چوری اور سینہ زوری


فیصل آباد میں دو خواتین کو چوری کے الزام میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ خواتین غریب ورکر،کچرا چنتی تھیں یعنی ہمارا گند صاف کرتی پھرتی اور ان میں سے اپنا رزق تلاش کرتی تھیں۔ ہو سکتا ہے دکانداروں کا تحفظ درست ہو۔ وہ چور ہوں یا دن دیہاڑے کھلی آنکھوں چوری کی جرات رکھتی ہوں مگر انصاف کے تقاضے پورے کرنا کسی کو سزا دینے کے لئے ضروری ہوتا ہے بھلے وہ سمری ٹرائل کورٹ ہی کیوں نہ ہو۔ قبائلی نظام میں بھی کچھ قوانین ہوتے ہیں۔ جس مارکیٹ میں یہ واقعہ ہوا وہاں کی کوئی یونیئن تو ہوگی۔ یہ معاملہ وہ دیکھ سکتی تھی مگر ان تاجروں کا اتفاق اگر کسی بات پر ہے تو ٹیکس چوری کے نت نئے طریقوں پر ہے۔ بجلی چوری کے طریقوں پر ہے۔ ذخیرہ اندوزی پر ہے اور عوام کو لوٹنے کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے پر ہے۔
میں کبھی ایک چھوٹے سے قصبے کا میڈیکل افسر تھا۔ وہاں لوگ جھوٹ بولنے اور افواہیں پھیلانے کے ماہر تھے۔ صبح کوئی بات ہوتی شام تک امام مسجد سے لے کر اسٹیشن پر بھیک مانگنے والے فقیر تک سب کو پتہ چل جاتا۔ ایک بات وہاں مجھے پریشان کرتی تھی وہ سب لوگ نمازی اور باریش تھے۔ میں ان کی دینداری سے بہت متاثر تھا۔ ایک دن میں نے اپنے ملازم سے جو انہی میں سے تھا ،پوچھا کہ یار !یہاں تو سب اللہ کے نیک بندے رہتے ہیں تو وہ مسکرا کر بولا”سر جی! ایک نمبر کے جھوٹے اور بے ایمان ہیں۔ یہاں داڑھی رکھے بغیر کسی کا کاروبار نہیں چلتا”
افسوس اس بات کا ہے کہ ساری دنیا جنہیں وحشی، شدت پسند اور انتہا پسند کہتی رہی ہے اور جن کو ختم کرنے کے لئے افواج عالم دو دہائیوں کی جنگ کے باوجود زیر نہیں کر سکی، وہ مہزب ہوتے جارہے ہیں۔ وہ عورت کی حرمت کے قوانین بنارہے ہیں۔ یہ وہی قوانین ہیں جو چودہ سو سال پہلے محسن انسانیئت نے نہ صرف بنا دئے تھے بلکہ ان پر عمل کرکے یہ ثابت کر دیا تھا کہ عورت اور بیٹی سرداری کے لایق ہوتی ہے نہ کے سواری کے۔ طالبان جو عورت کے دشمن کہلائے جاتے تھے ،عورت کی حرمت کے قانون نافذ کر چکے۔ ہمارے یہاں سوائے ہر چیز کا کمشن بننے کے ،کوئی کام نہیں ہوا۔ ملک ٹوٹا کمشن بنا۔ ایبٹ آباد سے اسامہ پکڑا گیا، کمشن بنا ،ماڈل ٹاون سانہہ کمشن، یہاں جتنے زیادہ کمشن بنے اتنے زیادہ کمیشن کھائے گئے۔ عدالتوں کی بجائے جے آئی ٹی فیصلے کرتی رہی۔ ملک کے وزیراعظم کو پھانسی لگا دی گئی بعض میں کہا گیا عدالتی قتل ہوا ہے۔ پھانسی کی سزا دینے والے جج نے اعتراف کیا کہ مجھے وزیر اعظم نے ناراض کیا تھا۔ ایک وزیر اعظم کو اقامے پر نااہل کر دیا گیا۔ مرنے سے پہلے ایک جج اعتراف کر گیا کہ وزیر اعظم کو دی جانے والی قید کی سزا کے لئے دباو تھا۔ اس قسم کے کالے فیصلے کالی ڈکشنری کا سہارا لے کر کئے جاتے ہیں۔
پاکستان کے جمہوری سائنسدان بڑی پارٹیوں کو کمزور کرکے ،انہیں چور ثابت کرکے چھوٹے متشدد گروہوں کو طاقتور بنانے پر یقین رکھتے ہیں تاکہ ان گروہوں کو اپنی مرضی سے استعمال کیا جاسکے۔ یہ گروہ جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ کے ان جاگیر داروں کی طرح ہی استعمال کرنے کی چیزیں ہیں۔ یہ نام نہاد مذہبی لیڈر ہجروں سے نکل کر بڑی بڑی لینڈ کروزروں میں مذہب کی جھوٹی تشریحات کرتے پھرتے ہیں۔
سارے حکومتی،ریاستی ،میڈیائی اور مذہبی عوامل مل کر عوام کو متشدد کر رہے ہیں۔ سیالکوٹ کا سری لنکن شہری تو غیر مسلم تھا ،ان دو حافز قرآن بچوں نے کس کی توہین کی تھی جو اسی شہر میں ہجوم کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ پشاور یونیورسٹی کا بچہ کیا کفار کا ایجنٹ تھا جس کو ساتھی طلبا اور یونیورسٹی کے عملے نے مل کر مارا۔ ممتاز قادری کو جب ہیرو بنایا جائے گا اور انصاف کی دھجیاں اڑاتے بڑے جج چھوٹے ججوں کو غلط فیصلے کرنے پر مجبور کریں گے،پولیس کے قاتلوں کے ساتھ سمجھوتے کئے جائیں گے تو نتائج ایسے ہی ملیں گے۔ ابھی وقت ہے۔ انصاف اور احتساب کو درست کرکے تباہی سے بچا جا سکتا ہے۔ میری حالات حاضر پر ایک نظم ہے۔
ظلم کے دن سدا نہیں رہتے۔
. . . . . وقت ایماندار ہوتا ہے۔
آگ لگتی ہی رہی ہے جو وطن میں اب تک
لاش جلتی ہے ،تماشہ یہ جہالت کا ہے
موت کا جشن منانے کی جو بے تابی ہے۔
روک رکھ ،تو اسے،افلاس میں پستے مذہب
راستے روک کے دیوار بنے بیٹھے ہیں۔
منصفی لوگ یہاں خود ہی تو کرتے پھر ہیں
عدل جب آپ ہی کرتے ہیں تو مرتے پھر ہیں
جبر جب بھی نصاب ہوتے ہیں۔
قتل پھر بے حساب ہوتے ہیں
سب تماشے یہ عام ہوتے ہیں۔
عقل دعوے تمام ہوتے ہیں۔
جبر کا پھر حساب ہوتا ہے
ظلم آخر زوال ہوتا ہے
جبر کب پائیدار ہوتا ہے۔
عدل پھر احتساب ہوتا ہے۔
ظلم کے دن سدا نہیں رہتے
وقت ایماندار ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments