میرے کالج کی دو پریاں


کچھ عرصہ پہلے میرے بابا کے ایک دوست ڈاکٹر الیاس بابر اعوان کا ایک آرٹیکل نظر سے گزرا کہ ہمارے ہاں بچوں کو Fairy Tales سنا سنا کر سب اچھا ہے کا عادی بنا دیا جاتاہے اور ان کے اندر تنقیدی سوچ کو پنپنے ہی نہیں دیا جاتا- ان قصے کہانیوں ہی کا اثر ہے کہ وہ حالات وواقعات کو جوں کا توں قبول کرنے کے عادی بن جاتے ہیں- یہ آرٹیکل بلاشبہ ایک اہم موضوع کی جانب توجہ دلاتا ہے اور میں اس پر مزید تحقیق اور مختلف لوگوں کی رائے بھی جاننا چاہتی ہوں مگر جنوں اور پریوں کا تصور ذہن میں آتے ہی میرے ذہن میں وہ دو پریاں آگئیں جو اصل زندگی میں میری زندگی کا حصہ ہیں- محبت، خلوص، بے لوث جذبے سے سر شار شخصیات کا پیکر یہ دو پریاں میری زندگی میں کسی منتر کے بعد نہیں بلکہ کسی نصابی مسئلے کے پیش آنے پر اسے حل کرنے آتی ہیں- یہ میری بایولوجی کی لیکچرر میڈم فوزیہ الطاف اور فزکس کی لکچرر میڈم میمونہ الطاف ہیں- انتہائی کم عمر یعنی نوجوان، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سب سے بڑھ کر ہمارے ہی سکول سے گریجویٹ اس عزم کیساتھ تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہوئیں کہ جو مسائل اس سکول میں انہیں پیش آئے وہ اپنے طلبہ کو ان سے دوچار نہیں ہونے دیں گی اور انہوں نے ایسا کر کے دکھایا-
مجھے بچپن میں سنائی گئی پریوں کی کہانیوں پر یقین کرنے سے پہلے ہی میری والدہ مجھے ان کے سحر سے یہ کہہ کر نکال دیتی تھیں کہ ان کا وجود حقیقی دنیا میں نہیں ہوتا اس لئے جن کہانیوں پر مجھے بچپن میں یقین نہیں تھا کالج کے دنوں میں مس فوزیہ اور مس میمونہ کی وجہ سے یقین آگیا-
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میٹرک کے پریکٹیکل امتحانات تھے اور یہ دونوں ممتحن بن کر میرے سامنے تھیں- ملائم لہجہ اور مسکراتا چہرہ مس فوزیہ کا تھا جو مجھ سے محبت بھری نگاہوں سے امتحان کے سوال پوچھنے لگیں- دونوں کا انداز اور شخصیت اتنی ملتی جلتی تھی کہ میں اس سوچ میں پڑ گئی کہ کبھی یہ بالکل دھان پان سی لگتی ہیں اور کبھی تھوڑی سی موٹی – بعد میں لیب میں دونوں کو اکٹھا دیکھ کر ایک خوشگوار حیرت ہوئی کہ یہ تو دو ہیں اور دونوں ہی کتنی پیاری ہیں- وہ اتنے پیار سے میرا نام لے کر مجھے مخاطب کرتی تھیں کہ گماں بھی نہیں ہوتا تھا کہ میں آج ان کے سامنے پہلی بار آئی ہوں-
فرسٹ ائیر میں مس فوزیہ میری بایولوجی کی ٹیچر کے طور پر کلاس میں آئیں تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی- اور پھر پڑھائی کیساتھ ساتھ دوستی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا- وہ ایک استاد سے کچھ زیادہ تھیں- کورونا کی وجہ سے جب ہمارے امتحانات تاخیر کا شکار ہو رہے تھے تو کالج اور بورڈ دونوں جانب سے کوئی واضح ہدایات نہیں مل رہی تھیں تب بھی مس فوزیہ ہماری کلاس کیساتھ آن لائن رابطے میں رہیں- ہمارے لیے زوم کلاسز کی پریکٹس کا باقاعدہ آغاز ہونے سے پہلے وہ ہمیں زوم اور آن لائن سٹڈیز پر شفٹ کر چکی تھیں- وہ پڑھائی ہی نہیں زندگی کے بارے میں ہمیں گائیڈ کرتی تھیں اور مسلسل موٹیویشن کا باعث بنی رہیں یہاں تک کہ امتحانات کے ملتوی ہونے کا اعلان ہوگیااور وہ اپنے والد صاحب کیساتھ ذاتی مصروفیات کی وجہ سے پاکستان چلی گئیں-
مگر مجھ سے اتنا دور جا کر بھی وہ بالکل دور نہیں تھیں- جب مجھے کوئ پوائنٹ سمجھ میں نہ آتا تو میں ان کو واٹس ایپ کر دیتی، وہ مجھے فوراً جواب دیتیں، اگر کلیر نہ ہوتا تو لکھ کر مثالیں دے کر تصویری پیغام میں بھیج دیتیں- میں پھر پس و پیش سے کام لیتی تو سمجھ جاتی تھیں کہ ابھی بھی شاید سمجھ نہیں آئی تو وہ آڈیو وڈیو بھیج کر سمجھا دیتیں- مس میمونہ الطاف تو کالج میں میری سبجیکٹ ٹیچر بھی نہیں تھیں مگر میری فزکس کے تقریباً سارے مسائل انہوں نے مجھے سمجھائے اور جھٹ پٹ سمجھائے- جیسے کوئی مسئلہ پیش آتا تو مس میمونہ کسی پری کی طرح چھڑی گھماتے ہی اسے میرے دماغ میں کلئیر کر دیتیں- میں یہ شفقت اور غیر معمولی محبت کبھی نہیں بھول سکتی- میں یہ برملا کہوں گی کہ میرے کالج کی یہ دونوں پریاں (لیکچررز) بطور استاد جدہ میں مقیم پاکستانیوں کا فخر اور پاکستان انٹرنیشنل سکول جدہ کا اثاثہ ہیں – مگر افسوس ان کی پاکستان منتقلی کے باعث آنے والے طلبہ ان کے فیض سے محروم رہ گئے- ہاں مگر ان کے یو ٹیوب لیکچرز سے یقیناً مستفید ہوں گے-
لوگ کہتے ہیں کہ اپنے شاگردوں کو بیٹا کہہ کر بلانے والے اساتذہ کیا واقعی ہی انہیں اپنے بچوں جیسا سمجھتے ہیں تو میں اس سوال کا جواب پورے یقین کیساتھ ہاں میں دے سکتی ہوں کہ مجھے الله تعالیٰ نے عمدہ ٹیچرز سے نوازا اور میں ہمیشہ ان کیلئے دعا گو رہوں گی-
کسی نے کیا خوب کہا کہ ہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھول جاتے ہیں کہ کس نے کس رنگ کا لباس پہنا، کس نے کس رنگ کا جوتا پہنا- یہاں تک کہ یہ بھول جائیں گے کہ ہمیں کن مسائل کاسامنا تھا مگر ہمیں یہ کبھی نہیں بھولے گا کہ کون ہمارے ساتھ کس طرح پیش آیا اور اس کا ہماری زندگی میں کردار کیسا تھا- جو لوگ دوسروں کی زندگی میں آسانی لاتے ہیں- اللّٰہ پاک ان کی زندگی میں آسانی اور خوشیاں لاتے ہیں-

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments