عمرانی حکومت اور عوام


وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں 10 مئی 2019 سے 8 اپریل 2020 تک چیئرمین ایف بی آر رہنے والے شبر زیدی گزشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے جن میں اُن کا کہنا تھا کہ ہم کہتے رہے ہیں کہ بہت اچھا ہے، بڑی اچھی چیزیں ہیں اور ملک بڑا اچھا چل رہا ہے، ہم نے بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے اور تبدیلی لے آئے ہم مگر یہ سب غلط ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ میری رائے کے مطابق اس وقت ملک دیوالیہ ہوچکا، اکاؤنٹنگ کی اصطلاح میں ملک دیوالیہ ہوچکا۔ شبر زیدی کا کہنا تھاکہ جب آپ یہ طے کرلیں کہ ہم دیوالیہ ہوچکے ہیں اور اس سے آگے ہمیں چلنا ہے، یہ زیادہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ آپ کہیں کہ ملک اچھا چل رہا ہے، میں یہ کردوں گا، میں وہ کردوں گا، یہ سب لوگوں کو دھوکا دینے والی باتیں ہیں۔ شبر زیدی لوگوں کو سچ بتا کر چکے گئے لیکن کسی حکومتی ترجمان ، وزارت خزانہ کے کسی نمائندے کی طرف سے تردید نہیں آئی ، بڑے کہتے ہیں کہ خاموشی کو ہاں ہی تصور کیا جاتا ہے یقیناً یہ سب سچ ہے اسی لیے تو عوام کی چینخیں آسمان تک جا رہی ہیں لیکن دوسری طرف عمرانی حکومت کے وزراء کو کوئی تکلیف نہیں ہے شاہانہ لائف سٹائل ہے اور روپے، گاڑیوں، نوکروں، چاکروں کی رہل پہل ہے حالانکہ عمران خان نے روزانہ کی بنیاد پر ملک سے کروڑوں روپے کی کرپشن روکنے ، باہر سے لاکھوں ڈالر واپس لانے ، ملک کو کرپشن سے پاک کر کے قرضہ ختم کرنے اور سب سے بڑا جھوٹ ایک کروڑ نوکریاں دینے کے کئی وعدے بھی عوام کو یاد ہیں عمران خان اچھے کپتان ضرور تھے اچھے بولتے بھی ہیں اقوام متحدہ کی تقریر کے بعد امت مسلمہ کے لیڈر قرار بھی دے دئیے گئے لیکن بہت سارے دور رس اثرات اور نتائج کو سامنے رکھنے تبصرہ نگاروں نے کہا تھا کہ عمران خان کو بولنے کے لیے وزیراعظم ضرور رکھ لینا چاہیے لیکن ملک کے نظام کو چلانے کے لیے ایک وزیراعظم اور رکھنا چاہیے جہاں تک ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ وفا کرنا تھا وہاں پاکستان میں بیروزگاری کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی،  ملک میں بے روزگاری کی شرح 16 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو 6.5 فیصد کے حکومتی دعوے کے برعکس ہے۔ 2021 میں بےروزگاری کی شرح کو سامنے رکھتے ہوئے اِتنی بے روزگاری کی ملکی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ کرپشن کے خلاف اعلان جہاد کرنے والے عمران خان کی حکومت میں کرپشن کم نہیں ہوئی بلکہ بڑھی ہے ۔ دنیا بھر کے کرپشن انڈکس کے مطابق اس وقت پاکستان کرپشن کے اعتبار سے دنیا کے 175ممالک میں 127ویں نمبر پر ہے ایک اندازے کے مطابق پاکستا ن میں روزانہ سات ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔اس حوالے سے اگر ملک میں ہونے والی کرپشن کا حساب لگایا جائے تو ہمارے ہاں سرکاری ادارے اور حکمران سالانہ 25 کھرب 55ارب کی کرپشن کر رہے ہیں۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ بدعنوانیوں کے خاتمہ کیلئے نئے قوانین کا اطلاق کرے اور کرپشن کیخلاف آواز اٹھانے والوں کے تحفظ کو یقینی بنائے، کاش حکومت مندرجہ بالا حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے عوام پر رحم و کرم کرے اور کوئی اچھی معاشی ٹیم لے کر آئے جو ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کر سکے لیکن ایسا کچھ ہوتا ہوا نظر اس لیے نہیں آتا کہ الیکشن کو گذرے تین سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن ابھی تک حکومت اپوزیشن کو ہی لتاڑنے میں اپنی ساری طاقتیں سرف کیے ہوئے ہے اپوزیشن کو دھمکیوں، گرفتاریوں اور بیان بازی کی جنگ سے باہر نہیں نکل کر عوام الناس کی طرف توجہ دے کر ہی کچھ بہتر کیا جا سکتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت معاشی ترقی کے پروگراموں پر توجہ دے اور قانون کے اداروں کو اپنا کام اپنے مروجہ قانونی اور آئینی طریقہ کار کے مطابق کرنے دے۔ حکومت کی کوشش ہونی چاہیے کہ ان اداروں کو اتنا مضبوط کرے کہ وہ حکومت کی دخل اندازی کے بغیر اپنے کام کر سکیں اور بدعنوان لوگوں سے لوٹی ہوئی رقم ملکی قوانین کے مطابق حاصل کر سکیں نہ کہ حکومت کی غلط اور من گھڑت اطلاعات کی مہم کا حصہ بن کر اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں اور انہیں مزید کمزور کریں۔
ان قانونی اداروں کو آزادی سے کام کرنے کی اجازت دینے سے نہ صرف ملک میں سیاسی استحکام آئے گا بلکہ سرمایہ کاروں کا ملک کے سیاسی اور قانونی نظام کے بارے میں اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments