ماضی کا سفر


کہتے ہیں ماضی میں جانا ڈپریشن اور مستقبل کی سوچ اینگزائٹی، بے چینی جبکہ حال میں رہنا سکون کا باعث ہوتا ہے، لیکن عمر رفتہ کو آواز دینے کا الگ ہی مزہ ہے، کس کا دل نہیں کرتا وہ لمحے بھر کے لئے گزرے دنوں کی یاد تازہ کرے وہ سارے واقعات ، باتیں ،ہنسی خوشی اور غم کے دورانیے سب ایک نشست میں ذہنوں کے دریچوں  پرٹھنڈی ہوا کا جھونکا بن کر دستک دینے لگے۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ زندگی کی تلخیاں بھلانے اور پریشانیاں بھگانے کی خاطر اچھے اور کبھی تلخ لمحوں کو یاد کرتا ہے۔ اس میں عجیب سا نشہ ہوتاہے۔ یہ سب دوستوں کے مل بیٹھنے سے ہی ممکن ہے۔ ایسی خواہش کے نتیجے میں کئی پلاننگ سیشن گزر جاتے ہیں، مگر وقت نہیں مل پاتا۔ لیکن اگر پیاروں کی محفل جم جائے پھر بڑا لطف آتاہے، ہم اکثر ماضی کو محض اس لئے دہراتے اور یاد کرتے ہیں کیونکہ اپنے حال کو ماضی بنانے میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے یعنی ملاقات کا مزہ اسی لمحے ماضی کے صندوق میں رکھنا شروع کردیتے ہیں جب تصاویر لینے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ جیسے ہم کسی خوبصورت مقام کی دلکشی اپنی آنکھوں میں محفوظ کرنے کے بجائے وہاں سیلفیاں بنانے میں لگ جاتے ہیں، مطلب آنے والے دنوں میں اس مقام کی یادیں تازہ کرسکیں۔
گزشتہ دنوں سکول دور کے ایک دوست مسعود جنہوں نے چند برسوں قبل مجھے فیس بک کے ذریعے تلاش کیا، وہ کینیڈا میں ایک آئل کمپنی میں اچھے عہدے پر فائز ہیں، بتاتے ہیں کہ میرا ذکر بھی بچوں سے سکول کی باتوں میں کردیا، اس کے رابطے کرنے پر خوشگوار حیرت ہوئی، سلسلہ جاری رہا، اور ایک ملاقات آنے والے دنوں میں طے پاچکی تھی۔ دسمبر کے آغاز میں ایک کلاس فیلو نے بتایا مسعود آئے ہیں۔ خواہش ہے کہ کلاس کے جتنے دوست ہوسکیں انہیں ایک جگہ اکٹھا کیا جائے اور اس دعوت میں ماضی کا سفر کیا جائے۔
مقام طے پایا اور میں نے بھی رضامندی ظاہر کردی۔ اتفاق ایسا کہ کالج دور کے ایک دوست بھی ڈنمارک سے آئے تھے، انہیں اس دعوت کا خصوصی طور پر حصہ بنالیا گیا۔
نشست میں زیادہ نہیں مگر کئی دلچسپ واقعات ایک کے بعد ایک یاد کئے گئے، ایک نے دوسرے کو بتایا کہ تم نے میٹرک کے امتحان میں نقل کے لئے کتنے جتن کئے، اس نے چار دہائیوں کے بعد بڑی سادگی سے وضاحت کی ،جناب ایسا کچھ نہیں تھا، ممتحن میرے جاننے والا تھا، اس کی عادت تھی، بچوں کو تنگ کرنے کی، جس کی وجہ سے مجھے ایسا تاثر دینا پڑا۔ اب یہ بات کسی کو سمجھ نہیں لگی، لیکن بات سے بات چل پڑی۔ کسی اور موضوع پر گفتگو کاسلسلہ جاری رہا۔ کچھ ذکر ٹیچرز کا بھی ہوا، ہماری اکثریت میٹرک میں ہی طویل قامت تھی، ایک استاد کا قد چھوٹا تھا، انہیں ہمارے کان پکڑنے میں دقت ہوتی تھی، غصے میں آکر ٹھڈے مارنے لگتے، سخت چاک مل جاتا تو کہتے ، بھارتی وزیراعظم اس وقت کی،،اندراگاندھی کے دل سے بھی زیادہ سخت ہے، نرم چاک کو عاشق کے دل سے ملادیتے۔ شرارتی بچے کو چغدکہنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ اور کبھی کبھار کہتے تم کیا بندریا کی طرح پھدک رہے ہو، ایک روز کسی دوست نے دور سے آتے دکھایا، بڑے سائز کے سائیکل پر چشمہ پہنے نہ جانے کیوں سرکس کا کردار لگے(سائیکل چلانے والا بندر)۔ مسعود نے یاد دلایا کہ سائنس ٹیچر انگوٹھا ایسے مروڑتے کہ چیخیں نکل جاتی تھیں۔
مسعود اور میرے ساتھ ایک جیسا واقعہ پیش آیا، ٹیچر نے پوچھا ہوم ورک کہاں ہے، میں نے کہا،سر ہم گھر بھول آئے انہوں نے کہا تم کتنے ہو، میں پہلے تمہارے صیغے درست نہ کروں،کسی نواب کی اولاد ہو۔ اس کے بعد میری اور مسعود کی دونوں ہاتھوں سے قوالی کی مطلب جی بھر کر پٹائی کی گئی۔
سکول کالج یونیورسٹی گلی محلہ گاوں کسی بھی مقام کا صرف حوالہ دینا ہوتا ہے اصل مقصد گزرے ایام کے ڈھیر سے اپنے من پسند لمحے چن چن کر الگ کرنا ہوتے ہیں۔ جنہیں کسی ہرانے سگار کی مانند لبوں میں دبا کر کسی بڑی خواہش کی تسکین کرنا اولین ترجیح ہوتی ہے۔
زندگی میں آگے بڑھنے اور کچھ پالینے کا جذبہ اور سوچ بعض اوقات ہمیں ان بچھڑے رشتوں کی بحالی سے روکے رکھتے ہیں لیکن کئی لوگ کسی مصروفیت کو سامنے نہیں انے دیتے اور باہمی رابطوں کے بندھن میں بندھے رہتے ہیں۔ ماضی کے ایسے سفر مستقبل میں دہرائے جانے کے نتیجے میں ایک بھرپور گزرے وقت کا خزانہ اکٹھا کردیتے ہیں۔ اسے پالینے کی خوشی جانچنے کا شاید کوئی پیمانہ نہیں لیکن ملنے کی خواہش بہت مضبوط تعلق کی گواہ بن جاتی ہے۔
شکریہ مسعود آپ نے ایک بار پھر سب کو ماضی کی حسین وادیوں کی سیر کرادی۔
نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments