انٹرنیشنل ماؤنٹین ڈے


پاکستان اس لحاظ سے بھی دنیا کے خوش قسمت ممالک میں سے ہے کہ پولر ریجن کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ گلیشیئرز پاک سرزمین پر پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں پائے جانے والے مجموعی گلیشیئرز کی تعداد سات ہزار دو سو ترپن ہے جبکہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی سمیت کئی بڑے بڑے پہاڑ پاکستان کے پہاڑی سلسلوں میں موجود ہیں۔ یہ گلیشیئرز ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں اور ان کا تحفظ نہ صرف ہماری بلکہ عالمی برادری کی بھی اہم ذمہ داری ہے کیونکہ گلیشیئرز پگھلنے سے سمندروں میں سطح آب اوپر آنے سے بہت سے شہروں کو مستقبل میں خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

گلیشیئرز صاف اور تازہ پانی کا سر چشمہ ہوتے ہیں لیکن ہماری بدنصیبی دیکھئے کہ یہاں آبادی کی اکثریت کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔ جس قدر گلیشیئرز اور صاف پانی کے چشمے پاکستان میں پائے جاتے ہیں اس لحاظ سے پاکستان کو دنیا میں صاف پانی کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہونا چاہیے تھا۔ باقی وسائل اپنی جگہ، صرف صاف پانی بیچ کر ہی ہم اپنی معیشت کو بھر پور توانائی مہیا کر سکتے ہیں۔ پہاڑ ہماری دھرتی کا حسن ہیں اور فطرت کی خوبصورت نشانیاں ہیں جبکہ سر سبز اور برفیلے پہاڑ ہر سال کروڑوں سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔

یہاں تک کہ نئے شادی شدہ جوڑے ہنی مون منانے کے لئے بھی حسین پہاڑی وادیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر ہر سال گیارہ دسمبر کو انٹرنیشنل ماؤنٹین ڈے منانے کا اعلان کیا گیا ہے جس کا سلسلہ گزشتہ چودہ سال سے جاری و ساری ہے۔ اس کا بنیادی مقصد پہاڑوں کے تحفظ کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی و شعور پیدا کرنا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر مجھے اس بات کی خوشی ہوئی کہ ملکہ کوہسار مری میں واقع کوہسار یونیورسٹی نے اس سلسلے میں ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا جس میں شرکت کا مجھے بھی موقع ملا۔

پہاڑوں کے عالمی دن کے حوالے سے ماحولیاتی تبدیلیاں، حیاتیاتی تنوع اور فوڈ سیکیورٹی جیسے مسائل اس پروقار تقریب کا خصوصی موضوع تھے۔ کوہسار یونیورسٹی مری کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سید حبیب علی بخاری مبارکباد کے مستحق ہیں جنھوں نے بہت سی دیگر یونیورسٹیوں کے ماہرین، مقامی سیاست دانوں، پہاڑوں کے حوالے سے کام کرنے والوں اور طلبا کو اس موضوع پر گفتگو اور آگاہی کے لئے اکٹھا کیا۔ تمام شرکا اور مقررین نے اس حوالے سے پر مغز باتیں کیں جبکہ مقامی سکولوں اور کوہسار یونیورسٹی کے طلبا نے مختلف پروگرام بھی پیش کیے۔

تقریب میں وزیر اعظم کے فوکل پرسن برائے پناہ گاہ نسیم الرحمن سمیت متعدد یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز، سٹیشن کمانڈر مری اور دیگر معززین نے بھی سیمینار میں شرکت کی۔ اس موقع پر نسیم الرحمن نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر گفتگو کرتے ہوئے حکومت پاکستان کے بلین ٹری اور دیگر ماحول دوست اقدامات کے بارے میں حاضرین کو آگاہی دی۔ انھوں نے اس موقع پر بتایا کہ پناہ گاہیں حکومت کے ماحول دوست اقدامات کا اہم حصہ ہیں۔

گاؤں دیہاتوں سے شہروں کی طرف ہجرت کا رجحان ان شہروں کے ماحول پر برے طریقے سے اثر انداز ہوتا ہے۔ ان نئے آنے والے دیہاتی اور مزدور پیشہ مہاجرین کے پاس عام طور پر باعزت طریقے سے سر چھپانے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ لیکن موجودہ تحریک انصاف کی حکومت نے روٹی، کپڑا اور مکان سے آگے کی سوچ کے تحت پناہ گاہیں قائم کی ہیں تاکہ عام آدمی کو سر چھپانے کے لئے باعزت ٹھکانہ میسر آ سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ مقررین نے طلبا پر زور دیا کہ وہ مری اور اس کے گرد و نواح کو صاف اور اس کی خوبصورتی قائم رکھنے کے لئے قائدانہ کردار ادا کریں۔

تقریب میں ملکہ کوہسار مری کے مسائل پر بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی اور حلقے کے ایم این اے صداقت عباسی نے بتایا کہ مری شہر میں سیاحوں کا بوجھ کم کرنے کے لئے متصل سیاحتی علاقوں میں رابطہ سڑکوں کے ساتھ ساتھ جی ٹی روڈ لاہور سے مری تک براستہ کوٹلی ستیاں ایک اور سیاحتی روڈ بنایا جا رہا ہے۔ مری کے بیچوں بیچ کشمیر پوائنٹ پر واقع کوہسار یونیورسٹی مقامی طلبا کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ یہ یونیورسٹی بہت پہلے قائم ہونی چاہیے تھی بہرحال دیر آئے درست آئے کے مصداق امید ہے کہ کوہسار یونیورسٹی میں متعارف کرائے گئے اور مارکیٹ کے رجحانات کو مد نظر رکھتے ہوئے متنوع پروفیشنل پروگرامز نہ صرف اعلیٰ تعلیم اور ریسرچ کو فروغ دیں گے بلکہ اس یونیورسٹی کی بدولت مقامی لوگوں کی سوچ کو بدلنے اور اس کونیا انداز دینے میں بھی مدد ملے گی۔

مری اور پاکستان کے دیگر پہاڑی علاقوں کا حسن جنگلات کے کٹاؤ کے باعث ماند پڑتا جا رہا ہے۔ حکومت کو اس بارے نئی ترجیحات طے کرنا ہوں گی اور عمل درآمد کے لئے مقامی کمیونٹی کے ساتھ مل کر جامع حکمت عملی وضع کرنا ہو گی۔ پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کے رش کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ کیا ہی بہتر ہو اگر ایک مدت سے رکے ہوئے اسلام آباد مظفر آباد ریلوے برانچ لائن کو بھی سی پیک کا حصہ بناتے ہوئے اس پر پیش رفت کی جائے تو نہ صرف مری اور اس کے گرد و نواح میں گاڑیوں کا رش کم ہو گا بلکہ سیاحت کو ایک نئی زندگی بھی ملے گی اور ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی ہو گی۔ اس کے ساتھ ساتھ پہاڑی علاقوں میں بائیو گیس چولہوں، سولر انرجی کے استعمال اور گیس سلنڈر پر سبسڈی کے ذریعے ہم ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل پر کافی حد تک قابو پا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments