بنگالی الگ ہو کر کتنا پچھتا رہے ہوں گے


فواد چودھری صاحب نے ٹویٹ کر کے قوم کو مطلع کیا کہ پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک میں پٹرول کی قیمت کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو ”پاکستان میں اس وقت پٹرول کی قیمتیں خطے میں سب سے کم ہیں۔ پاکستان میں 138.73 روپے لیٹر، بھارت میں 258 روپے لیٹر اور بنگلہ دیش میں 180 روپے لیٹر ہے“ ۔

فواد چودھری صاحب کی یہ ٹویٹ دیکھ کر خیال آ رہا ہے کہ بنگالی اب پچھتا رہے ہوں گے کہ انہوں نے مغربی پاکستان سے الگ ہو کر اپنا کباڑا کیوں کیا۔ وہ آج پاکستان کے ساتھ ہوتے تو انہیں اتنا سستا تیل مل رہا ہوتا کہ پانچوں انگلیاں تیل میں اور ”سر“ کڑاہی میں ہوتے۔

علیحدگی کے بعد ان بچاروں کو ایک ڈالر کے بدلے صرف 85 ٹکے ملتے ہیں جبکہ ہماری طرف روپے پیسے کی اتنی ریل پیل ہے کہ امریکی ہمیں ایک ڈالر کے بدلے ہاتھ جوڑ کر 182 روپے دیتے ہیں۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تفکرات میں گھرے مرد اور خواتین اپنی جنسی صلاحیت میں کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہاں بنگلہ دیش میں یہ بات ثابت بھی ہو چکی ہے۔ جب وہ پاکستان سے الگ ہوئے تو وہ کل آبادی کا 54 فیصد تھے۔ الگ ہونے کے بعد انہیں ایسی زبردست ٹینشن ہوئی کہ آج پاکستان اور بنگلہ دیش کی آبادی کا تقابل کیا جائے تو وہ مجموعی آبادی کا محض 43 فیصد رہ گئے ہیں۔ اس میں ظاہر ہے کہ کچھ ہاتھ خوراک کی فراوانی اور حکیمی کشتہ جات کا بھی ہو گا جن کی ہمارے ہاں ریل پیل ہے لیکن بنیادی وجہ ٹینشن ہی لگتی ہے۔

اس کے علاوہ وہاں ایک سے بڑھ کر ایک عذاب ٹوٹ رہا ہے۔ ساری دنیا والے بشمول پاکستان اپنی فیکٹریاں اٹھا کر بنگلہ دیش لے جا رہے ہیں اور بنگالیوں کو محنت مزدوری پر مجبور کر رہے ہیں جبکہ ہم پاکستانی یہاں سکھ کا سانس لے رہے ہیں اور تصور جاناں کیے فارغ بیٹھے ہیں۔ اس امر کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں معصوم شہریوں سے اتنا زیادہ کام لیا جا رہا ہے کہ بنگلہ دیش کی جی ڈی پی فی نفر 1,962 ڈالر ہو چکی ہے جبکہ ہم اتنی آسان زندگی گزار رہے ہیں کہ ہماری فی نفر کل قومی پیداوار محض 1,189 ڈالر ہے۔

بنگلہ دیشی معاشرے سے سکون رخصت ہوا اور مادیت پرستی در آئی۔ وہاں فی نفر آمدنی 1,777 ڈالر ہے جبکہ ہم دنیاوی نہیں بلکہ سکون کی دولت سے مالا مال ہیں اور ہماری فی نفر آمدنی 1,186 ڈالر ہے۔ سچ ہی کہا ہے کسی سیانے نے کہ دولت سے ہر چیز نہیں خریدی جا سکتی ورنہ بنگالی بھی ہماری طرح خوش باش اور مطمئن ہوتے۔

خوشی کی بات چلی تو یہ بیان کرنا مناسب ہو گا کہ بنگالی رات کو یہ سوچ کر چین کی نیند بھی سونے سے محروم ہو چکے ہیں کہ ایک طاقتور فوج سرحد پر ان کی حفاظت کے لیے کھڑی ہے۔ بنگلہ دیش اپنی جی ڈی پی کا محض 1.3 فیصد اپنی فوج پر خرچ کرتا ہے۔ جبکہ پاکستان اپنی جی ڈی پی کا 4 فیصد اپنے دفاع پر خرچ کرتا ہے اور ہمیں ہرگز یہ فکر نہیں کہ ہمارے چار ہمسائے ہم پر حملہ کر دیں گے اور ہمارے علاقے چھین کر اپنا حصہ بنا لیں گے۔

یہ بھی یاد رہے کہ بنگلہ دیش کے پاس ایٹم بم بھی نہیں اور بنگالی ہر وقت لرزتے رہتے ہیں کہ جانے کس وقت انڈیا بنگلہ دیش میں اپنی فوجیں داخل کر کے اپنا اکھنڈ بھارت کا سپنا پورا کر لے اور بنگلہ دیش کو اپنا حصہ بنا ڈالے۔ ان کی عاقبت نا اندیش قیادت نے ایٹم بم بنانے کی بجائے اپنے واحد ہمسائے انڈیا سے تعلقات بہتر کر کے پیداواری فیکٹریاں لگانے پر اپنی توجہ مرکوز کی اور یوں وہ آج غیر محفوظ ہوئے بیٹھے ہیں۔

قیادت کی بات چلی تو یہ بھی دیکھ لیں کہ وہاں قومی مفادات سے ناآشنا اور نہایت کرپٹ سیاست دان حکومت پر براجمان ہیں۔ محب وطن قیادت کو وہاں حکومت کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا۔ بلکہ حکومت کرنا تو ایک طرف، ان محب وطن اداروں کو تو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ کرپٹ سیاست دان کوئی غلطی کر رہے ہوں تو ڈنڈا دکھا کر انہیں راہ راست پر لے آئیں۔ حتیٰ کہ ایک چیف جسٹس تک کو بنگالیوں نے جیل بھیج دیا ہے۔ یوں بنگالی تباہی و بربادی کی عمیق کھائی میں گرتے جا رہے ہیں اور کوئی انہیں بچانے والا باقی نہیں رہا۔

پھر وہاں چنگیزی بھی بہت ہے۔ حکیم الامت فرما گئے ہیں کہ جُدا ہو دِیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ اور یہ بات بنگال میں عیاں ہے۔ وہاں کسی جماعت کو یہ حق ہی حاصل نہیں رہا کہ دین کے جملہ حقوق وہاں کی سیکولر حکومت سے چھین کر جنت کما سکے اور دوسرے شہریوں کو بھی ڈنڈے اور دھرنے کے بل پر یہ کمائی کروائے۔ نہ ہی وہاں ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے ویسا جوش و خروش اور عوامی جزا و سزا کا نظام ہے جیسا ہمارے ہاں ہے۔ وہ تو دین کو سیاست سے الگ کیے بیٹھے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ریاست کا مذہب نہیں ہوتا بلکہ یہ فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔ کیا ہم نے انگریز سے آزادی اسلام کے نعرے پر نہیں لی تھی اور یہ قرارداد کیا بنگالیوں نے پیش نہیں کی تھی؟

اپنا سب کچھ گنوانے کے بعد اب بنگالی ہم سے الگ ہو کر کتنا پچھتا رہے ہوں گے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments