پھولن دیوی: ایک بھیانک خواب


کل رات دیر گئے میرے گھر کے دروازے پر زور سے دستک ہوئی، میں نے دروازہ کھولا تو چند پولیس والوں کواپنے سامنے کھڑا پایا۔ وہ کچھ گھبرائے ہوئے اور بہت جلدی میں تھے۔ میں نے پوچھا، میرے گھرپر اتنی زور سے دستک، اوروہ بھی اتنی رات گئے، کیا وجہ ہے؟ آپ کو لوگوں کے آرام کی کوئی پرواہ نہیں۔ یہ شریفوں کا محلہ ہے۔ میرے پڑوسی، میرے بارے میں کیا سوچیں گےکہ رات کے پچھلے پہر میرے دروازے پر پولیس والوں کی دستک۔ میرے چڑھتے پارے اور گرم لہجے کو بھانپتے ہوئے ایک نسبتاً سمجھ دار پولیس والا بولا، جی ہم تو اِس محلے کے ہر گھر میں دستک رہے ہیں اور ہمیں ایک عورت اور اُس کے گروہ کی تلاش ہے، کہیں وہ آپ کے گھر میں تو نہیں ۔
مجھے دل ہی دل میں پولیس والوں کی سادگی اور بے وقوفانہ سوال پر ہنسی آئی اور میرا غصہ رفو چکر ہوگیا۔ میں نے اَدب سے اور ذرا سی شرارتی مسکراہٹ سے جواب دیا، جی نہیں میرے گھر میں میری بیوی اور بچوں کے سوا کوئی نہیں۔ اور ہاں اتنی سردی ہے آپ اندر تشریف لائیں، آپ کو گرما گرم چائے پیش کی جائے گی۔ اندر ہی اندر مجھے اپنے رویے پر ذرا سی ندامت بھی تھی کہ میں نے بے چارے پولیس والوں کو غلط سمجھا اور بغیر سوچے سمجھے اپنی شرافت کا رعب جھاڑنے کی کوشش کی۔ پولیس والوں نے میری چائے کی دعوت تو قبول نہیں کی لیکن ان کے لہجے میں بدلاؤ آیااور ان کا انداز دوستانہ بھی ہو چکا تھا۔ جاتے ہوئے وہ مجھے نصیحت کر کے گئے کہ میں گھر کا دوازہ اچھی طرح بند رکھوں اور کوئی بھی دستک دے تو ہرگز نہ کھولوں۔ اُن کے بقول وہ کسی “پھولن دیوی” سے بھی زیادہ خطرناک عورت کی تلاش میں تھے جو کئی قتل اور اقدامِ قتل کی وارداتوں میں مطلوب تھی۔
پولیس والوں کو خیر باد کہہ کر جونہی میں گھر کا مین گیٹ بند کرنے لگا تو محسوس ہوا کہ کسی نے میری کنپٹی پر بندوق کی نالی رکھ دی ہے۔ میں نے مڑ کر دیکھنے کی کوشش کی تو کسی نے مجھے زور کا دھکا دیا اور ہاتھ کے اشارے سے چپ رہنے کو بھی کہا۔ ایک لمحے کے لیے میرے پاؤں کے تلے سے زمین کھسک گئی۔ پولیس والوں کے سامنے چلتی ہوئی میری تیززبان، اب گنگ ہو چکی تھی اور میرا لہجہ گویا برف کا گولا بن چکا ہو۔ بندوق بردار نے مجھے اپنے ہاتھ کے اشارے سے گھر کے اندر جانے کو کہا ۔ میں اب سمجھ چکا تھا کہ پولیس والوں نے اتنی زور سے میرے گھر کے دروازے پر دستک کیوں دی اور اب میرا واسطہ اس ” پھولن دیوی” یا اُس کے کسی کارندے سے ہے جو میرے گھر کے صحن میں کہیں چھپا بیٹھا تھا۔
خیر مرتے کیا نہ کرتے، بندوق والے کے اشارے پر ہم اپنے ڈرائنگ روم کے دروازے سے گھر کے اندر آ گئے۔ درمیانے قد کے اُس نقاب پوش نے ڈرائنگ روم کی کھڑکی کے پردے بند کرنے کو کہا اور لائٹ آن کرنے کا اشارہ دیا۔ میں نے اُس کاحکم بجا لایااور دل ہی دل میں بے تاب تھا کہ دیکھوں میرے مدِ مقابل کون ہے اور مجھے اِس صورتحال کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔ بلب روشن ہوتے ہی اُس نقاب پوش نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹایا، میں دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ میرے سامنے مردوں کے لباس میں ملبوس چالیس سال سے زیادہ عمر کی ایک عورت کھڑی ہے۔ جس کی آنکھوں میں کسی قسم کا خوف نہیں، اپنی باڈی لینگوئج سے بھی وہ بڑی پر اعتماد نظر آ رہی تھی۔ مگر اُس کےبندوق پکڑنے کا انداز پختہ نہ تھا۔ اپنے مدِ مقابل کو دیکھ کر میرا حوصلہ بڑھا اور میں نےاپنی تمام ہمت جمع کر کے پوچھا بی بی تمہیں کیا چاہیے۔ جو کچھ لینا ہے،لو اور میرے گھر سے چلتی بنو! میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ وہ آپ کو یا اِس گھر میں لڑائی جھگڑے والا منظر دیکھیں جو کہ اُن کے لیے کسی نفسیاتی صدمے کا سبب بنے۔ میرے گھر میں جو کچھ ہے لو اور یہاں سے دفع ہو جاؤ۔
میرے مدِمقابل کھڑی عورت ایک زخمی شیرنی کی سی آواز میں دھاڑی، تم نے سنا نہیں پولیس والوں کو کس کی تلاش ہے؟ ایک عورت کی جو پھولن دیوی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ میں ہوں وہ “پھولن دیوی”۔ یہ سننا تھا کہ میرے ہاتھوں کے گویا طوطے اُڑنا شروع ہو گئے ۔ لیکن علمِ نفسیات پڑھتے اور پڑھاتے ہوئے اتنا تجربہ ہو چکا تھا کہ ایسی صورتحال میں اپنے اعصاب پر کیسے قابو رکھا جائے اور اعصابی جنگ کیسے جیتی جا سکتی ہے۔ میں نے اپنے آپ کو با اعتماد ظاہر کرتے ہوئے ایک جذبات کا کھیل شروع کیا تاکہ مجھے اپنے مدِمقابل کو سمجھنے کے لیے کچھ اور وقت مل سکے۔ میں نےسوال داغا، پھولن دیوی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ظلم تھا اور اگر آپ کے ساتھ بھی کسی نے زیادتی کی ہے تو میں دلی طور پر آپ کے ساتھ ہوں مگر آپ جو کچھ کر رہی ہیں وہ طریقہ ٹھیک نہیں۔ اگر آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو قانون کا دروازہ کھٹکھٹائیے۔ صدر یا وزیرِ اعظم کو خط لکھو۔ کسی بڑے منصف سے فریاد کرو، کسی انسانی حقوق کی تنظیم سے مدد مانگو مگر شریف لوگوں کو تنگ مت کرو۔یہ چوری ڈاکہ اور ہم جیسے شریف لوگوں کو تنگ کرنا کہاں کی انسانیت ہے۔ آپ کو جو کچھ لینا ہے، لو اور میرے گھر سے نکلو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔
میری باتیں سن کر،میرا مدِمقابل اور بھی بھڑک گیا۔ اُس” پھولن دیوی “کی آنکھیں تو گویا آگ کا شرارہ بن چکی تھیں۔ وہ طنزیہ انداز بولی،میں نے تم جیسے شریف زادوں کو بہت دیکھ رکھا ہے اور اُن کی شلواریں گیلی ہوتے ہوئے بھی دیکھیں ہیں۔ اور ہاں کسی کی جرات نہیں جو مجھے ہاتھ لگائے اور میرے ساتھ زیادتی کرے۔ پھولن دیوی کی تو عزت لوٹی گئی۔ مگر میری تو دنیا ہی لٹ گئی۔ اب زندگی کا بس ایک ہی مقصد ہے تم جیسے شریف زادوں سے بدلہ لینا اور اپنے دشمنوں کو چن چن کر مارنا۔ میرے سامنے کھڑی بندوق بردار کی باتوں اور لہجے میں تلخی تھی۔ اُسے مذید جاننے کی اور اُس کی کہانی سننے کو دل کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا مجھ جیسے لوگوں کے ساتھ تمھاری کیا دشمنی ہے؟ ہم تو کبھی ملے بھی نہیں اور کس دشمن کو چن چن کر مارنے کی بات کر رہی ہو۔
وہ ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بولی، یہ سارے کالے دل والے میرے دشمن ہیں۔ انہوں نے میرے بیٹے کو مارا ہے۔ میں کسی کو نہیں چھوڑوں گی۔ جو جہاں نظر آیا، اُسے ماروں گی۔ اُن کو ایسے ہی تڑپا تڑپا کر ماروں گی جیسا کہ میرا بیٹا میرے سامنے مرا۔ اِن کے گھروں میں، اِن کے دفتروں میں، اِن کے پروگراموں میں گھس کر ماروں گی اور ایک ایک کو ماروں گی۔ اب وہ مجھے واقعتاً پھولن دیوی لگ رہی تھی۔ میں نے اُسے بیٹھنے کے لیے کہا اور بولا کہ مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ کیا آپ مجھے اپنی پوری کہانی سنانا پسند کریں گی۔ مجھے اُس کی کہانی سے زیادہ، اُس کا دل جیتنے میں دلچسپی تاکہ وہ مجھے اور میرے خاندان والوں کو کسی قسم کا گزند نہ پہنچا ئے۔ میں نے پوچھا، بی بی یہ کالے دل والے تمھارے دشمن کون ہیں؟ کیا آپ بتانا چاہیں گی۔
یہ کالے کوٹ والے، یہ نام نہاد قانون دان، یہ گنوار، یہ ایسے، یہ ویسے، یہ ہیں میرے دشمن۔ میں نے مذید وضاحت چاہی اور پوچھا کالے کوٹ سے مراد کوئی وکیل ہے یا کوئی اور۔وہ غصے سے بولی کوئی ایک وکیل نہیں، سب وکیل۔ سب وکیل میرے دشمن ہیں اور میں ایک ایک کو چن چن کر ماروں گی۔ اُنہوں نے میرے بیٹے کو مارا۔ میرا جوان بیٹا، میرے سامنے تڑپ تڑپ کر مرا۔ اُس کا آکسیجن اتارا، مجھے دھکے دئیے، اُس کے چھوٹے بھائی کو زدوکوب کیا۔ ظالموں کو ذرا بھی رحم نہیں آیا کہ سانسیں توڑتے مریض کی حالت ہی دیکھ لیں۔ ہسپتال کے تقدس کا خیال ہی رکھ لیں۔ میرا بچہ تو مر گیا۔ اب سب کے بچے مریں گے۔ اُن کی مائیں بھی روئیں گی۔ اُن کے بھائی بھی تڑپیں گے۔
مجھے اس کے حالات کا کچھ اندازہ ہو گیا اور اُس عورت کے ساتھ پیش آنے والے حادثے کا بھی۔ میں نے اُسے جھوٹی تسلی دی اور سمجھانے کی ناکام کوشش کی کہ وہ چند لوگوں کا ایک جذباتی فعل تھا۔ وہ ہمارے معاشرے کے چہرے پر ابھرنے والا، ایک بدنما داغ ہیں، وہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہیں مگر اِس میں میرا کیا قصور ہے۔ میں نے اُسے ہمدردی جتلانے کی کوشش کی کہ مجھے بھی اُس واقعہ کا اِتنا ہی دکھ ہوا جتنا اُسے۔ کسی فرد کے ذاتی فعل کی سزا پورے گروہ یا معاشرے کو نہیں ملنی چاہیے۔ میں بولتا گیا اور محسوس کیا کہ میرے سامنے بیٹھی “پھولن دیوی”، میری باتوں سے بور ہو رہی ہے۔ میں نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی کہ قانون کا احترام ہم سب پر فرض ہے۔ بدلے اور نفرت کی آگ ہم سب کو جلا کر بھسم کر دے گی۔ تمھاری کوکھ اُجڑی تو کیا اب سب ماؤں کے بچے مارو گی۔ معافی اور در گذر سے کام لو۔ اور سب سے اہم تم اکیلی پورے سسٹم سے نہیں لڑ سکتی۔ تم اکیلی ہو اور بے موت ماری جاؤ گی۔
یہ سننا تھا کہ وہ عورت اپنی جگہ سے اُٹھی اور مجھے اپنا بھاشن بند کرنے کا حکم دیا۔ تم کیا سمجھتے ہو، میں اکیلی ہوں۔ نہیں، اِن سیاہ بختوں نے، اِن کالے کوٹ والوں نے جس جس کو تھپڑ مارا ہے وہ سب میرے ساتھ ہیں۔ کوئی کھل کر بولے نہ بولے لیکن سب اِن سے نفرت کرتے ہیں۔ اور جو بھی اِن بدمعاشوں کے حق میں بولے گا، اِ ن کی حمایت کرے گا، سب مارے جائیں گے۔ اب مجھے اُس کا بھاشن سننا پڑ رہا تھا۔ وہ اب مجھے ایک لیڈر دیکھائی دینے لگی جو ظلم کے خلاف بر سرِ پیکار ہو۔ وہ سسٹم پر لعن طعن کر تے ہوئے بولی، جن وردی والوں کو، جن ججوں کو، جن عام شہریوں کو، جن مظلوم عورتوں کو اِن لعنتی سیاہ دل والوں نے تھپڑ مارے، سرِعام ذلیل کیا، اُن کو سسٹم نے کونسا انصاف دیا جو مجھے ملے گا۔ اب بس ایک ہی حل ہے۔ ہم اِن کو چن چن کر ماریں گے اور یہ جنگ اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک خناس کا خاتمہ نہیں ہوجاتا۔ وہ میرے چہرے پر چھائے خوف کو بھانتے ہوئی بولی، ڈرو مت، میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گی۔ ابھی کچھ دیر بعد میرے ساتھی مجھے لینے کے لیے آ جائیں گے اور تب تک میں تمھاری مہمان ہوں۔ یہ بات سن کر میری جان میں جان آئی اور پھر ہم دونوں خاموش تماشائی بنے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ اِتنی دیر میں قریبی مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے موذن کی حی الی الفلاح اور الصلاة خيرم من النّوم کی صداوں سے میری آنکھ کھل گئی اور یہ 16 دسمبر کی صبح تھی۔ میں اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا اور میرے کمرے میں کوئی بھی نہیں۔ وہ “پھولن دیوی”، وہ پولیس والوں کی دستک، وہ ڈرائنگ روم میں ہماری باتیں، وہ سب ایک بھیانک خواب تھا۔
 لیکن میں سارا دن سوچتا رہا یارب یہ ماہِ دسمبر، ہر بارمیری ارضِ پاک میں اُداسیاں بکھیرنے کیوں چلا آتاہے۔ یہ وہی دسمبر ہے ناں جس میں معصوم بچوں کو، سکول کے اندر نفرت اور انتقام کا نشانہ بنایا گیا مگر وہ تو غیر تھے، اَن پڑھ، گنوار تھے، انتہا پسند تھےاور پھر اُن سے ہماری جنگ بھی ہو رہی تھی۔ پھر وہی دسمبر جس میں ہمارے ایک ہسپتال پر حملہ ہوا۔ اب کی بار نفرت اور دشمنی کا نشانہ بے چارے مریض بنے۔ حملہ کرنے والے غیر نہیں ۔ اپنے ہی تھے، پڑھے لکھے، بظاہر لبرل اور اچھے خاندانوں کے چشم و چراغ بھی۔ کسی جرنیل نے سچ کہا پاکستان کو خطرہ باہر کے دشمنوں سے نہیں، اندر سے ہے۔ ہمارے اندر چھپی اِن کالی بھیڑوں کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟ کیا عوام کے صبر امتحان لیا جا رہاہے؟ اگر عوامی صبر کا یہ پیمانہ لبریز ہوا تو کوئی دستار سلامت نہیں بچے گی۔ ہر کوئی پھولن دیوی کی طرح قانون اپنے ہاتھ لے کر اپنے دشمنوں کو چن چن کر اور گھس کر مارنے کے لیے نکل پڑے گا۔ دن میں پانچ مرتبہ حی الی الفلاح اور حی الی خیرالعمل کی صدائیں سننے والی یہ قوم نہ جانے کب فلاح اور خیر کے راستے پر آئے گی؟
پس تحریر
وکلاء کا لاہور میں واقع ایک ہسپتال پر حملہ اور مریضوں کو زدو کوب کرنا. (دسمبر 2019)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments