جغرافیہ، قافیہ، اشرافیہ اور مافیا


جغرافیہ کے لحاظ سے ہمارا ملک انتہائی زرخیز اور اہم خطے میں واقع ہے۔ ہماری جغرافیائی اہمیت پر ماضی قریب میں بہت کتابیں لکھی گئی ہیں۔ گئے وقتوں میں لوگوں کو یہ گلہ رہتا تھا کہ قافیے کا صحیح استعمال نہیں ہو رہا اور اب بہت سے لوگ یہ گلہ کرتے پائے جاتے ہیں کہ ہم اپنے جغرافیہ کا صحیح استعمال نہیں کر رہے۔ برصغیر میں بسنے والے تمام افراد بالعموم اور مومن حضرات بالخصوص عمر کے کسی نہ کسی حصے میں شاعری ضرور کرتے ہیں۔

علامہ عنایت اللہ مشرقی جیسا سائنسدان بھی شاعری کرنے پر مجبور ہو گیا۔ ان کا خیال تھا کہ قوم کی اصلاح شاعری کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ بعض لوگوں کا خیال علامہ صاحب کے خیال کے بالکل برعکس تھا۔ مولانا حالی کہتے تھے کہ ”ہمارے شعرا ہی جہنم کو بھرنے کے لئے کافی ہیں“ ۔ کچھ عرصہ پہلے تک ہماری سب سے بڑی پیداوار شعرا اور اشعار تھے۔ قافیوں کی بہتات تھی۔ کافیاں اگرچہ کم لکھی گئیں زیادہ طبع آزمائی نظم اور غزل کے میدان میں کی گئی۔

بعض شعرا کا ہاتھ تمام اصناف میں بہت کھلا تھا مگر وہ قافیہ ایسا تنگ باندھتے تھے کہ لوگ دنگ رہ جاتے تھے۔ ناصر کاظمی کا خیال تھا کہ ”اگر غزل قافیہ پیمائی ہے تو انہیں بھی قافیہ پیمائی کر کے دیکھنی چاہیے“ ۔ حیدر علی آتش شہر میں قافیہ پیمائی کر کے تنگ آ گئے تو بادیہ پیمائی کا ارادہ کر لیا۔ ایک اور شاعر کو تو قسمت کی خوبی سے دنیا میں ہی حور مل گئی مگر وہ حور سے بھی زینہ بہ زینہ بس شاعری ہی سیکھنے لگے۔ اگر حور زینے اتر رہی ہوتی تھی تو وہ شاعری کے سرور میں مست ہوتے تھے اور اس سے ردیف، قافیہ، بندش خیال اور لفظ گری سیکھتے رہتے تھے۔

وہ کچھ سیکھ سکے یا نہیں حور بہر حال زندگی بھر کے لئے سبق سیکھ گئی۔ ہماری ایک شاعرہ شومئی قسمت سے حور نہیں تھیں۔ فقط عام انسان تھیں۔ ان کو عمر بھر یہی گلہ رہا کہ کسی نے ان سے قافیہ نہیں ملایا، تو کسی کی وجہ سے ان کا وزن گر گیا۔ وہ تمام عمر اس زمین کی طرح رہیں، جس پر کبھی کوئی شعر نہیں کہا گیا۔ ایک شاعر محبوب سے ناراض ہوئے تو اسے ستانے کے لئے یہاں تک کہہ دیا کہ اس کے ہاتھ سے تو زمانے کا قافیہ تنگ ہے۔

سلیم احمد ہماری بدتہذیبی پر غصے میں آئے تو کہنے لگے کہ ”ریچھنی کو شاعری سے کوئی غرض نہیں ہوتی اور آج کل تہذیب ہی کا قافیہ تنگ ہے“ ۔ خورشید احمد ملک عمر بھر کی جدوجہد کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ زندگی کوئی قافیہ نہیں ہے جس کو آسانی سے بدل لیا جائے۔ شمسی کے ایک شعر نے اس دور کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا۔ :

تلاش قافیہ میں عمر سب گزاری ہے
تو پختگی جسے کہتا ہے وہ خام کاری ہے

غرض اس دور میں سبھی قافیہ، قافیہ کرتے رہتے تھے۔ عوام کا دل کرتا تھا کہ بہت سے شعرا کا قافیہ تنگ کردے مگر یہ ان کے بس سے باہر تھا کیونکہ کسی بھی شاعر کے پاس زمین کی کمی نہیں تھی۔ شمس نے بجا کہا کہ سب لوگ ادب میں اتنے شیر و شکر ہیں کہ کسی مافیا کا گمان ہوتا ہے۔

وقت کا چلن تھوڑا بدلا۔ لوگوں نے قافیہ کی بابت سوچنا کم اور اشرافیہ کے بارے میں غور و فکر کرنا شروع کر دیا۔ بعض لوگ اشرافیہ کو تمام مسائل کی جڑ گردانتے تھے مگر خود اشرافیہ میں شامل ہونے کے لئے تگ و دو کرنا بھی نہیں چھوڑتے تھے۔ ہمارے بزرگوں کا یہ شیوہ رہا ہے، وہ جس کی وجہ سے بیمار ہوتے ہیں، دوا بھی اسی سے لیتے ہیں۔ بڑا عرصہ ہمارے ہاں اشرافیہ، اشرافیہ ہوتا رہا۔ کچھ لوگ اشرافیہ کے محاسن پر اتھارٹی بن گئے تو چند نے اشرافیہ کے نقصانات پر قلم توڑ دیا۔

چند کو وقت نے توڑ دیا۔ ہر طرف توڑ پھوڑ ہوتی رہی مگر اشرافیہ ثابت قدم اور ثابت رہی۔ اس بات کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ اب چند لوگ کہہ اٹھے ہیں کہ اشرافیہ، اشرافیہ نہیں ہے، پورا مافیا ہے۔ اشرافیہ اور مافیا آج کل ہمارے ہاں سب سے پسندیدہ موضوع ہیں۔ بہت سے لوگ اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ مافیا کی معفیہ ہونے میں ہی بچت ہے۔ بقا ہے۔ معفیہ کا مطلب مطیع اور فرماں بردار ہے۔ کئی لوگ مافیا کی معفیہ بنتے ہی اس لیے ہیں کہ ایک دن اشرافیہ اور مافیا میں نمایاں مقام حاصل کرسکیں۔

عوام کی اکثریت کی تعلیمی استعداد واجبی سی ہے۔ انہیں اشرافیہ اور مافیا کے درمیان تفریق کرنے میں کافی مشکلات درپیش آتی ہیں۔ بہت سے لوگ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اشرافیہ اور مافیا میں کیا رشتہ ہے۔ شیخ چلی اگر آج کے دور میں ہوتے اور اس رشتے کی بابت ان سے سوال کیا جاتا تو شاید وہ نہایت معصومانہ لہجے میں اپنا پسندیدہ جواب دہرا اٹھتے ”بھائی اگر آپ کو کبھی پتہ لگ جائے تو مجھے بھی سمجھا دیجئے گا“ ۔ بعض معاملات کی کھوج کرنے والوں کو پتہ نہیں لگتا ”لگ پتہ جاتا ہے“ اور پتا پانی ہو جاتا ہے۔

سماجیات کے ماہرین کو اس بابت تحقیق کرنی چاہیے کہ ہمارے لوگوں کے مسائل میں قافیہ، اشرافیہ اور مافیا کا کیا کردار ہے۔ عوام شاید اس بابت فیصلے کی استعداد نہ رکھتے ہوں۔ ایک غریب آدمی نے بڑے دکھ سے کہا تھا ”نادار لوگ جسے بھی عوامی آدمی سمجھتے ہیں وہ اشرافیہ کی گود میں جاکر بیٹھ جاتا ہے“ ۔ ایک صاحب نے اپنی نسل کے المیے کی عکاسی کرتے ہوئے کہا بالکل بجا کہا تھا۔ :

بہت بے زار ہیں اشرافیہ کی رہبری سے
کوئی انسان، کوئی خاک زادہ چاہتے ہیں

ایک صاحب دکھی لہجے میں یہ کہہ کر مجمع کو رلا دیتے ہیں ”ماضی میں ہمارے لوگ قافیہ بندی کی وجہ سے مسائل کا شکار رہے۔ ہمارا حال اشرافیہ کی بھائی بندی کی نظر ہو گیا ہے اور ہمارا مستقبل مافیا کی پابندی کی نظر ہو جائے گا۔ ہمارے مسائل کب ختم ہوں گے؟ ختم ہوں گے بھی یا نہیں؟ ہمارا ان صاحب سے متفق ہونا ضروری نہیں مگر یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں مسائل اور سائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ وسائل اور دلائل کم ہوتے جا رہے ہیں۔

پہلے لوگ دلائل سے ہار مان جاتے تھے اب کوئی دلائل کی پرواہ نہیں کرتا۔ شرفاء کا قافیہ تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ زٹل قافیہ اڑانے اور ہانکنے والوں کی کثرت ہوتی جا رہی ہے۔ کہتے ہیں کہ گئے وقتوں میں ایک صاحب قافیہ ملانے کے چکر میں دوسرے صاحب سے کہہ بیٹھے“ جاٹ رے جاٹ، تیرے منہ پر کھاٹ ”جواب ملا“ تیلی اے تیلی، تیرے سر پر کولھو ”۔ حیرت سے بتایا گیا کہ قافیہ تو ملا نہیں۔ نہایت اطمینان سے جو اباً فرمایا گیا“ قافیہ ملانا تو مقصد بھی نہیں تھا۔ نہیں ملا تو کیا ہوا۔ تم کولھو کے بوجھ سے تو مرو گئے ”۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ کوئی بھی مافیا ہماری قوم کا قافیہ تنگ نہ کرسکے۔ دنیا بھر کے ممالک ہماری پوری قوم کو اشرافیہ سمجھیں۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments