دھوپ کے پجاری


شفاف اور نکھرے ہوئے راستے دل کی دہلیز تک رسائی کے راستے ہیں اور گرد و غبار سے اٹے پڑے راستے تو منزل سے دور ہونے کا استعارہ ہیں  جو مسافر کو منزل سے ہی نہیں، نقش پا سے بھی محروم کر دیتے ہیں۔ ظفر صاحب نے کہا تھا
صاف و شفاف تھی، پانی کی طرح، نیت دل
دیکھنے والوں نے دیکھا، اسے گدلا کر کے
توجہ طلب بات یہ ہے کہ ایسے کون سے عوامل ہیں جنہوں نے چمن کی رعنائی کو روند ڈالا کہ جہاں گل اور بلبل بھی ملاقات کے لیے ترس گئے۔ماحول اتنا تنگ ہو گیا کہ سانس لینا مشکل ہو گیا۔ اور سانس کے مرائض میں مبتلا مریض مزید مشکل حالات سے دوچار ہو گئے۔ نزلہ زکام والے مریض جو عالمی وبا کرونا بخار کا شکار ہوئے ان میں بیماری کا زور زیادہ تھا۔ حقیقت یہ کہ سانس سے جڑے ہوئے ایسے بہت سے عوامل کو ماحول دشمنی متاثر کر رہی ہے۔  کئی برس پہلے ڈنمارک میں بچوں کے سکولوں کو اس لیے تالے لگا دیئے گے کہ ماحول میں فضائی آلودگی کا تناسب ایک خاص مقدار سے زیادہ تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے آلودگی کے اس سلسلے کی مثال ” پھر سلسلہ ٹوٹا نہیں، درد کی زنجیر کا” ایسی ہوگئی۔
ہمارے ہمسایہ ملک کی اعلی عدلیہ بھی اپنی حکومت پر خوب برہمی کا اظہار کر رہی ہے، دہلی حکومت سے ناراضی کی وجہ یہی فضائی آلودگی ہے جس کے گہرے بادل دہلی کے ارد گرد منڈلا رہے ہیں۔ زمینی و فضائی فاصلہ زیادہ نہ ہونے کہ وجہ سے ہماری سر زمین بھی ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے جس میں دہلی مبتلا ہے۔ ماہرین کے نزیک وجوہات یہ ہیں کہ کہ ہمسایہ ملک کے ہمارے بارڈر ایریا سے متصل علاقوں میں گندم و چاول کے پھوک داد تنے اور منوں کے حساب سے موجود غیر ضروری خشک تنکے کو آگ لگائی جاتی ہے جو ارد گرد کے ماحول کو شدید متاثر کر رہی ہے۔ اپنے طور پر بھی ہماری تیاری ماحولیاتی چیلنجز سے نبٹنے لے لیے ناکافی ہے۔ دو سال پہلے ٹڈی دل نے حملہ کیا تو بمشکل سپرے کے لیے ایک ہیلی کوپٹر کا بندوبست ہو سکا مگر اس وقت تک ٹدی دل فصلوں کا خاتمہ کر چکا تھا۔ “ائیر کوالٹی انڈیکس” ماحول کی شفافیت کو پرکھنے کا پیمانہ ہے۔ایک طرف لاھور اس کے بخیے ادھیڑ رہا ہے تو دوسری طرف دہلی اسکے صاف شفاف وجود کو تار تار کر رہا ہے۔ سموگ اور فوگ سردیوں کی آمد کا انتظار کرتے ہیں۔ بات صرف فضائی آلودگی تک محدو نہیں، آبی آلودگی بھی پینے کے پانی کے بڑے حصے کو متاثر کر رہی ہے۔ جس کی تفصیلات کسی اگلی تحریر میں۔
 گرین بیلٹ کو ایک دہائی میں کمرشل صنعتی  مراکز مںں بدل دیا گیا۔ اسلام آباد میں واقع بلیو ایریا، جو گرین بیلٹ کی جنت تھا، کو جا بہ جا سیمنٹ کے پہاڑوں سے لاد دیا گیا۔ جس شہر کو ایک جدید ماڈل اور ترتیب سے قائم کیا گیا تھا، کس بے دردی سے اس کے حسن اور قدرتی ماحول کو متاثر کیا جا ریا ہے۔ ان  دنوں عدلیہ کی طرف سے کراچی میں قابل اعتراض تعمیر شدہ بلند و بالا عمارتوں کو مسمار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کمزور جمہوری قدروں والے ممالک میں بااثر لوگ حکومت وقت کے ہم نوالہ رہتے ہیں اور قاعدے قانون سے بالاتر رہتے ہوتے ہوئے ایسے کام کر گزرتے ہیں جو چند مخصوص لوگوں کے لیے تو باعث راحت بنتے ہیں مگر  عام آدمی چنداں انکے “فیوض و برکات” سے محروم رہتا ہے۔
عالی بحث کا محور یہ نکتہ ہے کہ ایک سے دو ڈگری سینٹی گریڈ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو بڑھنے سے مگر کیسے روکا جائے۔ ان تمام اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے “پیرس معاہدہ” ترتیب دیا گیا تھا جس پر عالمی سطح پر کام جاری ہے۔ خطرناک لہروں کو روکنے والی اوزون کی حفاظتی تہہ کو متاثر صرف جنگلات کا بے دریغ کٹائو ہی نہیں کر رہا بلکہ بڑھتی ہوئی ٹریفک، کمرشل و گھریلو تعمیراتی کام، فیکٹریوں کا فضلہ وغیرہ سب شامل ہیں ۔ اس سے طرف انسانی زندگی ہی نہیں، کرہ ارض پر بسنے والے تمام جاندار متاثر ہو رہے ہیں۔ قدرتی وسائل میں ایک نعمت شفاف ہوا ہے جو گرد و غبار کی نذر ہو چکی ہے۔ آپ کسی بھی بڑی شاہراہ سے گزریں اور اسکے اردگرد بسنے والے درختوں کے پتوں کی حالت دیکھیں کہ کیسے آنکھوں کو راحت بخشنے والا سبزہ ٹریفک کے غبار سے اٹا ہوا نظر آتا ہے۔ بات سڑکوں کے اردگرد گرین بیلٹ کی ہو یا گھریلو گلیوں کے آس پاس پیدل چلنے والوں کے لیے مختص کردہ کشادہ ایریا کی، یہ سب جغرافیہ “رہائشی آبادی” کے معماروں کو پیارا ہو چکا ہے۔ تعمیراتی اکائی سیمنٹ بجری نے کس تیزی کے ساتھ جنوبی پنجاب کے جنگلات کا صفایا کیا ہے۔ یہ منصوبہ سازوں کے لیے سوچنے کا مقام ہے۔ ملتان کے آموں کے باغات زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ نئی گھریلو کالونیاں بنانے والوں نے جنگل کے جنگل اینٹوں کے پہاڑوں اور ماحول کو آگ لگانے والے انگاروں میں بدل دیے ہیں۔
احمد مشتاق نے کہا تھا
یہ کس ترنگ میں ہم نے، مکان بیچ دیا
درخت کاٹ لیے، سائبان بیچ دیا
 بڑھتی ہوئی آبادی اور قدرت کے عنایت کردہ وسائل میں عدم توازن ماحولیاتی مسائل کی اصل جڑ ہے۔ دنیا 2050 تک ماحول دوست اقدامات کو عملی جامہ  پہنانے میں مصروف ہے۔ اور ہماری جو بھی حکومت ہو وہ ماحول کو بہتر کرنے کی بجائے اپوزیشن کو “ٹھیک” کرنے میں مشغول رہتی ہے۔ جنگلات کا ماحول کو صاف رکھنے، آبی کناروں کو مضبوط کرنے اور درجہ حرارت کو توانا رکھنے میں اہم کردار ہے۔ اس پیغام کو درسگاہوں سے لے کر گھر گھر تک پہنچانا پڑے گا۔ ایسا نہ ہو کہیں ہم گھنی چھائوں کی نعمت اور پرندوں کی کانوں میں رس گھولتی بولیوں سے محروم ہو جائیں۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عثمان غنی، میرپور
Latest posts by ڈاکٹر عثمان غنی، میرپور (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments