی پاسداری نہیں کریں گے تو قوموں کے سامنے جتنے مرضی سچ بول لیں، نواز شریف کو گرفتار کرنے والے جنرل محمود کی طرح جتنے مرضی چلے تبلیغی جماعت میں کاٹ لیں لیکن آپ سے اس حلف کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا جس کو اٹھا کر آپ اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے ہو اور یہی بات سیاسی حکمرانوں کے لیے بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments